DKD-Episode#06

1.9K 127 26
                                    

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا ہی نہیں

اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ نہیں۔۔۔

دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی۔۔۔

شام کو گھر لوٹتے ہی اس نے ماما کو اپنے پیسے پکڑائے جو انہوں نے کچھ کہے بغیر مسکرا کر لے لیے۔ زیرِ لب الحمداللہ کہا۔ ھدیٰ جانتی تھی پیسے کم ہیں لیکن پیسے تو تھے نا وہ؟ جو ان کے لیے من و سلویٰ کے برابر تھا۔

کھانا کھا کر وہ اوپر آئی اور چھت پر کھڑی ہوگئی۔ اس کے امتحان ہونے میں ابھی دو تین مہینے تھے۔ اور کچھ وقت سے اس نے پڑھائی پر بالکل دھیان نہیں دیا تھا۔

چاند پر نظریں جمائے وہ اپنے ذہن کو کچھ بھی سوچنے سے روکے رکھ رہی تھی۔

بعض اوقات انسان صرف سوچ سوچ کر ہی اپنا آدھا دماغ خراب کرلیتا ہے۔

یہ بھی کیا سکون ہے، کھلی فضا میں بندہ آرام سے کھڑا رہے اور وقت ہاتھ سے پھسلتا جائے۔

لمحے سرکتے رہے اور سکون اترتا رہے۔

میوزک کی آواز پر اسکا دھیان ہٹا اور اسنے گردن گھمائی۔ ساتھ والے گھر سے غزل کی آواز آرہی تھی۔

"دل کی گلیاں سنسان ہیں۔۔آئے کوئی"۔ ھدیٰ غزل سننے لگی۔ 'یہ کس نے لگائی ہوگی؟ شادی والا گھر لگا لی ہوگی کسی نے۔ ' اس نے سوچا۔

۔ "دل کے دریچے"۔ سر جھٹک کر ہلکا سا مسکرائی۔

"واقعی سنسان ہیں۔۔۔لیکن سنسان ہی ٹھیک ہیں"۔ خود سے کہتے ہوئے سر جھٹک کر وہ نیچے آگئی۔ پیچھے غزل بند ہوچکی تھی۔

--------

"بہو!" شعیب احمد خان کے گھر میں سب لاؤنج میں براجمان تھے۔

"جی امی جی؟" اپنی ساس کے پکارنے پر وہ سامان کی لسٹ سے نظریں ہٹا کر انکی طرف متوجہ ہوئیں۔

"فاخرہ کی طرف چکر نہیں لگا؟"

"اوہ امی جی! شادی کی تیاریوں میں اتنے مصروف تھے ہم کہ نا میرا چکر لگا نا سمینہ(ان کی دیورانی، عائشہ کی ماما) کا۔ "

"مجھے بھی گھر سے نکلنا منع کیا ہوا ہے، ورنہ میان چکر لگا آتی"۔ عائشہ نے منہ بسور کر کہا۔ ان کے خاندان میں لڑکی کو ایک مہینہ مایوں میں بیٹھا دیتے اور گھر سے نکلنے نا دیتے۔

"فون تو کرلیتی ہوں ایک دو دن بعد، عائشہ کی بھی ھدیٰ سے بات ہوجاتی ہے"۔ اس دفعہ سمینہ بولیں۔

دل کے دریچےDonde viven las historias. Descúbrelo ahora