DKD-Episode#12

1.9K 167 65
                                    

لان مہمانوں سے بھر چکا تھا۔ ترتیب سے لگی کرسیوں پر لوگ بیٹھ چکے تھے۔ پیچھے دیوار باقی حویلی کی طرح لائیٹوں سے سجی تھی۔ اور اس کے آگے لکڑی کا خوبصورت پھولوں سے سجا جھولا لگا رکھا تھا۔ جس پر عائشہ کو لاکر بٹھایا جانا تھا۔ آگے میز رکھی گئی تھی جس ہر مہندی اور تیل وغیرہ لاکر رکھا جانا تھا۔
کچھ فاصلے پر جگہ خالی چھوڑی گئی تھی کہ یہاں "ہلا گلّا" کر لینگے۔
صرف مہندی کی تقریب یہاں ہونی تھی جبکہ بارات اور ولیمہ کے لیے شادی ہال بُک کر رکھا تھا۔
کیمرہ مین ایک دم سیدھا ہوکر کھڑا ہوا اور فٹا فٹ تصوریریں کھینچنیں لگا کہ سامنے سے لڑکیاں مہندی کے تھال اور پلیٹیں اٹھائے چلی آرہی تھیں۔
"مہندی ہے رچنے والی۔۔۔" پیچھے گانا لگ چکا تھا۔ گویا تقریب کا آغاذ ہو چلا تھا۔
ان سب کے درمیان ھدی بھی ایک پلیٹ تھامے چلی آرہی تھی۔ وہ کچھ جھجکی ضرور تھی لیکن اس کا حوصلہ بڑھانے کو ثمرین نے فوراً کہا
"پگلی enjoy each and every moment"۔
وہ فارغ ہوکر ہٹیں تو سب بھائی مل کر لڑکی کو لا رہے تھے۔ پیلے ڈوپٹے تلے وہ سب کھڑے تھے۔ کوئی پیلے ڈپٹے کے کونوں کو تھامے ہوئے تھا تو کوئی ڈوپٹے کے نیچے عائشہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ سب لڑکوں نے ایک جیسی ڈریسنگ کر رکھی تھی۔
سب کے آگے دائیں جانب ہادی کھڑا تھا اور بائیں جانب احد۔۔
سفید کرتا شلوار اور گلے میں رنگ برنگا ڈوپٹہ ڈالے، بال ہمیشہ کی طرح پیچھے سیٹ کیے، ہلکی سی شیو کے ساتھ وہ مسکراتا ہوا سامنے دیکھ رہا تھا۔
عائشہ کے اردگرد اس کے سگے بھائی کھڑے تھے۔ پیچھے سے کسی نے "یار کیا کڑیوں کی طرح مٹک مٹک کے چل رہے ہو جلدی چلو" کی ہانک لگائی تو سب سے آگے کھڑے ہادی اور احد ہنستے ہوئے آگے بڑھے۔
"ماشاءاللہ۔۔" ھدی نے دل میں کہا۔
عائشہ کو بٹھا کر وہ "چِٹے ککڑوں" کا گروہ ادھر اُدھر ہوگیا کیونکہ رسم شروع کرنے کے لیے خواتین آگے آگئی تھیں۔
احد کسی بہانے سے اس کی ٹیبل تک آیا۔ اور ہلکا سا کھنکارا۔ ثمرین جو سامنے دیکھ رہی تھی چونک کر متوجہ ہوئی اور اسے دیکھ کر مسکرائی۔
"جی فرمائیں؟"
"کیسے لگ رہے ہیں ہم؟" شاہی انداز میں پوچھا گیا۔
"جنابِ عالی! گستاخی معاف۔ ویسے ہی لگ رہے ہیں جیسے آپ ہیں"۔ ثمرین نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
"واٹ؟" سارا شاہانہ پن ایک طرف کرکے وہ چینخا۔ "ایک تو حسین لڑکا دیکھتے ہی لڑکیاں فوراً جیلس ہوجاتیں ہے، تعریف بھی نہیں کرتیں"۔ اپنا بھرم رکھنے کے لیے فوراً ملبا اس پر ڈالا۔
"جی نہیں۔ جیلس ہوتی ہے میری جوتی"۔
"او ہو۔۔۔ نہیں تو نا سہی۔ ہم بھی نہیں بتائیں گے کہ انارکلی کیسی لگ رہی ہے"۔
ثمرین جواب دینے کی بجائے ہنسنے لگی۔
"انارکلی کو معلوم ہے کہ وہ اچھی لگ رہی ہے"۔
"کسی شہزادے سے کم تو میں بھی نہیں لگ رہا۔۔ہونہہ"۔ اور ساتھ ہی شہزادہ صاحب اجازت لیتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

