پچھلے کچھ دنوں سے اس کے ٹیسٹ ہورہے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے کمرے تک محدود رہتی تھی۔ عائشہ کی طرف بھی نا جا سکی۔ آخری دفعہ وہ ان کی طرف دعوت پر ہی گئی تھی۔ ہاں وہ فون ضرور کرلیتی تھی۔ آج وہ فارغ ہوئی تو پہلی فرصت میں عائشہ کی طرف جانے کا سوچا۔ دھیان اس طرف گیا تو اسکا ذہن ہادی کو سوچنے لگا۔ اس دن کے بعد اسے دوبارہ نہیں دیکھ پائی تھی۔ایسی بات نہیں تھی کہ وہ پاگل ہورہی تھی اس نے پہلے کبھی ایسا کسی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ اب ہادی کا تاثر اس پر اچھا پڑا تھا تو وہ اسے ایک لحاظ سے پسند کرتی تھی اور اسکے ذہن میں اسکے لیے ایک اچھا مقام تھا۔ بالآخر آج وہ چلی آئی۔ "گڑیا۔۔۔"۔ عائشہ چہکتی ہوئی اس کی طرف لپکی۔ وہ بھی ہنستی ہوئی گلے لگ گئی۔"ایک تو تم پڑھائی میں مصروف ہوجاؤ تو ہم اداس ہوجاتے ہیں"۔ عائشہ نے اسکے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔ وہ ہنستی ہوئے آگے آئی۔ لان میں آج دادو بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ھدیٰ نے آگے بڑھتے ہوئے سلام کیا تو انہوں نے اسے ساتھ لگا کر پیار کیا۔"عائشہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ تم آئی نہیں تو واقعی ہم نے تمہیں بہت مِس کیا۔ یہ تو اٹھتے بیٹھتے "ھدیٰ نہیں آئی آج بھی۔۔ ھدیٰ یہ ، ھدیٰ وہ" کرتی رہی ہے"۔ عائشہ کی نقل کرتے ہوئے وہ ہلکا سا ہنسیں تو ھدیٰ کا بے اختیار قہقہہ گونجا۔ وہ ہنستی چلی گئی۔ پیچھے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے کسی کے پاؤں کو بے اختیار بریک لگے تھے۔ "دادو آپ بھی نا۔۔۔"۔ عائشہ بھی منہ بنا کر ہنسنے لگی۔ اب وہ وہیں کھڑا ہوگیا تھا۔ کون؟ "ویسے دادو۔۔۔ ھدیٰ کو ہنستا دیکھ کر ہمیشہ موڈ فریش ہوجاتا ہے۔ اس کو ہنستے ہوئے دیکھ کر باقی سب بھی ہنس دیتے ہیں"۔ عائشہ نے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔شاید اب وہ ہنسا تھا۔ ارے کون؟"ہاں۔۔ میری پیاری سی بچی ہے ہی اتنی اچھی"۔ دادو نے پیار سے کہا تو گلابی ہوتے ہوئے اسنے اپنی ہنسی ضبط کی۔پیاری سی بچی۔۔۔ مسکراتے ہوئے سر جھٹک کر وہ دوبارہ اوپر چلا گیا۔دادو اٹھ کر اندر چلی گئیں تو عائشہ اور ھدیٰ باتیں کرنے لگیں۔ جس میں زیادہ تر عائشہ ہی بول رہی تھی اور اسکی ہر بات ہادی بھائی سے شروع ہوکر انہیں پر ختم ہوتی تھی۔ھدیٰ مسکراتے ہوئے سنتی رہی۔------- وہ اپنے کالج بیگ میں کتابیں رکھ رہی تھی جب فاخرہ بیگم نے آکر اسے اطلاع دی کہ بابا اسے اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں۔ سب کچھ ویسی ہی چھوڑ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔"جی بابا آپ نے بلایا"۔ دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوتے ہوئے اسنے پوچھا۔"ہاں گڑیا آجاؤ"۔ انہوں نے مسکرا کر کہا تو وہ آگے آکر ان کے پاس بیٹھ گئی۔"میں نے سوچا کافی دنوں سے باتیں نہیں کی ہم نے۔ کیوں نا آج مل بیٹھیں"۔ ھدیٰ ہنس دی۔ "جی بابا، کافی دنوں سے moral lecture نہیں دیا آپ نے"۔ مرتضیٰ نا صرف اس سے بہت لاڈ کرتے تھے بلکہ اسے کئی اچھی باتیں بھی سکھاتے تاکہ وہ خود کو بہتر سے بہترین بنا سکے۔"تو پھر آج کیا عنوان کیا ہے؟" اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اسنے ٹھوڑی تلے رکھا اور بابا کی طرف متوجہ ہوئی۔ "آج ہم بات کریں گے " Self buildup" کے بارے میں"۔ انہوں نے بات شروع کی۔ھدیٰ مزے سے سن رہی تھی اور وہ بولتے جارہے تھے۔"کہتے ہیں کہ انسان کی تربیت کے ذمہ دار اس کے والدین ہوتے ہیں۔ لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ وہ ایک خاص عمر تک آپ کی تربیت کرتے ہیں۔ اس کے بعد جب آپ کو عقل آجاتی ہے تو آپ کی تربیت کی چابی آپ کے اپنے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ آپ کو کافی چیزوں کی سمجھ آنے لگ جاتی ہے۔ پھر آپ اپنا اچھا برا سوچنے لگ جاتے ہیں۔ آپکو معلوم ہوتا ہے کہ کیا چیز اچھی ہے اور کیا بری۔تو تب آپکا خیال آپ خود رکھتے ہیں اور آپ کو خود ہی رکھنا ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے آپ کو عقل و سوچ سے کام لینا چاہئے۔ ورنہ تباہی کی طرف خود کو دکھیلنے والے بھی آپ ہوتے ہیں، اور کامیابی کی طرف اڑنے والے بھی آپ ہی ہوتے ہیں"۔ وہ سانس لینے کو رکے۔ ھدیٰ سیاہ آنکھیں حیرت سے کھولے پوری طرح انہیں سن رہی تھی۔"ہم لوگ امیر فیملی نہیں تھے۔ بھائی جان چھوٹا موٹا کام کرتے تھے۔ میں اپنی پڑھائی کے ساتھ پارٹ ٹائم جاب کرلیتا تھا۔ زندگی کے اس فیز میں بہت لوگوں نے مجھے نیچے گرانے کی کوشش کی۔ لیکن میں چاہتا تھا میں اپنی فیملی کو ہر خوشی دے سکوں تو محنت کرتا رہا۔ ہماری زندگی میں دو طرح کے لوگ آتے ہیں۔ ایک وہ جو آپ کی زندگی پر منفی اثر ڈالتے ہیں اور دوسرے وہ جو آپ کی زندگی میں مثبت رنگ ڈالتے ہیں"۔ سائڈ ٹیبل سے انہوں نے جگ اٹھایا تو ھدیٰ نے فوراً پانی ڈال کر ان کی طرف بڑھایا۔ فارغ ہوکر وہ دوبارہ شروع ہوئے۔ "منفی لوگوں سے ہمیں ڈرنا نہیں چاہئے ۔ وہ بس ہمیں زندگی کا ایک سبق سکھانے آتے ہیں۔ اور وہ مثبت لوگ ہوتے ہیں ان کے ساتھ گزرنے والا ہر لمحہ اچھے طریقے سے گزارنا چاہئے۔""