Please vote for the episode.
.
دولۃ القطر کے درالحکومت 'دوحۃ' کے ساحلِ سمندر پر روشناں اتری تھیں۔ساحل پر واقع 'دوحۃ کرونِک' پر ہمیشہ کی طرح رش لگا ہوا تھا۔ سیاحوں اور شہریوں کی کثیر تعداد وہاں مزے کر رہی تھی۔ دوحۃ کرونِک ساحل پر تقریباً سات کلومیٹر تک ،ایک لکیر کی مانند پھیلا ہوا ہے۔ اور وہاں کھڑے ہو کر مغربی خلیج پر واقع تقریباً تمام بلند بانگ عمارات کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
پارٹی کے تمام مہمان اس وقت کرونک پر موجود تھے۔کرونک پر ڈھیڑوں فیریز موجود تھیں جو وہاں سے سیاحوں کو ساحل سے لے کر جزیروں تک لے کر جاتی تھیں۔شہر دوحۃ میں پانچ چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں،جنکو دوحۃ کا حصّہ ہی مانا جاتا ہے۔بنانہ آئلینڈ،دی پرل قطر،السفلیہ آئلینڈ، العالیہ آئلینڈ اور ہلول آئلینڈ۔سب جزیرے مختلف کاموں کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔جن میں 'بنانہ آئلینڈ' اور 'دی پرل قطر ' کے علاوہ باقی تینوں جزیروں کو انڈسٹریل کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
پارٹی 'بنانہ آئلینڈ' پر تھی سو سب وہی فیریز میں بیٹھ رہے تھے جن پر 'بنانہ آئلیند ریسارٹ' لکھا تھا۔ نورالعرش،حبیب،مراد اور نتاشہ سب سے پیچھے ایک ساتھ ہی کھڑے تھے۔باقی سب آگے ایک ایک کر کے فیریز پر بیٹھ رہے تھے۔
نورالعرش نے میرون کامدار فراک پہن رکھا تھا،جس پر سنہرے رنگ کا کام ہوا تھا ۔ اسکے چہرے پر آج ایک الگ سا نور برس رہا تھا۔اس نے چہرے پر زیادہ میک اپ نہیں کیا تھا،اور بال بھی سمیٹے تھے۔ہلکی سی لال لپس ٹک اس پر جج رہی تھی۔گلے میں ہرے پتھر والا پینڈنٹ چمک رہا تھا۔اور سنہری آنکھیں آج روز سے زیادہ چجگمگا رہی تھیں۔ان آنکھوں کی چمک جیسے ساری روشنیاں خود میں سمیٹنا چاہ رہی تھیں۔ وہ مسکرا رہی تھی،اور اسکی مسکراہٹ آج ہمیشہ جیسی نہیں تھی۔آج اس میں کچھ اور تھا۔ کچھ خاص۔ کچھ ایکسٹرا۔ کچھ ایسا جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ جلتی شمع کے گرد گھومتے پروانوں کے مطمئن چہروں کی مانند۔ وہ سامنے خوبصورت منظر دیکھ رہی تھی۔ جو کسی خواب سے زیادہ تو ہو سکتا تھا مگر کم نہیں۔ بڑی بلند بانگ عمارتوں کی روشنیاں سامنے سمندر پر گر رہی تھیں اور شبِ تاریک بھی کسی چمکتے دن سی لگ رہی تھی۔ آسمان پر ماہِ تمام بھی آج یہ منظر دیکھنا آن پہنچا تھا۔
اس کے ساتھ کھڑےحبیب نے سیاہ رنگ کا تھری پیس پہن رکھا تھا،اندر سفید شرٹ ۔بال آج ہمیشہ کے برعکس زرا بنے تنے تھے۔ اسکی بھوری آنکھیں بھی آج چمک رہی تھیں۔ خوشی سے زیادہ اطمینان سے۔ خوبصورتی سے زیادہ مسکان سے۔ چہرہ تو اسکا مسکراہٹ سے ہمیشہ چمکتا رہتا تھا۔ وہ بھی چہرہ اٹھائے مسکرا کر سامنے فیریز دیکھ رہا تھا۔کئی دفعہ اسکا دل چاہا تھا کہ ان فیریز میں ایک دفعہ سفر کر کے دیکھے مگر موقع ملا نہ وقت برابر ہوا۔اور اسکے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ بات نہیں تھی کہ فیری میں جب وہ سفر کریگا تو اکیلا نہیں ہوگا بلکہ اسکے ساتھ نورالعرش بھی ہوگی۔
KAMU SEDANG MEMBACA
*COMPLETE NOVEL*شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرے
Fantasiمحبّت کا ایک رنگ ہوتا ہے۔ اور ہر محبت کرنے والا اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ وہ رنگ نور کا ہوتا ہےٗ روشنی کا۔ محبت انسان کی شامِ اندھیر کو چراغاں کر دیتی ہے۔ محبت وہی ہے جو انسان کی شبِ تاریک میں اجالا کر دیتی ہے۔ محبت عجیب رنگ ہے! آۓ حبیب اور نورالعرش...