Episode 10(b)- بچھڑے کی محبّت

83 12 5
                                    

Please episode ko vote kr dijiye.

.

اسلام آباد پر دوپہر اتری تھی۔روشن، چمکدار اور خوشنما۔

اونچے درختوں والے گھر کا گیٹ کھلا اور کار اندر داخل ہوئی۔نور کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔اونچے درخت، کشادہ باغیچہ، پورچ اور باغیچے کی مشترکہ سیڑھیاں، اوپر اپنے کمرے کی بالکونی، سٹڈی روم کی گلاس وال، اور داخلی دروازہ۔ سب پر ایک ساتھ نظر پڑی تھی۔ڈھیروں یادیں ذہن سے ٹکڑائیں تھیں۔ دل میں بہت کچھ ڈوب کر ابھرا تھا۔

گاڑی رک چکی تھی اور ڈرائور اسکے اترنے کا انتظار کر رہا تھا۔گیٹ کیپر نے آکر دروازہ کھولا تو وہ خیالوں سے جاگی۔وہ گاڑی سے اتری۔اس نے ہلکے نیلے رنگ کا شارٹ فراک پہن رکھا تھا جس پر ہلکی کڑہائی ہوئی تھی۔ سر پر اچھے سے دوپٹہ لے رکھا تھا۔ یہ وہ نورالعرش نہیں تھی جسکی تصاویر گھر کی بہت سی دیواروں پر آویزاں تھیں، بلکہ یہ وہ نورالعرش تھی جس نے زندگی کے سب سے خاص فیصلے میں ہدایت کا راستہ چنا تھا۔

ہاتھ پر باندھی گھڑی دیکھی۔گھڑی پونے دو بجا رہی تھی۔وہ آج بارھویں دفعہ گھڑی دیکھ چکی تھی۔اس لئے قطعاً نہیں کہ اسے تایا جان سے ملنے کی جلدی تھی بلکہ اسکے دل میں مسلسل کچھ ڈوب رہا تھا۔اور جوں جوں اس نے قدم آگے بڑھانا شروع کئے،تکلیف سی ہونے لگی۔اسے دیکھ کر تایا جان کا کیا رد عمل ہوگا؟

پورچ اور باغیچے کی مشترکہ سیڑھیوں پر چڑھتے اسے بہت کچھ یاد آیا۔اور وہ یادیں اسکے زہن سے نکل کر اب آنکھوں میں چھانے لگی تھیں۔اسے سیڑھیوں پر اداس سی سر جھکائے نور العرش بیٹھی نظر آئی تھی اور اسکے ساتھ حبیب۔اسے بچپن نظر آنے لگا تھا۔

اسے ایک ایک لمحہ یاد آنے لگا جو اسنے کبھی کھل کے جیا بھی نہیں۔ داخلی دروازہ عبور کرتے اسے مریم کی رخصتی یاد آنے لگی۔اسی دروازے کے پار وہ کھڑی تھی اور سامنے گاڑی کھڑی تھی۔

اندر گھس کر اسے سامنے دادی جان کے کمرے کا دروازہ نظر آیا۔جس کے اندر جا کر اسنے آخری دفعہ دادی جان کی آواز سنی تھی۔جہاں اس نے آخری دفعہ دادی جان کے گھٹنوں پر سر رکھے آنسو بہائے تھے۔

پھر سامنے اوپر کو جاتے زینے دکھے۔اور ان زینوں کو پھلانگتی نورالعرش نظر آئی۔جس نے جیکٹ پہن رکھی تھی،کھلے بال ہوا میں لہرا رہے تھے اور آنکھوں پر لائنر واضح تھا۔جو اپنے آپ میں بہت گم تھی۔ جو اس قدر لااُبالی تھی کہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ کس راستے پر چل رہی ہے۔جسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ وقت اسے پلٹ کر رکھ دیگا۔

لاؤنچ کا دروازہ آیا۔اندر سے روشنی باہر کو آرہی تھی۔یعنی تایا جان اندر تھے۔لاؤنچ کا دروازہ زرا سا کھلا تھا جس سے بلکل سامنے آویزاں بڑا سا شیشہ نظر آیا۔اسے سامنے اپنا عکس نظر آیا۔ایک نئی نورالعرش کا۔جسے شاید کوئی پہچان نہ پائے۔ اِن تین ماہ نے نہ صرف اسکی روح بلکہ اسکا جسم بھی تبدیل کردیا ہے۔اس 'نورالعرش' کا چہرہ، اُس 'نورالعرش' سے بلکل مختلف تھا۔کہاں وہ سیاہ لائنر سے بھری آنکھوں والا میک-اپ سے اٹا چہرہ اور کہاں یہ صاف اور سادہ سا معصومیت بھرا چہرہ۔ سب کچھ بدل گیاتھا۔ چہرہ،جسم،سوچ،دل،ذہنیت،اعمال،رشتے ، زندگی اور وقت۔سب کچھ!

*COMPLETE NOVEL*شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرےOnde histórias criam vida. Descubra agora