DKD-Episode#18

1.7K 149 55
                                    

"اوکے پھر، اللہ حافظ"۔ مہراب ، ہادی اور احد سے مصاحفہ کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔ احد اسے اپنی گاڑی میں چھوڑنے چلا گیا کہ مہراب کی گاڑی خراب تھی۔
ہادی بھی اپنی جابیاں اور فون اٹھاتا کھڑا ہوا تھا کہ ٹیبل پر رکھا فون بجنے لگا۔
آگے بڑھ کر تھوڑا سا جھک کر اسنے فون اٹھایا۔ اسکے ہیلو بولنے سے پہلے ہی دوسری طرف سے آواز روہانسی آواز ابھری۔
"ہیلو احد بھائی۔۔۔۔وہ صائم۔۔۔" آواز سنتے ہی وہ پہچان گیا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ اور صائم کا نام سن کر وہ سارا قصہ سمجھ گیا، کونکہ وہ صائم کو بہت وقت سے جانتا تھا اور اسکی حرکتوں سے بے خبر نہیں تھا۔ پوری بار سنے بغیر اسنے فون پٹخا اور غصے میں تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکلا۔
گراؤنڈ فلور میں اسنے قدم رکھا تو اسے دور سے ہی صائم نظر آگیا جو ادھر اُدھر کمروں میں جھانکتا پھر رہا تھا۔ اب وہ سٹاف روم کی طرف قدم بڑھا رہا تھا کہ ہادی نے پیچھے سے اسکا کندھا تھپتھپایا تو وہ چونک کر مڑا ، پھر گڑبڑایا۔ "ہادی بھائی آپ۔۔ک۔۔کیا ہوا؟"
"کتنی دفعہ تمہیں روکا ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ کوئی فضول حرکت مت کیا کرو۔۔" ہادی دھاڑا۔
'لگادی ہوگی ھدی نے شکایت' وہ سنبھال کر بولا " ہادی بھائی وہ ھدی خود میرے پیچھے پڑی تھی اور مجھے اس کلاس روم میں بلایا"۔ اس نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا۔
اگلے ہی لمحے مضبوط ہاتھ کا تھپڑ زور سے اسکے منہ پر پڑا تھا۔
"واٹ دا ہیل۔۔۔" صائم دبا دبا سا چینخا۔
"کیا کہا تم نے اس کو؟" ہادی نے اسکا کالر پکڑا اور پوچھا۔
"ک۔کچھ نہیں"۔
"جھوٹ!" ہادی کی آواز اونچی ہوئی۔"سچ بولو ورنہ حشر کردوں گا تمہارا"۔
"ہاں کیا ہے اسے تنگ، تمہیں مسئلہ کوئی؟" ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑا کر وہ بد لحاظی سے بولا۔
ہادی نے دوبارہ اسکا گریبان پکڑا اور دبے غصے سے بولا۔ "آئیندہ تم نظر اٹھا کر اسے یا کسی لڑکی کو نہیں دیکھو گے"۔ وہ اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"تمہیں کیوں آگ لگ رہی ہیں۔ کی ہے بدتمیزی میں نے اس سے، ہاتھ لگ جائے میرے چھوڑوں گا نہیں اسکو"۔ اس نے ہادی کا ہاتھ جھٹکنے کی کوشش کی۔
ہادی نے پوری قوت سے اسے دوسرا تھپڑ رسید کیا۔
"بکواس بند رکھو۔۔۔ ورنہ میان تمہیں نہیں چھوڑوں گا"۔
"تیری ماں لگتی ہے وہ۔۔۔؟" صائم کو پہلے ایک لڑکی سے مار کھانے کا غصہ تھا دوسرا ہادی کے تھپڑ کا۔۔۔ اسے غصہ آرہا تھا اور وہ بس لحاظ ہورہا تھا۔
