# ”محبت کچھ یوں ہے تم سے“
# از تشہ گوہر
# قسط نمبر 30الماس کو پھر سے کل والی بات یاد آ گٸ تھی جب وہ سارا سے اپنے جذبات بیان کر رہی تھی اور سکندر نجانے کب سے اس کے پیچھے کھڑا سن رہا تھا۔
وہ اس وقت اس کے اس قدر نزدیک تھا، الماس کو حیا نے گھیر لیا مگر سکندر کے الفاظ سن کر الماس کو اس کی ناراضگی کا بھی خیال آیا۔ وہ مذاق میں نہی کہہ رہا تھا۔ اسے واقعی الماس پہ غصہ آ رہا تھا۔ ایسا بھی کیا شرمانا۔ مگر وہ لڑکی نہی تھا، مرد تھا۔ ورنہ الماس کی کیفیت سمجھ جاتا۔
”نہی۔۔۔ایسی تو بات نہی ۔۔۔ پتا نہی بیٹھے بیٹھے کیسے آنکھ لگ گٸ۔“
وہ اس کے بازوٶں کے حصار میں قید تھی اور نکلنے کے پر تول رہی تھی لیکن سکندر کی گرفت سے لگتا نہی تھا کہ وہ اتنی آسانی سے اسے جانے دے گا۔
”بیٹھے بیٹھے نہی لیٹے لیٹے۔۔۔۔جب میں آیا تھا تو تم یہاں لیٹی ہوٸ تھیں اور گہری نیند میں سو رہی تھیں۔ نہی، آج تم مجھے بتا ہی دو، اگر تمھیں یہ کمرہ زیادہ پسند ہے یا یہ صوفہ زیادہ کمفرٹیبل ہے تو میں بھی ادھر ہی سو جایا کروں گا“
الماس کو اس کی بات نے شرمندہ کر دیا تھا۔ وہ بے ساختہ اپنا نچلا ہونٹ کاٹتے ہوۓ ادھر ادھر نظریں گھما کر دیکھنے لگی۔ سکندر نے الماس کی گھبراہٹ محسوس کرلی تھی۔
”ایسے مت کیا کرو۔۔۔۔میں جب بھی آتا ہوں تم مجھ سے دور بھاگ جاتی ہو۔ تم سے شادی میں نے اس لیے تو نہی کی تھی کہ پھر بھی ترستا رہوں تمھارے لیے۔ صرف دیکھنا ہی ہوتا تو تم اسی گھر میں رہ رہی تھیں، مجھے شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“
سکندر کےاتنے بے باک انداز اور الفاظ پر الماس کا دل زور سے دھڑکا اور اس کی آنکھوں پر حیا کا بوجھ بڑھ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوٸ جسارت کرتا، الماس نے پھر اس سے بھاگنے کی کوشش کی تھی۔
”وہ۔۔۔میں۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔مجھے لگتا ہے۔۔۔۔باجی۔۔۔باجی بلا رہیں مجھے“
اسے بوکھلاہٹ میں کچھ سمجھ نہی آیا کہ کیا کرے۔ جو منہ میں آیا بول دیا۔
سکندر کی گرفت اتنی سخت نہی تھی لیکن اتنی کمزور بھی نہی تھی کہ وہ آسانی سے نکل جاتی۔ پھر بھی اپنا پورا زور لگا کر وہ اس کے بازوٶں کی قید سے آزاد ہونے میں کامیاب ہو ہی گٸ۔ اس کے جانے کے بعد سکندر نے دروازے کو دیکھتے ہوۓ گہرا سانس لے کر اپنے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔
وہ تقریباً بھاگتے ہوۓ اپنے کمرے میں آٸ اور کچھ لمحے لگا کر اپنی اتھل پتھل سانسوں کو نارمل کیا۔ ھر منہ ہاتھ دھونے باتھ روم میں چلی گٸ۔ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے لگے تو حیا سے تمتماتا سُرخ چہرہ نارمل ہوا اور وہ اپنی دھڑکن بھی کسی حد تک قابو کر چکی تھی۔
سارا نے بچوں کو ناشتہ کروا کر سکول بھیج دیا تھا اور خود بھی وہ ناشتہ کر کے برتن سمیٹ رہی تھی۔ الماس کو ڈراٸنگ روم سے نکلتے دیکھ کر ایک معنی خیز سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ رقص کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں الماس کچن میں ناشتہ بنانے آ گٸ۔
سارا کے چہرے پہ نظر پڑی تو وہ مسکراۓ جا رہی تھی۔ اس کی معنی خیزی والی مسکراہٹ دیلھ کر الماس اندر ہی اندر نروس ہونے لگی۔
YOU ARE READING
Mohabbat Kuch Yoo'n Hai Tum Se (Complete)
Romanceزندگی میں کبھی کبھی اندھیرے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان اندھیروں کا مقصد ہمیں وہ چاند دکھانا ہوتا ہے جو ہم دن کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتے۔ ۔۔۔ الماس کے منہ بولے والدین نے الماس کی شادی ایک فارن نیشنل لڑکے سے کر کے اس سے قطع تعلق کر لیا۔ اور وہ لڑکا اسے ریلو...