Please vote for the episode!
.
شمال:
آج انکا یہاں چوتھا دن اور تیسری سمت تھی۔ نتاشہ کا آج زرا سا منہ بنا ہوا تھا مگر ناامیدی دور دور تک کہیں نہیں تھی۔ وہ بس اداس تھی کہ اسکی سوچ کے برعکس دو دنوں میں وہ پھول نہیں ڈھونڈ سکیں۔ وہ جلد از جلد ڈھونڈنا چاہتی تھی۔آج بارش کے کوئی امکان نہیں تھا۔ موسم ہمیشہ کی طرح ٹھنڈا برف تھا البتہ کسی کسی وقت انہیں اونچے اونچے درختوں کے درمیان سے دھوپ چھن کر آتی محسوس ہوتی مگر اگلے ہی لمحے ٹھنڈی ہوا کا ایک اور جھونکا آجاتا اور دھوپ کی گرمائش جانے کہاں چلی جاتی۔
پلان کے مطابق وہ چلتی رہیں اور درختوں کے ایک ایک شاخ کو چھانٹی مارتی رہیں کہ کہیں کسی شاخ کے درمیان نہ چھپا پڑا ہو۔
سورج ڈوب رہا تھا جب وہ دونوں منہ لٹکائے واپس آ رہی تھیں۔ پھول تو کیا، کسی پودے کے پتے تک کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔پورا دن کھج و خوار ہونے کے بعد جب کوئی ناکام اور بےبس نظروں کے ساتھ لوٹتا ہے، اسکا درد کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ وہ تھک چکی تھی مگر ہاری نہیں تھی۔ وہ ٹھان بیٹھی تھی کہ اب تو وہ پھول لینا ہی لینا ہے چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے۔ وہ عبدالرزاق کی بیٹی تھی، اگر کسی بات پر اَڑ جاتی تو اَڑ جاتی۔
ناکامی کا ایک اور دن۔
اب ساری امیدیں جنوب کی جانب تھیں۔ نتاشہ نے اپنے دماغ میں یہ بات نقش کر لی تھی کہ ہو نہ ہو، وہ پھول جنوب کی جانب ہی کہیں اُگا ہوگا اسکے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ تینوں سمتوں میں انہوں نے ڈھونڈ لیا مگر بے سود...اب آخری امید جنوب سے تھی۔
٭٭٭
جنوب:
آج وہ دونوں جلد ہی تیار تھیں۔ آج انہوں نے جنوب میں ڈھونڈنا تھا۔ ڈیانہ کے برعکس نتاشہ آج کافی فریش اور پُرامید سی دکھ رہی تھی۔ اسے پوری امید تھی کہ آخر آج وہ پھول انہیں کہیں نہ کہیں مل ہی جائگا۔ آج اس نے جلد ہی اٹھ کر نوڈلز بائل کر لئے تھے۔ ناشتہ کرتے ہی وہ دونوں نکل گئی تھیں۔
ایک آخری کوشش۔
اس جانب کامی درختوں سے زیادہ چھوٹے چھوٹے تالاب سے تھے اور یہاں جو چند کامی درخت تھے، انکی شاخیں باقی تینوں سمتوں کی طرح بلند بانگ نہیں تھیں بلکہ عام درختوں کی طرح چھوٹی چھوٹی تھیں۔
ڈیانہ نے آج بھی پورا وقت ہاتھ میں اپنی بوتل پکڑ رکھی تھی۔ نتاشہ نے دیکھا جوں ہی وہ زرا سست ہوتی فوراً وہ پانی پی لیتی اور پھر اسکی رفتار تیز ہو جاتی۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ڈیانہ نے اس بوتل میں موجود پانی میں الکوہول اور انرجی پاؤڈرز مکس کر رکھے ہیں۔
آج نتاشہ غور غور سے ایک ایک جھاڑی کو دیکھ رہی تھی کہ کہیں کسی جھاڑی کے درمیان وہ پھول نہ چھپا پڑا ہو۔ آج بھی انہوں نے کئی گھنٹے چلنے کے بعد ہی توقف کیا تھا۔ نتاشہ کی آنکھوں میں اب بھی امید کی کرنیں چمک رہی تھیں۔اسے یقین تھا کہ اس نے وہ پھول یہاں سے لے کر ہی جانا ہے۔ کچھ دیر کے بعد پھر سے چلنا شروع ہو گئے۔
YOU ARE READING
*COMPLETE NOVEL*شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرے
Fantasyمحبّت کا ایک رنگ ہوتا ہے۔ اور ہر محبت کرنے والا اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ وہ رنگ نور کا ہوتا ہےٗ روشنی کا۔ محبت انسان کی شامِ اندھیر کو چراغاں کر دیتی ہے۔ محبت وہی ہے جو انسان کی شبِ تاریک میں اجالا کر دیتی ہے۔ محبت عجیب رنگ ہے! آۓ حبیب اور نورالعرش...