صائم نے بھی اپنی طاقت لگا کر مکا ہادی کو مارا۔
"صائم میں تمہارا حشر کردوں گا۔۔۔۔ زبان کھینچ لوں گا تمہاری کوئی بھی فضول بات کی تو۔۔" ہادی کی آنکھیں سرخ ہورہی تھی جبکہ صائم کی گھڑی مکا لگنے کے باعث ہادی کے ہونٹ سے قریب جِلد اکھاڑ چکی تھی۔
"کروں گا ، اور تم دیکھنا میں کیا کرتا ہوں ھدی کے ساتھ، مجھ پر حملہ کیا مجھے انکار کیا، بچے گی نہیں وہ"۔ اس نے ایک اور مکا ہادی کو مارنا چاہا جسے اسنے اپنی مٹھی میں سبوچ کر روکا اور الٹے ہاتھ کا تھپڑ اسے جڑ دیا۔ وہ کراہا۔
ہادی کو شدید اشتعال اس کے لفظوں نے دلایا تھا۔ ایک اور مکا، پھر ایک تھپڑ۔۔۔۔ اس نے اتنی قوت سے مارا تھا کہ اتنے میں ہی صائم کی بس ہوگئی تھی۔
"آئیندہ اپنی نگاہیں ، ہاتھ اور زبان کا استعمال ٹھیک سے کرنا۔۔۔۔ ورنہ زندہ نہیں بچو گے"۔ غصے کو قابو میں کرتا وہ اس سے کہتا باہر جا چکا تھا۔
احد جب لوٹا تو اسنے صائم کو اس حالت میں دیکھا اور اسے سہارا دیتا کلینک لے جانے لگا۔ ھدی کے فان آنے ہر اسنے ہادی کو فون کیا۔ وہ اس سارے قصے سے بےخبر تھا۔
"احد تم لے جاؤ اسے گھر میں۔۔۔" ہادی کا موڈ سخت خراب تھا۔
"ہادی یار میں صائم کو لے کر جارہا ہوں، پلیز تم چلے جاؤ"۔
چاروناچار ہادی واپس آیا اور اسے آنے کو کہا۔ صائم کی باتیں اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔ وہ ھدی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اس وقت اس کا دماغ گھوما ہوا تھا ، وہ کچھ سخت بول دے گا اور وہ اس کے رویے سے ہرٹ ہوجائے گی۔ چپ چاپ اسے گھر چھوڑ کر وہ اپنے گھر آیا۔
"یہ کیا ہوا ہے عبدل ہادی"؟ دادو نے اسے دیکھ کر سوال کیا۔
"جھگڑا ہوگیا تھا ۔۔۔ ڈونٹ وری"۔ ہلکا سا مسکرا کر اسنے جواب دیا۔ وہ جھوٹ نا بولنے کی کوشش کرتا تھا۔
"حق بات کے لیے لڑے تو ٹھیک ہے ورنہ آئندہ خیال رکھنا"۔ ان کے کہنے پر ہادی نے سر ہلایا اور کمرے میں آکر پانی کا گلاس پیا اور شاور لینے گھس گیا۔ غصہ بھی تو ٹھنڈا کرنا تھا۔
------
"فاخرہ اللہ خیر کرے اتنی پریشان کیوں ہو؟" سکینہ انہیں دیکھتے ہی بولیں۔
"امی جان کہاں ہیں؟" فاخرہ بھی سمینہ سکینہ کی طرح دادو کو امی جان کہتی تھی۔
"کمرے میں۔۔۔آضؤ"۔ وہ اسے ساتھ لیے کمرے میں آئیں۔
دادو کے سامنے بیٹھتے ہی فاخرہ ضبط کھو بیٹھی اور اسکی آنکھیں جھلملا اٹھیں۔
"فاخرہ بچے کیا ہوا ہے؟" ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
"میں پریشان ہوں بہت۔۔۔ ھدی کے تایا وغیرہ آئے تھے اور۔۔۔۔" وہ سارا قصہ سناتی گئیں جسے دادو اور سکینہ نے سنجیدگی سے سنا۔
