DKD-Episode#11

1.9K 153 38
                                    

"چلو میرے ساتھ"۔ ہادی اسکے کمرے کے دروازے میں کھڑا تھا۔
"بھائی کہاں؟" عائشہ بیڈ سے اتر کر کھڑی ہوئی۔
"میں نے سب سے کہا ہے کہ چھت پر جمع ہوجائیں۔ تھوڑا مل بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ، پھر تم نے رخصت ہوجانا ہے"۔
اسنے آگے بڑھ کر اسکی ناک دبائی۔کل عائشہ کی مہندی تھی اور پرسوں اس نے رخصت ہوجانا تھا۔
"ہادی بھائی۔۔" عائشہ کی آنکھیں فوراً نم ہوئیں۔
"ارے پاگل۔۔" ہادی نے اسے ساتھ لگایا۔ "رخصتی کے وقت بہانا آنسو۔۔ خبردار ابھی اگر روئی یا کسی کو رُلایا۔۔" اسکا سر تھپک کر وہ الگ ہوا۔
وہ نم آنکھوں سے ہنس دی۔ "کُھل کر رونے بھی نہیں دیتا کوئی۔۔۔"
"روئے گا تو اب بیچارا شہروز۔۔" ہادی نے ہنس کر کہا۔
"بھائی۔۔۔" عائشہ نے اس کے کندھے پر مکا مارا تو وہ ہنستے ہوئے اسے ساتھ لیے چھت کی طرف چل پڑا۔