"یار میرے سے اچھے تو تم ہی رہ جاتے ہو، منہ اٹھا کے گئے میری بہن کے پاس باتیں کی ، تعریف کی اور آگئے"۔ ہادی نے اسے راستے میں ہی پکڑ لیا۔ 'لو جی! سالہ صاحب اب کھینچیں گے ہماری ٹانگ۔۔' احد نے اسے دیکھ کر سوچا۔
"اب کیا کریں ، آپ کے نصیب ہم جیسے کہاں۔۔" ۔ احد کیوں موقع ہاتھ سے جانے دیتا۔
ہادی کا منہ فوراً بن گیا۔
احد نے قہقہہ لگا کر اسکا کندھا تھپتھپایا۔ ایک نمونہ تھا تو ایک اداکار تھا۔
"آج تو تم بھی کہہ دو کچھ جاکر۔۔ دل تو کر رہا ہوگا"۔ احد نے چھیڑا۔
ہادی مسکرادیا۔
"ہاں۔۔۔ کر تو رہا ہے" آخری فقرہ منہ میں ادا کیا گیا تھا۔
"چل چیلنج ہے تیرے لیے۔ کرکے دکھا دے پورے دو منٹ بات"۔
"چیلنج ایکسپٹڈ"۔ فوراً ہامی بھری گئی۔
"گھنے میسنے اندر اندر سے دل تیرا چاہ رہا ہے، بس موقع چاہئے تجھے بھی"۔ احد نے اونچی آواز میں کہا۔ جواب میں ہادی نے مکا بنا کر اسکے کندھے پر مارا ۔ "او میں مرگیا۔۔۔"
پھر اسکا کندھا خود ہی سہلاتے ہوئے مسکرا کر آگے لے گیا جہاں لڑکے بنگھڑا ڈالنے کی تیاری میں تھے۔
"کیا دوستی ہے نظر نا لگے۔۔۔" ثمرین ھدی کے پاس کھڑی تھی۔ ھدی نے ہنستے ہوئے تائید کی۔ وہ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔
---------
'مہندی بھی لگ گئی، ڈانس بھی کرلیا، سب کچھ کرلیا اب روٹی کھلواؤ یار۔۔' عدیل بیچارے کی بیٹری لو ہوگئی تھی اور بھوک شدت سے لگ رہی تھی۔
"اوہو میڈم، آپ کون؟" کھانا ڈالتی ھدی کے قریب وہ آیا۔
"او ہو ہو، احد بھائی میں آپ کی بہن، اچھی والی"۔ ھدی نے ہنس کر اسی کے انداز میں جواب دیا۔
"ارے ھدی تم۔" اسنے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا "مجھے لگا کوئی پری پرستان سے آئی ہے"۔
"ارے احد بھائی آپ آج نمونہ نہیں لگ رہے خیر تو ہے؟" وہ کہاں بدلہ رکھنے والوں میں سے تھی۔
"حد ہے ویسے۔۔ جاؤ میں نہیں بات کرتا"۔ وہ آگے بڑھ کر پلیٹ میں چاول اور حلیم نکالنے لگا۔
"اچھا بھابھی کیسی لگ رہی ہیں آج؟" ھدی پیچھے آگئی۔
"خود ہی دیکھ لو"۔ بے دھیانی میں جواب آیا۔
"کدھر؟" وہ ایکسائٹد ہوگئی۔
"ادھر۔۔۔" اس نے مڑ کر ایک ٹیبل کی طرف آنکھوں سے اشارہ کیا۔
" او مائی گاڈ۔۔۔۔۔" ھدی اس طرف دیکھ کر چینخی۔ پھر احد کی طرف مڑی۔
"حد ہے ویسے بتایا بھی نہیں۔" پھر بولی "خوب جمے گی ویسے"۔
"پسند آئی؟"
"بہت" ھدی نے پورے دل سے کہا تو احد مسکرادیا۔ وہ چلی گئی تو احد ہادی کے پاس گیا۔
"بیٹا چیلنج آج کی تاریخ میں ہی پورا کرنا ہے"۔
--------
"بات سن کلمہ پڑھ کر جانا"۔ وہ اپنا ملٹی کلر کا ڈوپٹہ درست کرتا ہوا آگے جانے لگا تو احد نے آواز لگائی۔
"بکواس کنٹرول کر۔۔ "۔ ہادی نے مُڑے بغیر کہا۔
ثمرین میٹھے کی بہت شوقین تھی، میٹھا سرو ہوتے ہی وہ اٹھ کر کھیر لینے چلی گئی۔
موقعِ غنیمت جانو ہادی میاں۔۔۔ خود سے کہتے ہوئے وہ ان کی میز کے قریب آیا جہاں صرف ھدی بیٹھی تھی اور مکمل طور پر اپنے چاولوں کو ختم کرنے کی کوشش میں گم تھی۔
"کچھ چاہئے تو نہیں آپ کو؟" آواز پر اسنے سر اٹھا کر دیکھا۔ ہادی نے اس کے آگے پیپسی کا ٹِن رکھا اور اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔
"نن۔۔نہیں تھینکس"۔ اس نے فوراً گڑبڑا کر کہا۔
ایک تو کمبخت لگ اتنا ڈیشنگ رہا تھا اوپر سے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔۔۔ اس کی دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
"کچھ چاہئے ہو تو بتا دینا"۔
"جی اوکے"۔ اس نے سر جھکا کر نظریں پلیٹ پر جمائیں لیکن کچھ کھا نہ سکی۔
"ویسے ھدی۔۔۔" ہادی کے دوبارہ مخاطب کرنے پر اس نے بے ساختہ سر اٹھایا۔
وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"بہت اچھی لگ رہی ہو آج۔۔۔
‏Pretty lady is looking 'prettiestt' today"۔ ہادی کی براؤن چمکتی آنکھیں اسکی سیاہ حیران آنکھوں پر جمی تھیں۔
"اللہ اکبر۔۔کیا کروں؟ کیا کہوں؟" اس کا دل تو دھڑکنا ہی بھول گیا تھا۔ بمشکل ہمت جمع کرکے اس نے لب کھولے۔
"تھینک یو۔ آپ بھی بہت اچھے لگ رہے ہیں"۔ اس نے مسکرا کی کوشش کی۔
"سچ؟" ہادی تھوڑا آگے جھکا اور ابرو اٹھا کر پوچھا، وہ بے حد غور سے اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
"مچ"۔ چہرہ لال گلابی ہورہا تھا۔ ہادی نے مزہ لیتے ہوئے قہقہہ لگایا اور سیدھا ہوا۔
کچھ فاصلے پر کھڑا احد جو کھانے سے بھرپور انصاف کر رہا تھا پلیٹ چھوڑ کر اسے ہاتھ سے اشارے کرنے لگا۔ "ابھی دو منٹ نہیں ہوئے"۔
"کیا چِھچھوری حرکتیں کر رہا ہوں میں"۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ تھوڑا سا دور کھڑا ہوا۔ 'شرافت کے زمرے میں رہو ہادی۔۔۔ ' اسنے خود کو لتاڑا اور سوچنے لگا کہ کیا بولے۔
اوپر سے احد کے اشارے 'ٹائم ضائع نا کر، بول۔۔"
"کھانا ٹھیک ہے؟"
اس بیچاری سے کھانا کھایا نہیں جا رہا تھا ، حیرت سے اسے دیکھا پھر بولی
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟"
"ہاں بالکل" فوراً جواب آیا۔"بس ذرا بھوک لگی ہے"۔ وہ آگے بڑھا اور اسکے ہاتھ سے چمچ لیا۔ چاولوں سے نوالا بھر کے منہ میں ڈالا ، سامنے پڑی پیپسی کا گھونٹ بھی اٹھا کر بھر لیا۔ "ہمم گڈ"۔ کھانے کو سراہتے ہوئے سیدھا ہوا تو اسکی طرف نظر پڑی جو حیرت سے اپنی سیاہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
"اوکے سی یو!" اس پر ایک نظر ڈال کر وہ ایک ادا سے مڑ گیا۔
"اللہ اکبر۔۔یہ کیا ہوگیا انکو؟" وہ ابھی تک اسکی دور جاتی پشت کو دیکھ رہی تھی پھر ثمرین کے آنے پر چمچ اٹھا کر چاول کھانے لگی۔
"جی او میرے شیر"۔ احد نے اسے دیکھ کر تالی بجائی۔
--------
ثمرین کے بیٹھتے ہی عدیلہ اور علینہ دھپ کرکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
"تمہارا منہ کیوں پھولا ہوا ہے؟" اس کے منہ کے زاویے بگڑے ہوئے لگ رہے تھے۔ کاجل لگی آنکھوں میں پانی بھر رہا تھا جسے وہ بمشکل روک رہی تھی۔
"ثمی آپی یہ کیا بات ہوئی ہر کوئی کمنٹ پاس کرکے چلا جاتا ہے میرے پر۔۔" اس کی روہانسی آواز پر ثمرین نے کھیر چھوڑ کر اس کی طرف رخ کیا۔
"کیا بات ہوئی ہے؟" اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"وہاں میں کھانا ڈال رہی تھی تو ایک آنٹی کہتی رنگ دیکھو سانولا ہے لیکن پھر بھی فیشن بھر بھر کے کیا ہوا ہے ، میں بغیر کھانا ڈالے واپس آگئی"۔ اسنے جس مشکل سے اپنے آنسو روکے ہوئے تھے یہ وہی جانتی تھی۔
"کیا میں اتنی بری ہوں کہ اچھے کپڑے نہیں پہن سکتی؟ کیا میں نے خود اللہ سے کہا کہ مجھے اس طرح کا بنا دیں؟"
"علینہ۔۔۔" ثمرین نے پیار سے اسکا گال تھپتھپایا۔ "کیا تمہیں اللہ کی بنائی چیزوں سے اختلاف ہے؟"
"نہیں آپی، میں مطمئین ہوں، لیکن سب لوگ کوئی نا کوئی جملہ کس دیتے ہیں مجھ پر، پھر مجھے برا لگتا ہے"۔
ھدی نے غور سے اسکی طرف دیکھا۔ اور دل میں سوچا کون کہتا ہے خوبصورت نہیں ہے یہ؟
"علینہ! لوگ اپنی تنقید اور کمنٹس ضرور کرینگے، کرنے دو۔۔ ان کی باتوں سے آپ کا کردار ایک الگ لیول پر چلے جاتا ہے کیونکہ آپ جان جاتے ہو کہ آپ کو برداشت کیسے کرنا ہے اور ردِ عمل کیسا دینا ہے؟ آپ اپنی ذات کے بارے میں جان جاتے ہو۔
لوگوں کا کیا ہے، ان کی زبان میں مروڑ اٹھتے رہتے ہیں اگر وہ نا بولیں۔۔"
"ہاں کھانا ہضم نہیں ہوتا ان کا"۔ عدیلہ نے لقمہ دیا۔
"خلی ولی کرو لوگوں کی۔ بس آپ کچھ سیکھو اس میں سے یا جانے دو"۔
"تو ان لوگوں کا کیا؟ وہ کیوں نہیں چپ ہوتے۔۔" علینہ کی دھیمی سی آواز آئی۔ اس کا دل کافی ہلکا ہوچکا تھا۔
"اگر وہ کمنٹ کردیں ہم پر تو کیا ہم چپ رہیں؟ الٹا جواب نا دیں؟"
"نہیں۔ کوئی ہمیں کوئی بات کہتا ہے تو دفع کرو ، یہ سوچو کہ اسکی عقل کا لیول اچھا نہیں ہے، نا اسکا حسنِ نظر اچھا ہے کہ وہ چیزوں کو اچھی نظر سے دیکھے، نا ہی اس کی زبان سے پھول جھڑتے ہیں کو وہ اچھے کلمات ادا کریں۔
وہ چیزوں میں اچھی بات نہیں دیکھتے، وہ اس میں کیڑے نکالتے ہیں یا آپ پر ہنستے ہیں۔۔کیوں؟
کیونکہ ان میں عقل کی کمی ہے، چیزوں کو دیکھنے کے لیے اچھی نظریں نہیں ہیں اور انکی ذہنیت تنگ ہے۔
یہ خرابی ان میں ہے، آپ میں نہیں! اس لیے دفع کرو ، مٹی پاؤ۔انکو انکے حال اور انکی سوچ پر چھوڑ دو۔۔ بس ہمیں اپنی زبان سے کسی کو دکھ یا تکلیف نہیں دینی۔۔ سمجھی؟" سانس لے کر ثمرین نے مسکرا کر پوچھا تو علینہ نے سر اثبات میں ہلایا۔
"کیا بات کہہ دی آپ نے"۔ ھدی نے بھی کہا۔
"اب کھانا کھاؤ فوراً"۔
ثمرین ۔۔ احد کی زبان بولتی تھی اور احد۔۔ ہادی کی زبان بولتا تھا۔
اور کیا آپ جانتے ہیں باتوں میں سے اچھی باتیں جذب کرکے اس پر عمل کرکے اور دوسروں کو اس سے آشنا کروا کر ہم کسی کا اور اپنا کتنا بھلا کر سکتے ہیں؟۔۔۔

-------
Karliya imagine mehndi par characters ko? 😛
Kya pasand aya, kya bura laga, zarur btayen.. Fav scene or dialogue?
Last but not the least mirch masala coming in next episodes.. Fun part khatam ab zara serious hojaty hain...
Thankyou💜

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now