وہ پڑوسی تھے ان کے، ان کی زندگیوں سے اچھی طرح واقف تھے اور کون کیسا ہے وہ اچھی طرح جانتے تھے۔
"فاخرہ وہ ضرور اپنا کوئی فائدہ دیکھ رہے ہونگے۔ کوئی ضرورت نہیں ابھی فیصلہ کرنے کی، بہانہ بنا دو کوئی، کہہ دو لڑکی پڑھ رہی ہے یا ہمیں وقت دیں۔ خبردار ان کو ہاں کی تو"۔ دادو کا لہجہ دو ٹوک تھا۔
تھوڑی دیر پہلے ہادی جو ان کے کمرے میں آنے لگا تھا رک گیا۔ وہ ساری گفتگو سن چکا تھا۔ "شِٹ!" زور سے مٹھیاں بھینج کر اسنے دیوار پر ہاتھ مارا اور آنکھیں بند کرکے ضبط کیا۔ "عبدل ہادی احمد۔۔۔ ایک کام تم سے ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔۔۔ محبت کرتے ہو، محبت پا نہیں سکتے"۔ اسکے اندر آواز گونجی تو وہ دندناتا ہوا واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگا پھر رک گیا اور مُڑا۔ دروازہ ناک کرکے اندر جھانکا۔ فاخرہ اور سکینہ دروازے کی طرف آرہی تھیں۔
"دادو مجھے آپ سے بات کرنی ہے"۔
"ہاں آجاؤ"۔
فاخرہ اور سکینہ باہر نکل گئیں تو وہ اندر داخل ہوا اور ان کے بستر کے قریب بیٹھا۔
آگے بڑھ کر انکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے اور گہری سانس لی، پھر بولا۔
"دادو، میں شادی کرنا چاہتا ہوں!"
دادو مسکرائی۔
"لڑکی ہم ڈھونڈیں یا ڈھونڈ چکے ہو؟"
ہادی دھیرے سے مسکرایا۔ "ڈھونڈ لی ہے، آپ کی اجازت چاہتا ہوں"۔
دادو نے ہنستے ہوئے اسکے کندھے پر چپت لگائی۔ "سب معلوم ہے مجھے"۔
--------

ہادی کے کمرے کے ساتھ جڑی بالکنی میں وہ دونوں کھڑے تھے۔ احد کمر پر ہاتھ رکھے اسے گھور رہا تھا جبکہ وہ مطمئین سا گرل کے ساتھ ٹیک لگائے ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا تھا۔
"آئی کانٹ بلیو، تم نے اسکی کُٹ لگادی"۔
"اتنا کیا جوش چڑھ گیا تھا تجھے؟" احد نے اسکا کندھا ہلایا۔
"مجھے غصہ آگیا تو بس۔۔۔ ہلکا سا ہاتھ لگا دیا"۔ وہ کندھے اچکا کر بولا۔
"ہلکا سا ہاتھ۔۔۔۔" احد نے ہلکا کو کافی زیادہ کھینچا۔
"مسٹر۔۔۔۔ دانت ٹوت گیا بیچارے کا ایک، دوسرا ہل ہل کر جھولے لے رہا ہے، ہونٹ کا کونا پھٹ گیا، آنکھ کے قریب نیل پڑ گیا، بیچارا ادھ موا ہوگیا ہے اور تم کہہ رہے ہو ہلکا سا"۔
جواباً ہادی ہنسا اور ہنستا رہا۔
"غلطی اس کی تھی۔۔"۔
"ہاں بیچارے نے کیوں شیر کی کچھاڑ میں ہاتھ ڈالا۔۔ نہیں بلکہ شیر کی شیرنی کو کیوں چھیڑا۔۔۔" احد نے اسے چھیڑا تو وہ اور ہنسنے لگا۔
"شام کو تو بڑا منہ بنا ہوا تھا صاحب کا، 'میرا موڈ آف ہے تم چھوڑ آؤ'۔۔" احد نے اسکی نکل اتاری وہ مسکرائی جا رہا تھا۔
"کیوں مسکرا رہا ہے ڈیش؟" احد کو دال میں کچھ کالا لگا۔
"ایک بات بتانی تھی تجھے۔۔۔" ہادی کھنکار کر بولا۔
"بول؟ اور کیا کارنامہ کردیا ہے تو نے جو مجھے پتا نہیں چلا"۔ احد نے اسے گھوری سے نوازا۔
"وہ۔۔۔ وہ نا۔ میں نے تمہاری بہن کے لیے پروپوزل بجھوایا ہے"۔ ہادی نے معصومیت سے کہا۔
"واٹ؟؟" احد چینخا پھر اس کے مکے ہادی پر برسے۔
"گھنے ، میسنے، مر جا۔۔۔۔ اداکار کہیں کے، مجھے بتایا بھی نہیں، تیری تو۔۔۔۔۔" وہ اس پر جھپٹ پڑا۔ "بتا ساری بات۔۔۔"
"نمونے رک جا"۔ ہادی نے بچاؤ کیا اور ہنستے ہوئے اسے بتانے لگا۔
------
"فاخرہ، ہمارا خاندان تمہارے سامنے ہے۔ ہادی تمارے سامنے پلا بڑھ ہے۔
ہم ھدی کو اپنے ہادی کے لیے مانگنے آئے ہیں۔ اگر تمہیں مناسب لگے تو۔۔۔" سکینہ اپنی ساس ، شوہر اور دیورانی کے ہمراہ فاخرہ کے لاؤنج میں بیٹھی تھیں۔
"ایک رشتہ وہ تھا، ایک ہم تمہارے سامنے رکھ رہے ہیں۔۔۔ تمہیں جو قبول ہو وہ کہہ دو"۔ دادو نے بات آگے بڑھائی۔
فاخرہ کی آنکھیں خوشی سے نم ہوگئیں۔ انہوں نے پاس بیٹھی سکینہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر سر ہلایا۔
"مجھے ہادی بہت پسند ہے۔ میری بیٹی کے لیے اس سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا، میری طرف سے مکمل ہاں ہے"۔
سیڑھیوں پر کھڑی ھدی چپکے سے ساری باتیں سن رہی تھی۔
---------
ھدی کو فاخرہ نے انکے پیچ لاکر بٹھایا تو وہ سب اسے پیار کرکے خوشی سے گلے لگانے لگی۔
وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ خوش ہو یا حیران۔۔۔ اس لیے وہ خاموش تھی۔
واپس کمرے میں آئی تو فون بج رہا تھا۔ "عائشہ آپی"
"آخر کار تم میری بھابھی بننے ہی والی ہو"۔ اس نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے عائشہ کی شوخ سی آواز آئی۔
"خوش ہو؟ بھئی ہم تو بہت خوش ہیں"۔
"پتا نہیں سمجھ نہیں آرہا"۔ ھدی آہستہ سے بولی۔
"کیا سمجھ نہیں آرہا؟" عائشہ نے پوچھا۔
"وہ مجھ سے شادی کیوں کریں گے؟ پتا نہیں وہ مجھے پسند کرتے ہیں یا نہیں۔۔ مجھے لگتا ہے وہ بس ہمدردی میں کر رہے ہیں مجھ سے شادی۔۔تاکہ میری شادی عاصم بھائی سے نا ہو
اگر ایسا ہے تو مجھے نہیں کرنی شادی ان سے۔۔ کسی سے نہیں کرنی"۔ اس کے دل میں جو بات تھی وہ اس نے کہہ دی۔
"اف اللہ۔۔۔۔یا خدا۔۔۔ ھدی یار"۔ عائشہ کا منہ حیرت سے کھُل گیا تھا اور الفاظ گم ہوگئے۔ "تم پاگل ہو ، تمہیں تو ہادی بھائی سیدھا کریں گے"۔
اسنے فون بند کیا اور دوسرا نمبر ملایا۔
"ہیلو بھائی۔۔۔۔ آپ کی پریٹی لیڈی۔۔۔۔۔" وہ ایک دل کا حال دوسری دل تک پہنچانے لگی۔
دوسری طرف ہادی سر پکڑ کر رہ گیا۔
------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now