"آپ گاؤں آئے اور گاؤں میں چھت پر بیٹھ کر تازہ ہوا اور کھلے آسمان سے لطف اندوز نہیں ہوئے تو آپ گاؤں آئے ہی کیوں؟"
چھت پر الگ ہی محفل لگی ہوئی تھی۔ ساری کزنز پارٹی وہاں موجود تھی۔ ثمرین بھی ھدی کے ساتھ اوپر آئی۔ عالیہ وغیرہ پہلے سے ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔
یہ رات کے کھانے کو بعد کا وقت تھا اور یہ ساری محفل ہادی نے بیٹھائی تھی۔
ھدی نے پہلے چھت کو غور سے دیکھا پھر سر اٹھا کر آسمان کو، جس پر چاند اور ستارے صاف نظر آرہے تھے۔ کھُلا آسمان، اور ہلکے سے چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا۔۔۔ کیا سین تھا!
وہ مسکرا کر عالیہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔ بار بار کبھی چھت کو دائیں بائیں سے دیکھتی تو کبھی سر اٹھا کر آسمان کو۔۔۔ اسے یہاں بیٹھ کر مزہ آرہا تھا۔
"سنیے!" ثمرین جو فون سننے کے لیے پیچھے رک گئی تھی آواز پر فوراً پلٹی۔
"جی؟" سامنے شلوار قمیض میں ملبوس ، سیاہ چھوٹے بالوں اور صاف رنگت والا احد کھڑا تھا۔
"آپ کی تعریف؟" احد نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"آپ سے بہتر کون کر سکتا ہے؟" ثمرین نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ احد نے اپنے بنگھڑا ڈالتے ہوئے دل کو تھپک کر آرام سے بٹھایا۔ اور سینے پر ہاتھ باندھے۔
"جی بالکل۔ تو میڈم ہمیں پہچانتی ہیں؟" بمشکل اسنے لہجے کو سنجیدہ رکھا۔
"بھولے ہی کب تھے ہم۔۔" ثمرین ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں لال ہورہی تھی۔
"ثمی۔۔" احد کا منہ کھُلا کا کھُلا رہ گیا۔
"میڈم کل سے آئی ہوئیں ہیں اور مجال ہے کہ اس ناچیز کو سلام ہی کردیں!" اسنے ناراضگی سے کہا۔
"مسٹر شاید آپ بھول رہے ہیں جو آپ نے کہا تھا"۔ ثمرین بھی اسی کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی۔
"میں نے بس یہی کہا تھا کہ آرام سے لاسٹ سمسٹر ختم کرلو۔ تنگ نہیں کروں گا۔
یہ نہیں کہا تھا کہ بات کرنا بند کردو"۔ اب وہ سچ میں ناراض ہوگیا تھا۔
"ہاں نا! آرام سے لاسٹ سمسٹر ختم کر رہی ہوں، آپ سے باتیں کروں گی تو پڑھوں گی کیسے؟" احد کا دل  جلانے میں ہادی کے بعد دوسرے نمبر پر ثمرین تھی۔ نہیں بلکہ دونوں ٹاپ لسٹ پر تھے۔
" تمہیں تو میں ایک ہی بار اٹھا کر لے جاؤں گا اب ۔۔۔ میڈم ثمی"۔ اسنے چیلنج کیا اور مڑا۔ ثمرین اسے دیکھ کر مسکرادی۔ وہ یونیورسٹی لائف میں ہی احد کی حرکتوں سے اور اسکے چہری اور چمکتی آنکھوں سے اسکے دل کا حال بھانپ چکی تھی۔ رہی سہی کسر ہادی نے اسے یہ بتا کر کردی کہ یہ میرا دوست ہے اور تمہارے لیے نیک خیالات رکھتا ہے۔ اور ایک دن اسنے یہ بات ثمرین سے بھی کہہ دی کہ وہ پڑھائی ختم کرلے تو وہ اپنی والدہ کو اسکے گھر لے آئے گا اور اس بات میں ہادی نے اسکا پورا ساتھ دیا تھا۔
"میرے ابو سے پوچھ کر لے جانا"۔ ثمرین ہنسی تو وہ اسکی طرف مڑا۔
"کیا خیال ہے ابھی لے لوں اجازت؟ سسر صاحب نیچے ہی بیٹھے ہیں"۔ وہ بڑے مزے سے بولا۔
"آرام سے بیٹھے رہیں مسٹر۔۔" ثمرین نے فوراً وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔
ہنستے ہوئے احد کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ "میری بہن پر لائینیں مار لی ہو تو تشریف لے آئیں"۔
"تو تم بھی میری بہن پر لائن مار لو، حساب برابر"۔ احد نے ھدی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
"بے شرم، بے حیا،۔۔" ہادی نے دانت پیستے ہوئے احد کو دو دھموکے جڑے۔
"آہ۔۔" وہ کراہا تو ہادی نے ایک اور لگائی اور اسے کھینچ کر آگے لے آیا جہاں وہ سارے عدیل کے گاؤں میں پیش آنے والے جِنّاتی اور چڑیلاتی واقعات سن رہے تھے جو خالصتاً اس کی اپنی بنائی ہوئی کہانیاں تھیں۔ اوپر سے اسکے چہرے پر چھائے اور سنجیدہ اور ڈراؤنے تاثرات پر لڑکیاں بمشکل خود کو چینخ مار کر بھاگنے سے روکی بیٹھی تھیں۔
ایک دوسرے سے چپکی بیٹھیں وہ حوصلہ دے رہی تھیں کہ "زیادہ لوگ ہوں نا تو ایک  جن پنگا نہیں لیتا ہوتا"۔
"یہ کیا گفتگو کر رہے ہو تم لوگ۔۔" ہادی نے آتے ہی جھاڑ پلائی۔
"تم کیا فضولیت بک رہے ہو؟" عدیل کو گھوری سے نواز کر لڑکیوں کی طرف مڑا جو ڈری ہوئی بکریوں کی طرح بیٹھی تھیں۔ کسی نے کسی کا بازو پکڑ رکھا تھا تو کسی کا ڈوپٹہ۔ لڑکوں کے قہقہے لگانے پر وہ جھینپ کر الگ ہوئیں۔
"چلو مہندی پر کیا کیا کرنا ہے اسکی پلینگ کرتے ہیں"۔ ہادی نے ماحول نارمل کرنے کے لیے کہا۔
" گروپ ڈانس۔۔" علی فوراً بولا تو عقیل نے ہانک لگائی۔ "مراثی!"
"آئڈیا اچھا ہے۔ " احد نے کہا۔
"یہ تو پہلے سوچنا چاہئے تھا اب تو ایویں ایویں والا ڈانس کرلیں گے، گروپ کے لیے پریکٹس کرنی پڑتی ہے"۔ عادل نے رائے دی۔ "یار ہوجائے گا" علی نے کہا۔
"فالحال ہم یہاں بیٹھ کر باتیں کریں گے، اور انجوائے کریں گے۔ ڈانس وانس بعد میں کرلینا"۔ ہادی نے بات ختم کردی۔
"عالیہ جاؤ فریج میں فالودہ اور آئس کریم لاکر رکھا ہے۔ اوپر لے آؤ۔۔۔" ہادی نے عالیہ کو اشارہ کیا تو وہ فوراً اٹھی۔ پھر وہ باقیوں کی جانب مُڑا اور باتوں کا آغاز خود کیا۔
اپنی بچپن کے واقعات، سارا ہلا گلا وہ ایک ایک کرکے واقعہ بتانے لگا، پھر عائشہ کے بچپن کی باتیں۔۔۔ تب سے خاموش بیٹھی عائشہ مسکرانے لگی پھر ہنس پڑی۔
ہادی نے فوراً ماحول خوشگوار بنا دیا تھا۔ اسے دوسروں کے چہروں مسکراہٹیں لانے کا ہنر اچھے سے آتا تھا۔ اس کی باتوں کے بعد باقی کزنز بھی کوئی نا کوئی ہنسی مذاق والا قصہ سنانے بیٹھ گئے۔ آئس کریم اور فالودہ بھی آگیا تھا۔
فالودہ کھاتے ہوئے ھدی مسکراتے ہوئے انہیں بھی سن رہی تھی۔ اور غور سے ہادی کو دیکھ رہی تھی۔ 'کتنا اچھا بولتے ہیں نا یہ۔۔۔' اسے اتنا بولتے ہوئے شاید اسنے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now