DKD-Episode#28

1.8K 140 29
                                    

وقت تھوڑا پیچھے کو چلا گیا۔ عبدل ہادی اور مرتضی صاحب پارٹی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے محو گفتگو تھے۔
"تم کسی میں انٹرسٹِڈ ہو؟" ان کے غیر متوقع سوال پر ہادی نے گڑبڑا کر انہیں دیکھا۔
"نن نہیں تو۔۔" وہ تو کام کے حوالے سے بات کر رہے تھے ، یہ بات کہاں سے بیچ میں آگئی۔
"اچھا پکی بات ہے؟ ورنہ جتنی دفعہ تم مجھ سے بات کرنے کے دوران گاہے بگاہے کہیں اور نظر ڈال رہے ہو میں کچھ اور سمجھ بیٹھا تھا"۔ وہ دوستانہ لہجے میں مسکراہٹ دبائے کہہ رہے تھے۔
ہادی اپنی چوری پکڑی جانے پر سر کھجا کر رہ گیا۔
مرتضی صاحب نے نظر گھُما کر ھدی کی طرف کی دیکھا جو عائشہ کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مصروف تھی۔
"تو پھر کیا موسم ہے دل کا؟" انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
ہادی دھیرے سے ہنسا۔ "ابھی تو ٹھیک سے پتا ہی نہیں چل رہا کہ بہار آگئی ہے یا دل پر قبضہ ہوگیا ہے"۔ اس کے الفاظ ذومعنی تھے۔
"چلو جس دن کنفرم ہوجائے، سیدھے طریقے سے میرے پاس آ جانا۔۔۔" مرتضی صاحب نے اسکا کندھا تھپکا اور مسکرادیے۔
---------
"سر اگر میرے بس میں ہوتا تو میں آپکا سیکیورٹی گارڈ بن کر یہاں رک جاتا۔۔۔لیکن آپ کو اکیلے چھوڑ کر نا جاتا۔۔۔" وہ اپنے لاسٹ سیمیسٹر کے بیرون ملک جانے سے پہلے ان سے ان کے آفس میں ملنے آیا تھا۔
"اِٹس آل رائیٹ عبدل ہادی۔۔" انہوں نے پیار سے کہا۔
"اف انکل۔۔۔ بس آپکو اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہے۔ ہو سکے تو عاصم سے دور رہیے گا۔ اس کا کچھ بندوبست کردیں تاکہ وہ آپ کو کوئی نقصان نا پہنچا سکے۔۔" ہادی ان دونوں کے درمیان ہونے والی ہر بات سے واقف تھا۔
عاصم ان کے کاروبار میں آدھا حِصہ چاہتا تھا۔ اور وہ چاہتا تھا کہ ان کے بڑے گھر میں سے بھی انہیں حصہ دیا جائے۔
جو رشتے اتنے سال ایک دوسرے سے دور رہے وہ کیسے لالچ میں محبتیں لوٹا کر ان محبتوں کی قیمت لگا رہے تھے۔
مرتضی صاحب شادی کے بعد جاب کی وجہ سے دوسرے شہر آئے تو پیچھے سے بھائی نے زور دیا کہ اپنی بیگم کو بھی ساتھ لے جاؤ ہم یہاں نہیں سنبھالیں گے۔۔۔ بس اتنی سی بات تھی اور ان کے درمیان دراڑ پڑ گئی۔
عاصم کے  مطالبے کو مرتضی صاحب نے ٹھکرایا تو اس نے انہیں دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ جن کی مرتضی صاحب کو فکر نا تھی کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ کہ ان کے بھائی کا بیٹا ہے، اور خون اپنے خون کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
لیکن اس بارے میں وہ غلط تھے۔
بہرحال ہادی کے کہنے پر انہوں نے کچھ حفاظتی اقدامات کیے۔
کچھ کمپنیز میں شئیر ڈالے تاکہ انہیں کچھ ہو بھی جائے تو ان کا گھر چلتا رہے، گھر ھدی کے نام کردیا، کچھ پلاٹ وغیرہ فاخرہ کے نام کردیے۔
اور کچھ مطمئین ہو گئے کہ ان کی فیملی اب محفوظ ہے۔۔۔ لیکن وہ خود کو اس لالچی شخص سے محفوظ رکھنا بھول گئے جو لالچ کی پٹی آنکھوں پر باندھے ، اچھا برا سب پیچھے چھوڑ کر دولت کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور راستے میں آنی والی ہر چیز روندھتا چلا جارہا تھا۔
------------
"تو آپ نہیں مانے گے؟" عاصم سخت لہجے میں ان سے مخاطب تھا۔
"دیکھو عاصم۔۔۔ شئیر میں کیوں دوں جبکہ یہ ساری میری اپنی محنت ہے۔ ہاں اگر تم میرے ساتھ کام کرنا چاہتے ہو تو میں خوشی سے استقبال کروں گا"۔ مرتضی صاحب نرمی سے گویا ہوئے۔
وہ ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا اور ان کے ٹیبل پر جھک کر غرایا۔
"عاصم ٹکے ٹکے کے لوگوں کے آگے پیچھے گھومنے والوں میں سے نہیں ہے۔۔۔ وہ حکمرانی کرنے کے لیے بنا ہے ۔۔۔۔ سمجھے آپ؟ اب انجام بھگتو۔۔"
وہ تن فن کرتا وہاں سے نکل گیا اور وہ پیچھے پریشان سے بیٹھے رہ گئے۔
کیا یہ ہوتا ہے خون؟ کیا رشتے یوں بھی کر سکتے ہیں؟
--------------
"احد میں کلاس میں ہوں۔۔۔ بعد میں کال کروں گا۔۔" ہادی نے اپنا بجتا فون سائلنٹ پر کیا اور اسے ٹیکسٹ کیا۔
"اِٹس امپورٹنٹ"۔ احد کا فوراً جواب آیا۔
ہادی اجازت لیتے ہوئے باہر آیا اور کال ملائی۔
"کیا ہوا ہے احد؟ سب ٹھیک ہے؟" احد کا ہیلو سنتے ہی وہ فوراً بولا۔
"ہادی۔۔ مرتضی انکل اب نہیں رہے۔۔۔۔"
ہادی کا سر سائیں سائیں کرنے لگا تھا۔ احد اسے تفصیلات بتانے لگا تو وہ ٹھٹکا۔
-----------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now