Please vote kerna mat bhooliye ga! I hope you will like the story. Enjoy!
"بیٹا!ایکزیم کی تیاری کیسی ہے؟"
"تایا جان!اچھی خاصی تیاری کی ہوئی ہے۔"نور نے مسکرا کر جواب دیا۔وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر چلے گئے۔
اور وہ پیچھے بیٹھی سوچ میں ہی رہ گئی۔ذندگی کتنی بدل گئی تھی!
کئی دن گزر گئے۔اب اسکی ایک روٹین سی بن ہی گئی تھی۔صبح کو اٹھتی،ناشتہ کر کے سٹڈی روم کا رخ کرتی،اور پھر شام کو ہی باہر آتی تھی۔اسکا زیادہ ٹائم پڑھائی میں ہی گزرتا تھا۔اکثر مریم بھی آکر اسکے ساتھ بیٹھ جاتی اور ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیتی۔پھر الفاظ ختم ہو جاتے تو چلی جاتی۔زرینہ بھی بیچ بیچ میں آتیں اور اسکی طبعیت معلوم کر کے،چائے کا پوچھ کر چلی جاتیں۔عائزہ بھی کبھی آجاتی تھی،اور ریسرچ کے حوالے سے نور سے ہیلپ لے لیتی تھی مگر نور کے بقول اسکا کوئی خاص انٹرسٹ نظر نہیں آ رہا تھا۔وہ ریسرچ میں توجہ نہیں لے رہی تھی اور باہر سے بنوانے کا ارادہ رکھتی تھی۔عثمان اب امریکہ چلا گیا تھااور سکندر تایا ابھی بھی یہیں تھے۔انہوں نے نور کے ساتھ ہی جانا تھا۔وہ یہاں کے بزنس کے معاملات سنبھال رہے تھے،جبکہ عثمان اُدھر سے کام کر رہا تھا۔شام کو جب وہ آتے تو نور کچھ دیر کے لئے انکے ساتھ بیٹھ جاتی۔کھانہ کھاتی اور اپنے کمرے کا رخ کرتی۔صبح اٹھ کر پھر ہی روٹین ہوتی تھی۔
(دادی جان جب زندہ بھی تھیں،تو سکندر تایا دو تین مہینے میں دو چکر لگایا کرتے اور یہاں کےبزنس کی دیکھ بھال کرتےاور آفس کے معاملات سنبھالتے۔اور اب چونکہ وہ کچھ دن تک یہیں تھے،تو وہ روز آفس چلے جایا کرتے تھے۔جمال(نور کے پاپا)آئی-ٹی فیلڈ میں تھے۔اور یہاں بھی انہوں نے آئی-ٹی کا دفتر ہی کھولا ہوا تھا،جو اب کافی گرو کر چکا تھا۔)
چونکہ چھٹیاں تھیں، تو وہ اپنی ریسرچ بنانے میں پوری طرح مگن تھی۔اور ریسرچ تو دادی جان کے بارے میں نا سوچنےکا ایک بہانہ بھی تھا۔ جب تک وہ کسی نہ کسی کام میں بزی رہتی ،ٹھیک رہتی۔مگر جوں ہی وہ دو پل فارغ بیٹھتی،اسے دادی جان یاد آنے لگتیں۔ وہ کوشش کرتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت مصروف ہی رہے۔ریسرچ کے ساتھ ساتھ وہ آئلٹس کی بھی تیاری کر رہی تھی۔
امریکہ جانے کی ہامی بھرنے پر سب بہت خوش تھے۔ان سب کی ایک مشکل آسان ہو گئی تھی۔ذمہ داری تھی،آسان ہو گئی تھی۔سکندر تایا نے اسی دن سے اسکے کاغذات بنانے شروع کر دئے تھے۔اسنے سکندر تایا کے ساتھ جا کر پاسپورٹ بھی بنوانے دے دیا تھا۔جو کہ اسکو پندراں دن میں ہی مل گیا تھا۔کچھ دنوں میں ہی اسکے آئلٹس کااگزام بھی تھااور ساتھ ہی 'ویزا'کے لئے بھی ایپلائے کر رکھا تھا۔
اس سب میں حبیب تو گو منظر سے غائب ہی ہو گیا تھا۔وہ اکثر کال کر لیتا اور زرینہ اور سکندر سے بات کر لیتا۔شروع شروع میں تو ہر روز کال کرتا تھا اور نور کا ضرور پوچھتا تھا پھر آہستہ آہستہ ایک اور پھر دو دن بعد کال کرتا تھا۔جب بھی کال کرے،نور کو سلام بھجواتا تھا۔نور کیمرے کے سامنے نہیں آتی تھی،اور کوئی اصرار بھی نہیں کرتا تھا۔وہ بس'وعلیکم اسلام' کہہ دیا کرتی تھی۔دونوں میں بات نہیں ہوتی تھی،واٹسایپ پر بھی کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔اب بچا بھی کیا تھا بات کرنے کو؟
VOUS LISEZ
*COMPLETE NOVEL*شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرے
Fantasyمحبّت کا ایک رنگ ہوتا ہے۔ اور ہر محبت کرنے والا اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ وہ رنگ نور کا ہوتا ہےٗ روشنی کا۔ محبت انسان کی شامِ اندھیر کو چراغاں کر دیتی ہے۔ محبت وہی ہے جو انسان کی شبِ تاریک میں اجالا کر دیتی ہے۔ محبت عجیب رنگ ہے! آۓ حبیب اور نورالعرش...