Episode no.32

198 20 46
                                    



آج انھیں آۓ دو ہفتے ہو چکے تھے علوینۂ حارث کی توجۂ حاصل کرنے کی پوری کوشش کررہی تھی مگر اس نے بھی ایک عمر گزاری تھی وہ ایک سمجھ دار اور میچور مرد تھا عمر زیادہ نا تھی اس کی وہ چھبس سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا وہ سب کچھ سمجھتا تھا وہ بس اپنی بیوی سے ہی محبت کرتا تھا پر

یۂ بات بھی سچ ہے کے چاہے مرد شادی شدہ ہے کے نہیں وہ دوسری عورتوں کی طرف متوجۂ ضرور ہوتا ہے پر یۂ بات بھی ہے کے ایک عورت کو چاہیے کے اپنے مرد کو خوش رکھے اسے وقت دے تاکے وہ کسی اور کی طرف متوجۂ نا ہو اور مرد کو بھی چاہیے کے اپنی عورت کو خوش رکھے مگر آج کل کے لوگ مکافات کو بھول گئے ہیں کہتے ہیں کے مرد اپنی جوانی میں اپنے اعمال سے اپنی بیٹی کے نصیب لکھتا ہے

اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسا تم چاہتے ہو کے تمہارا داماد تمہاری بیٹی کے ساتھ رکھے

کیا کوئی باپ ایسا بھی ہے جو چاہتا ہے کے اس کا داماد اس کی بیٹی کو خوشیاں نا دے اس کی خواہشیں پوری نا کرے اس کے نخرے نا اٹھاۓ مگر باپ تو باپ ہوتا ہے نا باپ ایک ایسا عظیم رشتۂ ہے جو اپنی اولاد کو بھر پور سایۂ شفقت دیتا ہے اپنی بچوں کو خواہشیں پوری کرتا ہے ان کے لیے کماتا ہے ان کے لیے محنت کرتا ہے کون کہتا ہے کے دھوپ میں کی گئی محنت اور اے سی کے کمرے میں بیٹھ کر کی گئی محنت برابر نہیں محنت تو محنت ہوتی ہے نا کیا اس سب سے اولاد کے لیے پیار کم ہوجات ہے کبھی بھی نہیں ایک باپ کا پیار اپنی اولاد کے لیے کبھی بھی ختم نہیں ہوتا

حویلی میں سب کچھ معمول پر تھا سواۓ ماہ کے اس کے ساتھ تو جیسے قسمت کھیل ہی کھیل رہی تھی پر وہ بہتر جانتا ہے کے کسے کیا دینا ہے اور کس وقت دینا ہے

عافیۂ اور آئمۂ کے سسرال والے کچھ روز پہلے تاریخ لے کر جاچکے تھے ان دونوں کا نکاح آگے پیچھے پر ایک ہی دن رکھا گیا تھا ایک کا ظہر کے وقت اور ایک کا عصر کے وقت پر اس بات پر سدرہ بیگم حصۂ ڈالے بغیر نا رہ سکی تھیں انھوں نے کہا کے میری علوینۂ کے لیے بھی کوئی اچھا سا رشتۂ ڈھونڈو لیکن اس وقت دا جان اور بی جان نے ان کی بات کسی اور وقت کے لیے ٹال دی پر یۂ ٹال مٹول بھی آخر کتنی دیر تک کامیاب ہوتی

________________________

آنیۂ سے حارث کو پتۂ چلا تھا کے ماہ کو اس دن سے ہی بہت تیز بخار ہے اور حارث نے بھی کئی دنوں سے اپنی بیوی کو نہیں دیکھا تھا وہ کواٹر کی طرف بڑھا اس نے اس کے کمرے کے باہر جاکر دروازے پر دستک دی وہ باہر کھڑا تھا کے ایک نوکرانی وہاں سے گزرتی ہوئی بولی

"شاہ صاحب کچھ چاہیے"

حارث نے رخ موڑ کر انھیں دیکھا وہ کئی سالوں سے وہاں کام کررہی تھیں

"جی نہیں "

حارث نے نظریں جھکا کر کہا تو وہ آگے بڑھ گئیں اب اس راہ داری میں کو ئی بھی نا تھا

زن _ے_ مجبور💖Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang