Episode 1.

1.9K 46 20
                                    


# "محبت کچھ یوں ہے تم سے"
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 1

بے سروسامانی کی حالت میں وہ ریلوے اسٹیشن پر چلتی جا رہی تھی۔ بہت سی نظریں اس کا پیچھا بھی کر رہی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ اب اس کی زندگی کا ایک خوشگوار آغاز ہونے والا تھا مگر یہ خیال، محض خیال ہی رہ گیا۔ اس کا شوہر، اس کا محافظ اسے یوں بیچ راستے چھوڑ گیا بِنا کوئی اَتا پتا دیے۔ وہ اسے ڈھونڈتی بھی تو کیسے؟ وہ ابھی صرف ایک دن کی دلہن تھی۔ ابھی تو اس کے شوہر نے اس کے ساتھ دو گھڑی بات بھی نہ کی تھی۔ ابھی تو اسے منہ دکھائی تک نہ دی تھی۔ اور وہ اسے اس شادی کا پہلا اور آخری تحفہ دے گیا تھا۔ اس کے پاس کچھ نہیں تھا سوائے ایک چھوٹے سے کلَچ کے، جو اس کے عروسی جوڑے کے ساتھ کا تھا۔ اس میں ایک کاغذ تھا جس پر طلاق اور اس کے شوہر کے دستخط تھے۔ اب اس کے دستخط کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑنا تھا۔ مگر جو چیز اسے سنبھال کر رکھنی تھی وہ یہ طلاق نامہ تھا جو اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے تو ابھی تک اپنے گھر میں قدم بھی نہ رکھا تھا، جو اس کا اور اس کے شوہر کا گھر تھا، جس میں وہ اس کے ساتھ رہنے جا رہی تھی۔ زندگی خوشگوار سے ایک دم اندھیر کیسے ہو گئی تھی؟ ریلوے اسٹیشن پر بہت سے لوگوں نے سرخ لباس پہنے، زیورات کے نام پر بس ایک ٹیکا ماتھے پہ سجائے اس بوکھلائی سی لڑکی کو دیکھا جو شاید کچھ ڈھونڈ رہی تھی یا کسی سے چھپ رہی تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شادی کے جوڑے میں اپنے گھر سے بھاگی ہے، اور جس کے لیے بھاگی ہے وہ ابھی تک نہیں آیا۔ ہر ایک نے اپنا اپنا اندازہ لگانا ضروری سمجھا تھا۔ کئی ایک لڑکوں نے آوازیں کَسنی شروع کر دی تھیں۔ کچھ نے اسے چھوا بھی تھا اور چھوتے چھوتے گزر گئے۔ وہ بچتی بچاتی اس بھیڑ سے نکلتی ریلوے اسٹیشن سے باہر آ گئی مگر اس کا یہ روپ اسے بھیڑ میں بھی نمایاں کر رہا تھا۔ وہ رو دینے کو تھی مگر رونا نہیں چاہتی تھی۔ آنسو ضبط کیے وہ اب بازار میں سے گزر رہی تھی۔ نجانے کس چیز کی تلاش تھی۔ کوئی سمت بھی تو متعین نہیں تھی کہ وہ کہاں جاتی۔ بس جدھر کو قدم اٹھتے گئے، چلتی رہی۔ اسے کس سے گلہ تھا، قسمت سے؟ یا پھر خود سے؟ پہلے ماں باپ نہیں تھے۔ پھر منہ بولے ہی سہی، ماں باپ ملے تو تھے۔ مگر ان کی زندگی پر بھی اس کا سایہ پڑنے لگا۔ انھیں لگا اس کے رہتے ان کی اولاد کی شادی نہ ہوسکے گی۔ جو بھی رشتہ آتا وہ اسے پسند کر جاتا تھا۔ انھوں نے اسے سامنے لانا ہی چھوڑ ریا۔ اور پھر ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ ان کی بیٹی کی شادی بھی طے ہو گئی مگر عین نکاح کے وقت یہ سامنے آ گئی اور لڑکا اڑ گیا کہ اسی سے شادی کرے گا۔ انھوں نے اسے دھکے دے کر تو نہیں نکالا مگر اسے چپ چاپ جو پہلا رشتہ ملا تھا، اس سے نکاح کر کے سادگی سے رخصت کر دیا تھا۔ اور خود وہ لوگ ایران چلے گئے۔ اس سے کسی بھی قسم کا تعلق نہ رکھنے کے لیے رابطہ بھی نہ رکھا تھا۔ وہ اسی میں خوش تھی کی چلو اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزارے گی مگر وہ ایک ہی دن میں پھر سے بالکل بے آسرا ہو گئی تھی۔ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور خود نجانے کہاں اتر گیا تھا۔ وہ بھرے بازار میں سے گزر رہی تھی۔ کتنی دیر سے وہ یہاں گھوم رہی تھی اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ اندازہ تھا تو بس اتنا کہ اندھیرا پھیل چکا ہے۔ سوچوں کا ایک طوفان تھا جو اسے گرانے کے درپے تھا۔ چلتے چلتے وہ کسی سے ٹکرا گئی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک مرد تھا جس کہ چہرے پہ خباثت کے آثار تھے۔ وہ ٹکراتے ٹکراتے گِرنے لگی تو اس نے اپنی آہنی گرفت میں لے لیا۔ اس شخص کے منہ سے سگریٹ کی باس آ رہی تھی جیسے بہت زیادہ سگریٹ نوش ہو۔ شکل سے جواری بھی لگ رہا تھا۔
"اے چڑیا! کہاں کی تیاری ہے؟" وہ شخص اس کا ہاتھ سختی سے پکڑے اسے اپنے ساتھ لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے زور سے چلانا شروع کر دیا مگر نہ تو کوئی اس کی مدد کو آیا تھا اور نہ ہی اُس نے اِسے چھوڑا۔
"اے چپ کر! عزت کا خیال تھا تو گھر سے کیوں بھاگی تھی؟" اس آدمی نے جیسے اسے دھمکانے کی کوشش کی اور غرا کر کہا۔
"مجھے جانے دو! میں بے قصور ہوں, میں نے کچھ نہیں کیا۔ چھوڑو مجھے۔۔۔" وہ اپنا پورا زور لگا رہی تھی مگر اس خبیث آدمی کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے اس کے ہاتھ پہ کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ اسے گھن آ رہی تھی اس آدمی سے۔ اس کے کاٹنے سے اس آدمی کی گرفت اس پر ڈھیلی پڑی تو اس نے بھاگنا چاہا مگر وہ زیادہ شاطر تھا۔ اسے بالوں سے پکڑ کر کھینچا اور زور دار تھپڑ اس کے گال پر مارا۔ اس کے ہونٹ کا کنارہ پھٹ گیا۔
"بے غیرت! جب گھر سے بھاگی تھی تب عزت یاد نہیں آئی؟ اب عزت کے لالے پڑے ہیں۔ گھر سے نکلنے والی عورت کو ہمارے معاشرے میں طوائف ہی سمجھا جاتا ہے اور تو بھی وہی ہے۔ چل۔۔۔"
وہ اسے بالوں سے پکڑ کر کھینچتا ہوا آگے لے جا رہا تھا۔ وہ مزاحمت بھی کر رہی تھی مگر بے سود۔ اسے پتا بھی نہیں چلا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ تکلیف کی شدت تھی یا بے عزتی کا احساس؟ وہ سمجھ نہیں سکی، مگر وہ اب بھی خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ سارا اور اس کی نینی بازار سے کچھ خریداری کرنے آئی تھیں۔ انھیں گھر اور بچوں کے لیے کچھ چیزیں لینی تھیں۔ وہ دونوں گھر پہ تینوں بچوں کو اکیلا چھوڑ کر آئی تھیں اور جلدی جلدی خریداری کر رہی تھیں۔ کچھ راشن لینا تھا اور کچھ گھر کے استعمال کی چیزیں۔ چلتے چلتے انھیں ایک دکان میں لگی بیڈ شیٹ پسند آ گئی۔ سارا نے وہ خرید لی اور خرید کر دکان سے باہر نکل رہی تھی جب ایک طرف سے کسی لڑکی کی چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ سارا تقریباً بھاگتی ہوئی اس تک پہنچی تھی۔ ایک آدمی، دلہن کا جوڑا پہنے اس لڑکی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ لڑکی "چھوڑو مجھے۔۔۔۔کوئی ہے۔۔۔۔بچاؤ مجھے۔۔۔" چلّا رہی تھی اور رو بھی رہی تھی۔ لوگ دیکھ رہے تھے مگر کسی نے آگے بڑھ کر اسے چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ سارا تیز تیز قدموں سے اس کے پاس گئی اور ایک جھٹکے سے اس آدمی کو روکا تھا۔
"ہاتھ چھوڑو اس کا۔" کافی رعب سے کہا تھا۔ مگر وہ شاید بہت ڈھیٹ تھا یا عادی مجرم۔ اسے گھور کر دیکھنے لگا۔
"تم بیچ میں نہ پڑو۔ پرائی لڑکی ہے تمھارا اس سے کوئی واسطہ نہیں!" اس نے سارا سے کہا اور پھر سے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آگے بڑھا۔
"پلیز میری مدد کریں۔ یہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہا ہے۔" لڑکی نے اپنے بال چھڑانے کی کوشش کرتے کرتے ہچکی لے کر کہا تھا۔
"رک جاؤ! چھوڑ دو اسے ورنہ بہت پچھتاؤ گے۔ تم مجھے جانتے نہیں ہو۔" اس کی دھمکی پر وہ مڑا تھا مگر اس نے اس لڑکی کو نہیں چھوڑا تھا۔
"کون ہو تم؟ وزیرِاعظم کی بیوی ہو یا کہیں کی تھانیدارنی ہو؟" سارا دو قدم آگے آئی اور اس آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
"سکندر شیراز خان کی بہن ہوں میں۔" اس کا اتنا کہنا تھا کہ اس آدمی کی گرفت ایک دم ڈھیلی ہوئی اور اس کی آنکھوں میں ایک واضع خوف در آیا۔ وہ لڑکی ہاتھ اور بال چھڑا کر ایک دم سارا کے پیچھے آکر چھپ گئی تھی جیسے سارا اب اس کو بچا لے گی۔
"چھوڑ رہا ہوں۔ ویسے اس طرح کی لڑکیاں بدنامی کی کالک ہی لاتی ہیں۔ گھر سے بھاگی ہے یہ۔" اس نے جیسے سارا کو وارن کرنے کی کوشش کی تھی۔
"یہ تمھارا مسئلہ نہیں ہے۔ اس طرح راہ چلتے کسی بھی لڑکی کو اپنے ساتھ گھسیٹو گے تو تمھیں کیا لگتا ہے ایسے ہی بچ جاؤ گے؟ میں سکندر شیراز خان کی بہن ہوں۔ تمھارا تو میں وہ حشر کر واؤں گی کہ یاد رکھو گے۔" سارا نے اسے انگلی اٹھا کے وارننگ دی تھی۔ وہ جیسے آپے سے باہر ہو گیا۔
"اچھا؟ میں کیسے مان لوں کہ تم واقعی سکندر شیراز خان کی بہن ہو؟ کیا پتا تم مجھے بس ڈرا رہی ہو؟" وہ خباثت سے ہنستا سارا کی طرف بڑھا جیسے وہ پیچھے کو ہٹے مگر وہ ڈٹ کر کھڑی تھی۔ اس کے قریب آنے پر بھی وہ نہ ڈری اور نہ پیچھے ہوئی۔ بلکہ انگلی سے اس کو مذید آگے بڑھنے سے روکا۔
"اگر واقعی ایسا ہے جو تم کہہ رہے ہو تو ہاتھ لگا کے دکھاؤ اس لڑکی کو۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اگر تمھارا پوسٹ مارٹم نہ ہوا تو آکر مجھے بھی ساتھ لے جانا۔" سارا نے اسے یوں دھمکایا تھا کہ وہ آگے آنے کی ہمت نہ کر سکا۔
"جاؤ جاؤ! میں تم جیسی عورتوں کے منہ نہیں لگتا۔" وہ ہاتھ جھلاتا وہاں سے چلا گیا۔ سارا نے اپنے پیچھے مڑ کر اس ڈری سہمی سی لڑکی کو دیکھا جو تیئس چوبیس سال کے لگ بھگ دلہن بنی اور خوفزدہ سی لگ رہی تھی۔
"تم واقعی گھر سے بھاگی ہو؟" سارا نے نرمی سے پوچھا تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ سارا نے نینی کو اشارہ کیا اور کچھ شاپر انھیں پکڑا دیے۔
"آپ یہ لے کر گھر جائیں، میں آرہی ہوں۔" بازار ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔
"تم کہاں جا رہی تھی؟" نینی کو بھیج کر سارا نے اس لڑکی سے پوچھا۔
"میں؟" اسے ایکدم یاد آیا کہ وہ کہاں جا رہی تھی۔ اس کے پاس تو کوئی جگہ نہیں تھی۔
"تم شادی سے بھاگی ہو؟" سارا اسے ایک طرف لے آئی تھی۔ بازار میں بہت سے لوگ انھیں دیکھ رہے تھے۔
"نہیں!" اس سے مزید بولا نہیں گیا۔ آنسووں کا گولا حلق میں اٹک گیا تھا۔