کیسے پتا چلتا ہے کون مثبت ہے؟" ھدی نے آنکھیں پٹپٹا کر پوچھا۔"وہ آپ کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔۔""مخلص؟""ہاں، وہ آپ کی خوشی میں خوش ہوتا ہے اور آپکی پریشانی میں آپکے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ بغیر کسی غرض کے۔۔بغیر اپنی فکر کے۔۔"۔"اور منفی لوگ؟ کیسے پتا چلتا ہے ان کا؟" "ان کے رویے دوغلے ہوتے ہیں۔ آپ کے سامنے کچھ اور۔۔آپ کے پیچھے کچھ اور۔۔ آپ کی خوشی سے ناخوش۔۔اور آپ کی پریشانی میں آپ سے دور۔۔"۔"اوہ۔۔" "اور ایک بتاؤں؟" وہ تھوڑا سا آگے ہوکر رازدرانہ انداز میں بولے۔"جی!""جب آپکو لوگوں کی پہچان ہوجائے تو دل کو ایک آدھ دفعہ دھچکا ضرور لگتا ہے۔ لیکن بس یہ یاد رکھو آپ سے ساتھ اللہ ہے اور آپکو لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی۔ جو آپ کے ساتھ مخلص ہیں ان کی قدر کرو، باقی سب کو دفع کرو۔ خود کو اتنا مضبوط بنا لو کہ آپ خود کو سمجھا سکو کہ آپ کو لوگوں کا اثر اپنے اوپر نہیں لینا"۔اسے چپ دیکھ کر وہ دوبارہ بولے۔ "سمجھی؟" "جی" اسنے مسکرا کر سر ہلایا تو انہوں نے پیار سے اسکے بال بکھیر دیے۔ وہ ہنس دی۔"میرے بعد بھی میری باتوں کو یاد رکھنا۔ بھولنا مت"۔ "بابا" ھدیٰ نے حیرت سے منہ کھولا۔ ایک لمحے کو ان کے جملے نے اسے ساکت کردیا تھا۔اگلے ہی لمحے انہوں نے ہنس کر ماحول نارمل کردیا اور اسے گلے لگایا۔ ھدی بھی نارمل ہوگئی لیکن وہ نا دیکھ سکی کہ مرتضی صاحب کے چہرے پر گہری سوچیں چھائیں تھی۔بے حد گہری سوچیں۔۔------"عائشہ آپی جلدی سے اوپر چھت پر آئیں"۔ وہ فون پر زور سے چینخی تھی۔ "ارے کیوں کیا ہوا؟" وہ جواباً حیرت سے بولی۔ "یار اتنا اچھا موسم ہے۔ اوپر آجائیں انجوائے کرتے ہیں۔ میں بھی چھت پر جا رہی ہوں"۔ وہ خوشگوار موڈ میں کہہ رہی تھی۔"اچھا یار ایک کام ختم کرکے آتی ہو تمہاری طرف"۔ وہ مصروف سے انداز میں بولی۔"اف بےذوق لوگ۔۔۔" بڑبڑاتے ہوئے اسنے فون رکھا۔ اور سیٹھیوں کی طرف بڑی۔ لیکن بارش ہوتے دیکھ کر وہ ہنستی ہوئی فوراً چھت پر چلی گئی۔دوسری طرف عائشہ نے کندھے اچکائے تو ہادی نے سپیکر بند کرکے فون رکھ دیا۔ عائشہ آٹا لگے ہاتھوں سے دوبارہ کچن کی طرف کی طرف چلی گئی۔ ------اپنے ہاتھ پوری طرح پھیلائے چہرہ اوپر اٹھائے اس نے اپنے چہرے پر بارش کی ہلکی ہلکی بوندوں کو گرتے ہوئے محسوس کیا۔ ایک خوشگوار احساس اس کے اردگرد جھومنے لگا۔"یا اللہ! اففف کیا مزہ ہے بارش کا۔۔۔"۔ ہوا کے ساتھ وہ بھی جھومنے لگی۔جامنی شلوار قمیض اور ہم رنگ ڈپٹہ اچھی طرح کندھوں پر پھیلائے وہ ہمیشہ کی طرح حسین اور معصوم لگ رہی تھی۔ "افف اللہ۔۔۔۔دل چاہتا ہے ہمیشہ کے لیے یہ خوشگوار موسم ایسے ہی رہے"۔ بارش زرا تیز ہوئی تو وہ ہنستے ہوئی اوپر دیکھنے لگی۔ پانی کی بوندیں اتنی زور سے برس رہی تھیں کہ اسنے فوراً آنکھیں میچ کے اپنا چہرہ نیچے کیا۔ وہ چلتی ہوئی پرندوں کے پنجرے تک آئی اور انہیں اٹھا کر بارش سے بچا کر ایک طرف رکھا۔ "ہمم۔۔ آپ لوگ بارش میں نہیں نہا سکتے۔"۔ انہیں دیکھتے ہوئے کہا اور خود ہی اپنی بات پر ہنس دی۔---------"آپ کہا سے آرہے ہیں؟" عائشہ نے ان کے گیلے کپڑے دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔"کال سننے گیا تھا باہر۔گیلا ہوگیا۔" فون سے نظریں ہٹا کر اسنے جواب دیا۔"آپ کو تو بارش اتنی پسند نہیں۔۔ اور بھیگے آپ پورے ہوئے ہیں"۔ اس نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر اپنے کپڑوں کو۔ "ہاں بس ضروری کال تھی اس لیے باہر چلا گیا۔ اندر سگنل نہیں آرہے تھے۔ چینج کرنے جارہا ہوں"۔ ارے میاں کیا واقعی؟ اپنی سوچ پر خود ہی اسنے سر جھٹکا۔ اور کمرے کی طرف بڑھا۔"تم کہاں جارہی ہو عائشہ؟" اسے باہر جاتا دیکھ کر وہ پوچھ بیٹھا۔"ھدیٰ کی طرف۔ بارش ہورہی ہے نا۔ وہ تو دیوانی ہے اچھے موسم کی۔ انجوائے کریں گے مل کر"۔ وہ کہتے ہوئے باہر چلی گئی۔"اچھا"۔ وہ مسکرایا۔ اف میں کیوں ایویں مسکرا رہا ہوں؟کیونکہ موسم اچھا ہے۔ لیکن مجھے تو بارش پسند نہیں۔۔۔ اف بارش کس بے ذوق کو ناپسند ہوگی۔۔؟ وہ کمرے میں چینج کرنے چلا گیا۔--------"تمہیں کیا لگتا ہے اس بارے میں؟" وہ فون کان سے لگائے ہادی سے مخاطب تھا۔ "مجھے یہی لگتا ہے کہ وہ اس کا بھلا کبھی نہیں چاہے گا"۔ دوسری طرف سے فکرمند اور پریشان سی آواز سنائی دی۔"تمیں لگتا ہے کہ وہ اسے نقصان پہنچائے گا؟" "ہاں۔ اب تم بتاؤ کیا کیا جائے؟"۔ دوسری طرف سے آواز ابھری۔"اتنی فکر ہے اس کی؟" احد نے پوچھا۔"بے وقوف۔۔۔"دوچار مزید حسین الفاظ اس نے منہ میں دبائے اور بولا "اور کیا اتنی رات کو ڈرامے کروں گا تمہارے سامنے۔ آف کورس یار۔ فکر ہے مجھے بہت اسکی"۔ آخر میں وہ دھیمے فکرمند لہجے میں بولا تو احد کچھ سوچنے لگا۔" اسے لے کر بھاگ جاؤ"۔ وہ مزے سے بولا۔"واٹ؟ کس کو لے کر بھاگ جاؤں؟"وہ حیرت سے چینخا تو اسنے فون کان سے ہٹایا اور اسے گھور کر دوبارہ کان سے لگایا۔"مجھے!" احد منہ بسور کر بولا۔"احد آئی ایم سیریس"۔ وہ چبا چبا کر بولا۔"یار آئی ایم سیریس ٹو۔ انہیں لے جاؤ یہاں سے۔ اس ماحول سے نکالو"۔"پورا پلین (plan) پھوٹو منہ سے۔۔۔" ہادی دوسری طرف سے بولا تو احد نے تفصیل سے بات شروع کی۔ "ٹھیک کہہ رہے ہو۔ آئی لائیک دا آئڈیا۔ چلو نکلو اب یہاں سے"۔ اس نے کال کاٹی تو احد نے دوبارہ فون کان سے ہٹا کر گھورا۔ "مجنوں کہیں کا۔۔۔"------"ہادی بھائی کل جارہے ہیں۔ تم ہماری طرف آجانا کل اوکے؟" "اوکے آپی" فون بند کرکے وہ اداس سی اپنے کمرے میں آگئی۔ مجھے اتنا اداس نہیں ہونا چاہئے۔ اونہوں! پاگل ہوگئی ہو ھدیٰ ۔اپنی سوچوں کو جھٹکتے ہوئے وہ کام میں لگ گئی۔ اور اگلے دن ان کی طرف گئی۔ سامنے ہی لان میں وہ کھڑا نظر آگیا۔ وہ جھجھکتے ہوئے اسی کی طرف آگئی۔ "اسلام علیکم"۔ ھدی پوری ہمت صرف کرکے سلام کیا۔ بے اختیار چونکتے ہوئے اسنے سر اٹھایا تو حان سا اسے دیکھتا رہا۔ ھدیٰ گڑبڑا گیا۔"وہ میں ھدیٰ ہوں۔۔ ساتھ والے گھر سے۔۔۔عا۔۔عائشہ آپی کی دوست۔۔" اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے۔"اوہ وعلیکم السلام۔۔ ویلکم آئیں بیٹھیں"۔ ہادی نے مسکرا کر کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ لیکن نا وہ بیٹھی اور نا ہی ہادی۔"آپ واپس جارہے ہیں؟" ھدیٰ نے لہجہ نارمل رکھتے ہوئے نیچے دیکھ کر پوچھا۔"جی شام کو جارہا ہوں۔ جلد لوٹ آؤں گا۔ واپس آنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔ " ہادی نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا لیکن اسکا سر جھکا ہوا تھا۔ ھدیٰ نے کچھ بھی نا کہا ۔ بس ایک دفعہ نظریں اٹھا کر لمحہ بھر کو ہادی کی طرف دیکھا اور واپس پلٹ گئی۔ پیچھے کھڑا ہادی اسکی سیاہ آنکھوں میں ڈوب کر رہ گیا تھا۔ کیا تاثر تھا اسکی آنکھوں میں وہ وہیں کھڑا سوچتا رہا۔اور شام کو وہ چلا گیا۔ عائشہ اسے بتا چکی تھی۔ اور اسکے نا آنے پر خیر خبر بھی لے چکی تھی۔-----"ھدیٰ۔۔ تمہارے تایا أبو کا فون آیا ہے۔ تمہارے بابا کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے۔جلدی چلو عاصم لینے آیا ہے" انہوں نے روتے ہوئے کہا۔ تو ھدیٰ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ڈپٹہ لیتے ہوئے باہر کی طرف بھاگی۔لیکن ہاسپٹل پہنچتے ہوئے انہیں دیر ہوگئی تھی۔ پاؤں نے نیچے سے زمین اور آسمان کے اوپر سے چھت اٹھ جانا کیا ہوتا ہے یہ ھدیٰ اس وقت اچھی طرح بتا سکتی تھی۔ ایک چینخ اسکے حلق سے بےآختیار نکلی تھی۔ "بابا" اور پھر بے اختیار کئی آنسوں آنکھوں سے لڑھکتے گئے۔------
YOU ARE READING
دل کے دریچے
General FictionRanked#1 . A romantic/social story. episodes will be coming weekly. it is a story of a girl huda , who goes throw different phases of life. A story of friendship (Hadi & Ahad) , A story of family relation and a story love..