DKD-Episode#20

1.8K 150 69
                                    

"عبدل ہادی تم تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو چکے ہو"۔ دادو نے تنبیہ کرنا ضروری سمجھا۔
یہ تو چٹ رشتہ پٹ نکاح ہورہا تھا۔ اور اب انہیں پورا یقین تھا کہ شادی کا فنکشن کروانے میں بھی اس نے دیر نہیں کرنی۔
"دادو۔۔۔۔ اف میں آپ کو بتا نہیں سکتا میں نے کتنا صبر کیا ہے۔۔۔ اب ہوا کے گھوڑے کو چھوڑیں، میں تو راکٹ پر سوار ہوجاؤں گا اپنی شادی کے معاملے میں"۔ ہادی شوخ ہوا اور انہیں کندھوں سے تھام کر بولا۔
"تم تو گئے لگتے ہو کام سے، پہلے تو شادی پر بُلوایا ویسے تم نا بھی کہتے تو انکو لے کر جانا ہی تھا۔ لیکن تم اتنے بے تاب ہورہے تھے ہاہا۔۔۔۔" وہ بات روک کر پچھلے دنوں کو یاد کرکے ہنسیں۔ ہادی منہ بنا کر انہیں دیکھنے لگا۔
"مطلب اب احد کے بعد دادو بھی اسے چھیڑے گیں"۔ ہادی نے سوچا۔
"پھر آناً فاناً رشتہ۔۔۔ اب نکاح اور پھر تم نے شور مچا دینا ہے کہ شادی بھی کرواؤ ابھی"۔ ان کی بات پر ہادی فوراً سیدھا ہوا۔
"دادو جان۔۔۔ کیا خیال ہے نکاح کے ساتھ ہی رخصتی نا کروالیں؟" ہادی نے آنکھ دبائی۔
"عبدل ہادی۔۔۔" دادو نے حیرت سے اسے دیکھا تو وہ قہقہہ لگا کر مسکرایا۔
"دادو پلیز۔۔۔۔" وہ اب انہیں منا رہا تھا۔
اور ساتھ سوچ رہا تھا کہ 'چلو لگتے ہاتھ یہ کام بھی کرلوں۔ کوئی پتا نہیں اس ڈیش عاصم کا۔۔'
"نا بابا نا۔۔۔" دادو نے مصنوعی خفگی سے کہا جبکہ انکے چہرے پر شرارت بکھری تھی۔
"دادو جان۔۔۔میری پیاری سی دادو۔۔۔۔" ہادی نے مکھن لگانا ضروری سمجھا اور ان کے گرد بازو پھیلا کر ساتھ لگایا۔
"اچھا نکاح تو کرلو پہلے۔۔۔ پھر اس کے بعد فاخرہ سے بات کروں گی"۔
دادو نے بات ختم کی۔
"پکا؟"
"ہاں بابا"
"یس۔۔"
"ویسی ہادی تم نے اس عاصم کے خلاف کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟" دادو نے یاد آجانے پر پوچھا۔
"اٹھایا تھا بہت پہلے دادی جب مجھے انکل کا پتا چلا۔ لیکن وہ بہت چلاک نکلا اس نے الٹا مجھے نوٹس بھیج دیا۔ جس کے مطابق میں اس سے دور رہوں اور اس کے معاملات میں انٹرفئیر نا کروں ورنہ مجھے جیل ہوجائے گی"۔
وہ سنجیدہ ہوگیا تھا۔
"اس کا کوئی اگر کچھ کر سکتا ہے تو صرف انکل کی فیملی کر سکتی ہے، کیونکہ وہ ان کے اپنے ہیں اور کمپلین کر سکتے ہیں۔۔۔"
"تم فاخرہ کو سب سچ بتادیتے"۔
"دادو، وہ مشکل وقت میں تھے میں انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، اور اب وہ بمشکل سنبھلے ہیں۔۔۔ وقت آنے پر بتا دوں گا۔۔ لیکن عاصم  گناہ کرکے اس زمین پر آرام سے نہیں گھومتا رہے گا۔۔۔ اس کو سزا دلوا کر رہوں گا۔" اسکا لہجہ پختہ تھا۔
"صحیح کہہ رہے ہو۔۔۔ غلط کے خلاف اگر ہم اٹھ سکتے ہیں تو ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے۔ ناکامی کا سوچ کر بیٹھ نہیں جانا چاہئے۔ بھلے بعد ہم میں ہار جائیں یا کچھ نا کر پائیں۔۔۔لیکن ایک بار اٹھنا ضرور چاہئے، ایک بار آواز ضرور اٹھانی چاہئے"۔
دادو نے اسکی تائید کرتے ہوئے کہا۔
--------
"یار تُو تو میرے سے پہلے بازی لے گیا۔۔" احد بیچارگی سے بولتے ہوئے گاڑی سے اترا۔
ہادی ہنستے ہوئے دوسری سائیڈ سے نکلا۔
"تو تمہیں کس نے کہا تھا کہ بس باتیں بگھارتے رہو کسی کی بہن کے ساتھ۔۔۔۔" ہادی نے اسے جلانے کی کوشش کی۔ اور جان بوجھ کر 'کسی کی بہن' کہا تھا۔
"میری بہن کو تو تم لے کر اڑنے والے ہو، نا باتیں کیں، نا زیادہ ملاقاتیں۔۔۔۔ اور سیدھا نکاح"۔ احد نے اسے گھورا۔
"ہاں یہی تو میرے صبر کا پھل ہے۔۔" ہادی نے معصومیت سے سر کو خم دیا۔
"جا اوئے اداکار۔۔۔ ڈرامے کرتا رہا ہے اور کرواتا رہا ہے ہم سے بھی، آخر میں بڑی معصوم شکل سی شکل بنا کر کہہ رہا ہے 'صبر کا پھل'۔۔" احد نے اسکی نقل اتاری۔
ہادی ہنستے ہوئے مشہور برینڈ کی شاپ میں داخل ہوا۔
"یہ والا لے لے"۔ احد نے پیلی شیروانی کی طرف اشارہ کیا۔ ہادی نی دیکھتے ہی نفی میں سر ہلایا۔
"اچھا یہ لے لے"۔ اسنے دوسری کی طرف اشارہ کیا۔ سرخ رنگ کی شوخ سی زنانہ ٹائپ شیروانی تھی۔
"یہ تجھے تیری شادی پر لے کر دوں گا"۔ ہادی نے دانت پیس کر کہا۔
"ہائے میری کب ہوگی۔۔۔" اداسی اس کے چہرے پر پھیل گئی تو ہادی نے ایک دھموکا اسکی کمر میں جڑنا ضروری سمجھا۔ اسکا منہ فوراً سیدھا ہوا تو وہ مسکرایا۔
"مار کھائے بغیر تم صحیح سے کام نہیں کرتے"۔
"ہونہہ۔۔ یہ اچھی ہے"۔ احد نے اس کے ہاتھ میں پکڑے سوٹ کو دیکھ کر کہا۔
سفید رنگ کا ڈیسنٹ سا کُرتا تھا جس کے کالر اور کف پر ہلکا سا کام کیا ہوا تھا۔ جبکہ گلے پر سفید چھوٹے چھوٹے موتیوں کا کام تھا۔ ساتھ سادہ شلوار۔۔۔
عبدل ہادی احمد کے نکاح کے لیے پرفیکٹ۔۔۔!
پھر وہاں سے نکل کر وہ لیڈیز شاپ میں گھُسے۔
"شرم آرہی ہے مجھے۔۔" احد کی آواز پر وہ مُڑا۔
"کیوں؟"
"یار اکیلے دو عدد جوان ہینڈسم لڑکے، لڑکیوں کی شاپ میں کیا کر رہے ہیں؟ دھیان سے چلنا ذرا کسی نے پسند کرلیا تو"
"تف ہے تیرے پر۔۔۔" ہادی نے اسھے گھورا اور آگے کی طرف دکھا دیا۔ پندرہ منٹ کپڑے آگے پیچھے کرتے رہنے کے بعد بلآخر ایک ڈریس اسے پسند آہی گیا۔
سفید گھٹنوں تک آتی سیدھی قمیض جو سفید اور سلور موتیوں کے کام سے بھری تھی، نیچے سفید شرارہ، موتیوں سے بھرا سفید ڈوپٹہ۔
"ساتھ وہ ریڈ والا ڈوپٹہ بھی پیک کردیں"۔ ہادی نے کاؤنٹر پر کھڑے ہوکر کہا تو احد اسکی چوائیس دیکھ کر کھنکارنے لگا اور ہادی کی گھوری سے بھی چپ نا ہوا۔
"اہم اہم۔۔۔ واہ بھئی۔۔۔ واہ"۔
"نمونہ کہیں کا"۔ وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔
-------
سکینہ اور فاخرہ بیگم شاپنگ کرکے لوٹی تھیں جبکہ دادو اور سمینہ دو لڑکیوں سے ساتھ فاخرہ کے لاؤنج میں بیٹھی تھیں جو ھدی کے ہاتھوں پر مہندی لگا رہی تھیں۔
کل کے لیے ساری تیاریاں مکمل تھیں۔
"بس سب خیر خیریت سے ہوجائے" فاخرہ نے ابھی تک ھدی کے تایا کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ اور اندر ہی اندر ایک خدشہ تھا کہ وہ بتائیں گی تو عاصم ضرور کوئی ہنگامہ کرےگا اس لیے وہ چپ تھیں۔
-------
چھوٹا سا فنکشن تھا ۔ صرف گھر کے لوگ تھے۔
یہ شہر کے اندر ایک چھوٹا سا لیکن پیارا سا ہال تھا جس کے ایک طرف مسجد تھی جس کے صحن میں وہ سب اس وقت موجود تھے۔
نیچے بچھے نرم میرون قالین پر ایک طرف مرد بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف عورتیں۔
فاخرہ اور سمینہ کے ساتھ ھدی آئی تو ہادی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
وہ اس کی پسند کے سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ یہ بھی کوئی بتانے والی بات ہے؟
چہرہ لال ڈوپٹے کے گھونگھٹ میں چھپا ہوا تھا۔ ہاتھوں میں چوڑیاں اور سرخ گجرے پہن رکھے اور مہندی کا رنگ خوب نکھر کر آیا تھا۔
"ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے میری بہو۔۔۔ نظر نا لگے"۔ سکینہ نے اسے ساتھ لگا کر پیار کیا۔ اور اسے بیٹھا دیا۔
نکاح خواہ اور ایک دو مرد چل کر آگے آئے۔

دل کے دریچےWo Geschichten leben. Entdecke jetzt