Episode no.18

291 24 36
                                    



ہم سزاؤں کے حق دار بنے ہیں کب سے

تم ہی کہہ دو کے جرم ہے کیا محبت کرنا؟


_____


کالج روڈ پر وہ اکیلی لڑکی انجان رستۂ اور ہر طرف شام کے ساۓ پھیل رہے تھے وہ اکیلی اپنی بیٹی کو لے کر کہاں جاۓ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اچانک اسے اپنی دوست کا خیال آیا اس نے اسے کال کی اس کی دوست نے اسے کہا کے وہ اسے کچھ دیر میں ریسیو کرے گی اب وہ اس وقت فٹ پاتھ پر کھڑی اپنی دوست کا انتظار کررہی تھی۔۔۔


__________________________


سب لوگ اس وقت اس کے کمرے میں جمع تھے ڈاکڑ اس کا چیک اپ کر کے جاچکا تھا اور اب نائلا بیگم اس کے سر ہانے بیٹھی ہوئيں تھیں اور دوسری جانب بی جان بیٹھی ہوئیں تھیں کمال صاحب،زیشان،آنیۂ،نازیۂ بیگم اس وقت کچن میں حارث کے سوپ بنا رہی تھیں عالیۂ بیگم اور رحمن صاحب بھی وہیں موجود تھے کے اسی ثنا میں دا جان اندر آۓ۔۔۔

"دا جان آئیں نا آپ یہاں بیٹھ جا۔۔۔"

رحمن صاحب ان کے آنے پر کچھ بولتے کے شاہ صاحب نے ان کو ہاتھ کے اشارے سے روکا۔۔۔


"کیا کہا ہے ڈاکڑ نے کسی طبیعت ہے اس کی۔۔۔؟"

وہ بولے۔۔


"ڈاکڑ نے کچھ دوائیاں لکھ کر دی ہیں ابھی ہوش میں آئیں گے تو وہ دینی ہے اب بہتر ہیں پہلے سے بھائي۔۔۔۔"

زیشان نے ان کو آگاہ کیا۔۔۔۔


"ہنمم۔۔۔"

انھوں نے مختصر جواب دیا۔۔۔


"ماں۔۔۔۔آہ۔۔"

حارث کو ہوش آچکا تھا دھیرے دھیرے وہ آنکھیں کھول رہا تھا۔۔پہلے اندھیرا تھا اور پھر اسے اپنی ماں اور بی جان کا چہرہ دیکھائی دیا۔۔۔۔


"میرا بچا ماں صدقے۔۔۔اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو۔۔۔"

حارث کے ہوش میں آنے پر بی جان اور نائلا بیگم دونوں متوجۂ ہوئیں۔۔۔۔


"افف۔۔۔"

وہ درد سے کراہا تھا اس کا سر پھٹ جانے کو تھا۔۔۔


"مجھے لڑکے سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔۔"

وہ کہہ کر رکے۔۔۔


"سب باہر جائیں۔۔۔۔"

وہ بولے سب نے پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ایک ایک کر کے سب باہر جانے لگے بی جان باہر بارہی تھیں کے انھوں نے ایک نظر شاہ صاحب کو دیکھا جو کوئی عزم لیے کھڑے تھے شاہ صاحب ان کی نظروں کا مفہوم سمجھ چکے تھے اس لیے ایک نظر دیکھ کر نظریں پھیر لیں۔۔۔

زن _ے_ مجبور💖Where stories live. Discover now