DKD-Episode#32(last episode Part #02)

2.9K 179 128
                                    

پورے ایک مہینے کے بعد آج آخرکار ایک فیصلہ سنا دیا گیا۔
بہت پیسہ لگانے کے باوجود وہ خود کو بچا نا پایا۔ کیوں اب کہاں گیا وہ پیسہ جس کی خاطر اس نے اتنا کچھ غلط کر ڈالا۔ یہ پیسہ تو اسے بچا ہی نا پایا۔۔۔۔
عدالت نے اسے ہادی پر حملہ کرنے پر جرمانہ عائد کیا اور قتل میں ملوث ہونے اور کاروبار جھپٹنے کے جرم میں تاعمر قید سنائی۔
اسکا انجام سن کر ھدی نے پرسکون سانس لیا۔ جبکہ ہادی نے سر جھٹکا۔
کاش کہ لوگ برا نا کریں تو انہیں سزا بھی نا ملے۔۔۔
ہادی نے عاصم کے والدین کی طرف دیکھ کر سوچا۔
فاخرہ اپنے کے لیے شوہر انصاف ملنے پر خوش تھیں۔ غرض یہ کہ سب پر سکون تھے، سوائے عاصم اور اس کے والدین۔
عاصم کے چہرے پر ندامت کے بجائے غصہ تھا۔۔۔ ہوں! اتنی جلدی تو نہیں بخار اترتا اس شخص کا جو خود کو بہت بڑا سمجھتا ہو۔
جبکہ اس کے والدین شرمندہ تھے، اداس تھے، رورہے تھے۔۔۔ تھا تو وہ انکا بیٹا ہی نا۔۔
عاصم کو ہتھکڑی لگا کر دو اہلکار گاڑی کی طرف لے جارہے تھے جب ان کے ساکنے ھدی راستی روک کر کھڑی ہوئی۔
سینے پر ہاتھ باندھے وہ ایک قدم آگے آئی اور سیدھا عاصم کی آنکھوں میں دیکھا۔
سفید شلوار قمیض پر سیاہ شال لیے، پاؤں میں کولاپوری چپل پہنے ، چہرہ اٹھائے وہ پراعتماد نظر آتی تھی۔
اسے دیکھ کر اہلکار رک گئے۔ ھدی کے پیچھے ہادی کھڑا تھا اور کچھ فاصلے پر احد۔۔
ھدی یک دم آگے بڑھی اور زوردار تھپڑ عاصم کے گال پر مارا۔
چٹاخ۔۔۔
وہ بھپرا ۔ اہلکاروں نے فوراً اسے مضبوطی سے جکڑا۔ "بی بی آپ۔۔" اسنے کچھ کہنا چاہا۔ ھدی نے انگلی اٹھا کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
"یہ میرے بابا کو تنگ کرنے، اور انہیں مارنے کے لیے تھا"۔ وہ عاصم کو مخاطب کرکے بولی۔
چٹاخ۔۔۔۔ دوسرا تھپڑ۔۔۔
"ھدی" عاصم دھاڑا۔ لیکن وہاں کون اس سے ڈر رہا تھا۔
"یہ میرے شوہر پر حملہ کروانے کے لیے۔۔۔۔" وہ غرائی۔
ہادی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ اور پیچھے کھڑے احد کو اور اشارہ کیا
"شیرنی ہے بھئی یہ تو۔۔"
چٹاخ۔۔۔۔ تیسرا تھپڑ۔۔۔
"یہ اپنی فضول نظروں سے مجھے دیکھنے پر۔۔۔"
"تم تم۔۔ سمجھتی کیا ہو خود کو۔۔؟" وہ مسلسل احتجاج کر رہا تھا۔ اہلکار اسے مضبوطی سے تھامے کھڑے تھے۔ "بی بی بس کرو۔۔ یہ بے قابو ہورہا ہے"۔ ایک اہلکار نے کہا۔۔۔ لیکن وہاں سن کو۔ رہا تھا اسکی؟
عاصم کے ساتھ بندھے تھے وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا اور ھدی اس باپت کا بھرپور فائدہ اٹھا کر بھڑاس نکال رہی تھی۔
چٹاخ۔۔۔۔ چوتھا زوردار تھپڑ۔۔۔
"اور یہ۔۔۔۔ بس یہ مارنے کا میرا دل چاہ رہا تھا۔
"Because you deserve it
وہ کندھے اچکا کر مزے سے بولی اور آخری نظر اسکے چہرے پر ڈال کر مُڑی۔
آگے بڑھ کر ہادی کا ہاتھ تھاما اور چلنے لگی۔
"جی او میرا شیر۔۔۔" احد نے نعرہ لگایا تو وہ تینوں ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
پیچھے وہ چینختا رہ گیا لیکن اب بھلا اسکی سنے گا کون ؟
چچ۔۔۔چچ۔۔
----------
احد کی شادی کی تاریخ فکس ہوگئی تھی اور وہ اپنا کارڈ دینے ان کے گھر آیا۔
ہادی اور ھدی واپس شہر جاچکے تھے۔ فاخرہ بھی اپنے گھر آگئی تھی۔
بزنس ھدی نے نام ہی تھا جسے اسنے ہادی اور احد کی کمپنی میں شئیرز ڈال دیے۔
خوشی انسٹیوٹ کی ٹیم نے ایک این جی او (جسے مرتضی این جی او کا نام دیا گیا) بنائی جس میں فاخرہ اور سمینہ نے بھی حصہ لے لیا۔۔۔ یوں دونوں کا بیٹیوں کے چلے جانے کے بعد کا اکیلا پن دور ہونے لگا۔
جرمانہ بھرنے کے لیے تایا جان کو گھر بیچنا پڑا۔ انہوں نے آکر فاخرہ سے بہت معافی مانگی اور وہ دونوں بیٹے کی کرتوت پر شرمندہ بھی نظر آتے تھے۔
فاخرہ نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ رکھ لیا۔

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now