"کہاں جانا ہے تمھیں؟ میں چھوڑ آتی ہوں۔" سارا نے نرمی سے اسے تسلی دیتی ہوئے کہا۔
"میرا کوئی گھر نہیں ہے!" وہ رونے لگی۔ کس مشکل سے وہ یہ بات کہہ پائی تھی، وہی جانتی تھی۔ سارا نے اس کے ویران چہرے اور پریشان حالی کو بہت غور سے دیکھا اور چند لمحے سوچ کر ایک فیصلہ کیا۔
"اچھا! پھر تم میرے ساتھ چلو۔ ابھی ویسے بھی تم کہیں جا نہیں سکتی۔ یہ جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔"
اسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے۔ وہ ضرورت مند تھی اور کسی پہ اس طرح اعتبار بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ سارا کو جانتی تو نہیں تھی نا۔ مگر پھر کوئی ٹھکانہ نہ ہونے کا سوچ کر وہ سارا کے ساتھ چل پڑی۔ وہ بازار سے گزر کر اب ایک کشادہ سڑک پر چل رہی تھیں۔ سڑک کے ارد گرد سبزہ تھا اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گھر بنے تھے۔ پرُسکون ماحول تھا۔ اسی سڑک پہ چلتے چلتے، قطار میں کچھ آگے وہ لکڑی کا ایک درمیانہ سا گیٹ عبور کر کے ان کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔ اندر ایک طرف کو ڈرائیو وے تھا اور دوسری طرف لان تھا جس میں سفید رنگ کا زنجیر سے بندھا کرسی نما جھولا بھی لگا تھا۔ پاس ہی کچھ فاصلے پر ایک میز اور تین کرسیاں تھیں۔ وہ راستے سے چلتے اندرونی دروازے سے اندر داخل ہوئی تو دائیں طرف کو ایک کمرہ بنا تھا جس کی ایک کھڑکی باہر لان میں کھلتی تھی۔ وہ پہلا کمرہ تھا۔ اس کے بعد ایک اور کمرہ تھا جو پہلے کمرے کے ساتھ ہی تھا اور اس کی کھڑکی باہر کو کھلتی تھی۔ بائیں جانب کو کمروں کے آگے کھلا سا لاؤنج تھا جس کے درمیان میں ڈائننگ ٹیبل اور آٹھ کرسیاں رکھی تھیں اور اس کے سامنے اوپن کچن تھا۔ کچن کے آگے کی جانب ایک اور کمرہ تھا۔ ایک کمرہ پہلے کمرے کے بالکل سامنے تھا۔ وہ یقیناً ڈرائنگ روم تھا۔ سارا نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اسے پانی لا کر دیا۔ پانی پی کر کچھ دیر تک اس نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ تھوڑی دیر میں نینی چائے اور کچھ دوسری چیزیں بھی رکھ کر ساتھ میں لے آئیں۔ وہ کل سے بھوکی تھی۔ اس کے شوہر نے بھی اسے کچھ نہیں کھلایا تھا۔ پورا دن سفر میں رہی تھی اور اب شام ہونے کو تھی۔ تھوڑا سا کھا کر اس نے چائے پی تھی۔ اب وہ کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ سارا نے اس سے پوچھا تو اس نے مختصر بتایا کہ وہ ایک فیملی کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے ماں باپ نہیں تھے۔ اور جن کو وہ ماں باپ سمجھتی تھی انھوں نے اس کی شادی ایک فارن نیشنل لڑکے سے کر کے اپنی جان چھڑائی تھی۔ مگر وہ لڑکا اس کا سامان اور ساری چیزیں لے کر نجانے کہاں اتر گیا اور وہ جب سوتے سے اٹھی تو اس کے کلچ میں بس اس کا آئی ڈی کارڈ اور طلاق نامہ تھا۔ وہ اس کے پرس میں موجود پیسے بھی لے گیا تھا۔ سارا اس کی بات سن کر افسوس کرنے لگی تھی۔ اس کے بتانے پر کہ اب اس کا اپنے ماں باپ سے بھی رابطہ نہیں، سارا نے اسے اپنے ساتھ ہی رہنے کا کہہ دیا۔ وہ حیران ہوتی، سارا کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ اسے لگا تھا ابھی زندگی اس پر اتنی تنگ نہیں ہوئی ہے۔ سارا کی عادت اسے اچھی لگی تھی۔ نہ بھی لگتی تب بھی وہ ان کے ساتھ رہنے پہ مجبور تھی۔ پہلے سوچا تھا کسی ہوسٹل یا دارالامان میں رہ لے گی مگر اسٹیشن پر ہونے والے واقعے کے بعد سے وہ اندر سے ڈر گئی تھی۔ اس کے پاس نہ تو پیسے تھے نہ ہی کچھ اور۔ وہ ابھی تک دلہن کے ہی لباس میں بیٹھی تھی۔ سارا نے اسے اپنا ایک سادہ سا سوٹ لا دیا تھا کہ وہ اسے رات کو پہن کر سو جائے۔ اس کے پاس کپڑے تک نہیں تھے۔ کیسی زندگی تھی اس کی بھی۔ سارا نے اگلے دن نینی کے ساتھ جا کر بازار سے اسے کچھ سلے سلائے کپڑے لا دیے تھے۔ اسے بھی ساتھ چلنے کو کہا تھا مگر وہ خوفزدہ تھی۔ گھر پر ہی رہی۔ گھر پر تین بچے تھے۔ ایک گیارہ سال کی لڑکی تھی زینب ایک آٹھ سال کا لڑکا تھا بلال اور سب سے چھوٹی چار سال کی آمنہ۔ تینوں بچے انتہائی تمیزدار تھے۔ مختصر سے وقت میں ہی الماس کی ان سے اچھی دوستی ہو گئی تھی، خاص طور پہ آمنہ سے۔ وہ تو ہر وقت اس کی گود میں ہی چڑی رہتی تھی۔ سارا کے گھر کاماحول اسے اچھا لگا تھا۔ گھر جیسا اور اپنائیت بھرا۔ وہ اپنائیت، جو اسے کبھی اپنی اڈاپٹڈ فیملی میں بھی نہیں ملی تھی۔ شروع میں کچھ دن وہ بچوں کے ساتھ ان کے ہی کمرے میں سوئی تھی۔ مگر پھر چونکہ سارا کو معلوم تھا کہ اس کا اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ اب سے وہ یہیں، ان کے ساتھ ہی رہے تو اسے الگ کمرہ بھی دے دیا تھا۔ الماس کو لگا وہ کمرہ پہلے سے کسی کے استعمال میں تھا، مگر اس کے لیے سارا نے اتنا سیٹ کر دیا تھا کہ وہ آرام سے رہ سکے۔ وہ ڈرائنگ روم کے سامنے والا سب سے پہلا کمرہ تھا۔ کمرے میں دو الماریاں تھیں۔ ایک لاکڈ تھی۔ دوسری میں الماس نے اپنے کپڑے اور دوسری ضرورت کی چیزیں رکھ دی تھیں۔ گھر میں پہلے سے پانچ افراد تھے۔ اس کے آنے سے چھے ہو گئے۔ سارا، نینی اور سارا کے تین بچے۔ اس کے پوچھنے پر سارا نے بتایا تھا کہ اس کے شوہر کا زیادہ تر کام اٹلی میں ہوتا ہے۔ وہ سال میں دو مرتبہ آتے ہیں فیملی سے ملنے۔ سارا کی نینی جن کو وہ امی بھی کہا کرتی تھی اور بچے بھی انھیں امی ہی کہتے تھے۔ وہ ان کے گھر کا ہی فرد سمجھی جاتی تھیں۔ گھر کا آخری کمرہ بچوں کے استعمال میں تھا اور سارا بھی زیادہ وقت انھی کے ساتھ رہتی تھی۔ الماس کو اس نے جو پہلا کمرہ دے دیا تھا فی لالحال وہ کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ اس کمرے میں ایک ڈبل بیڈ تھا جس کے ساتھ سائیڈ ٹیبل بھی تھا۔ ایک بڑے سے آئینے والا ڈریسنگ ٹیبل، ایک طرف دیوار کے ساتھ نرم سا بڑا صوفہ بھی رکھا تھا۔ ایک بندے کے لیے اچھا خاصا کمرہ تھا۔ نفیس اور صاف ستھرا۔ اس کمرے کی ایک کھڑکی لان میں کھلتی تھی جہاں کھڑے ہو کر لان کا نظارا کیا جا سکتا تھا۔ کھڑکی میں ایک لکڑی کا دروازہ تھا اور دوسرا گرل کا۔ لوہے کی گرل میں بھی لاک تھا جو صرف اندر سے کھولا یا بند کیا جا سکتا تھا۔ کھڑکی اتنی بڑی تھی کی ایک موٹا آدمی بھی آرام سے پھلانگ سکتا تھا۔
۔۔۔

Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum Se (Complete)Where stories live. Discover now