DKD-Episode#07

1.9K 143 25
                                    

ایک نئے دن کا آغاز ہوچکا تھا۔ نماز سے فارغ ہوکر وہ اپنے کمرے میں آیا شلوار قمیض بدل کر ٹراؤزر اور شرٹ پہنی اور جاگرز پہن کر وہ جاگنگ کے لیے باہر نکلا۔
سورج انگڑائی لیتے ہوئے بیدا ہورہا تھا اور فجر کے وقت کا اندھیرا چھُٹتا جا رہا تھا۔
زمین کہیں سے کچی تھی اور کہیں سے پختہ۔ اپنے قدموں کی چاپ ارد گرد بکھیرتا وہ دوڑتا جا رہا تھا۔ تقریباً پندرہ بیس منٹ بعد اسنے رُک کر اپنا بازو چہرے کے سامنے کرکے گھڑی پر وقت دیکھا۔ اور دوبارہ دوڑنے لگا۔
ارد گرد سبز لہلہاتے کھیت تھے۔ چونکہ یہ ایک گاؤں تھا اور وہ گھر سے ذرا آگے نکل آیا تھا اس لیے ہر طرف دور دور تک فصلیں ہی نظر آرہی تھیں۔
دور اسے ایک عمر رسیدہ آدمی ریڑھی دکھیلتے ہوئے آگے جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ جو اب کچے راستے پر چلتے ہوئے اپنی فصل کی طرف جا رہا تھا۔
اپنی فصلوں کے قریب رُک کر وہ ریڑھی سے کھاد اور دیگر مواد کی بوریاں اتارنے لگا۔
بوڑھے ہاتھ دوسری بوری کی طرف بڑھے لیکن اس سے پہلے ہی اس نے بوری اٹھائی اور باقی سامان کے پاس رکھنے لگا۔
"ارے بیٹا۔۔۔"۔ وہ فوراً بولے۔
"یہ کیا کر رہے ہو؟"
جواباً وہ مسکراتا ہوا بولا۔ "اسلام علیکم چچا"۔
"وعلیکم السلام بیٹا۔ چھوڑ دو یہ، میں کرلوں گا"۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر بوری پکڑی۔
جسے اسنے فوراً واپس پکڑ لیا۔ "یہ فصلیں آپ کی ہیں یا آپ یہاں کام کرتے ہیں؟"
"فصل میری ہے لیکن یہاں ہم دو تین لوگ مل کر کام کرتے ہیں۔ ایک بیمار ہے اور دوسرا کچھ سامان لینے شہر گیا ہوا ہے۔ تو آج میں اکیلا کر رہا ہوں کام"۔ انہوں نے رسانیت سے جواب دیا۔
"اچھا"۔ ان کی بات سننے کے ساتھ ساتھ وہ کام بھی کر رہا تھا۔
"تم میری مدد کیوں کر رہے ہو؟ یہاں تو ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں ، کیا سب کی مدد کرواؤ گے؟" انہوں نے اسکے حلیے پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
سیاہ ٹراؤزر پر خاکی ٹی شرٹ، دوڑ لگانے کی وجہ سے بکھرے بال جو ماتھے پر گر رہے تھے جنہیں وہ سر جھٹک کر آنکھوں پر آنے سے باز رکھتا، وہ کہیں سے بھی مزدور نہیں لگ رہا تھا۔
"کیونکہ میں یہاں سے گزر رہا تھا اور اس دوران آپ اکیلے یہاں کھڑے تھے اور جو آپ کام کر رہے تھے اس میں ، میں آپ کی مدد کر سکتا تھا تو کردی"۔
اسنے کندھے اچکائے۔ ریڑھی خالی ہوچکی تھی۔
"ایسے تو پھر کس کس کی مدد کرو گے لڑکے؟" انہوں نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔
"چچا آپ کے ساتھ اور کام والے ہوتے یا آپ کوئی اور کام کر رہے ہوتے جو میں نہیں کر سکتا تو میں قطعاً نا رکتا، لیکن چونکہ جو چیز میں کر سکتا ہوں اور اسے کرنے کا وقت اور ہمت میرے پاس ہے تو میں ضرور کروں گا"۔ وہ سادگی سے کہتے ہوئے انکے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
"میں سمجھا نہیں، یعنی تم مزدوروں کی بھی مدد کر دیتے ہو؟ ایسے کام کرنے لگے تو لوگ خود کیا کرینگے؟" وہ وہیں ایک طرف زمین پر بچھی ہوئی دری پر بیٹھ گئے تو وہ بھی آلتی پالتی مارتے ہوئے وہی بیٹھ گیا۔
"نہیں چچا جی! وہ انکا کام ہے۔ لیکن اگر کہیں بھی میں کسی کی مدد کرسکتا ہوں تو ضرور کرونگا۔ اگر کسی کا کوئی کام ہے تو وہ کام کرتا رہے، مجھے جب لگے گا کہ میری ضرورت ہے کسی کو تو میں اٹھوں گا"۔
جواباً وہ ہنسنے لگے۔ "یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی لڑکے"۔
"چھوڑیں!" اسنے بھی ہنستے ہوئے ناک سے گویا مکھی اڑائی۔
"نہیں اب تو بتاؤ ہمیں"۔ وہ بضد تھے جاننے کے لیے۔
"آپ بس اتنا سمجھ لیں کہ جب آپ کے پاس ہمت، طاقت اور وقت ہے اور کسی کو آپ کی ضرورت ہے تو مدد کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ آپ کا دل خود کہتا ہے کہ اسکی مدد کرو یا اسکی مدد کرو۔ بس سادہ سی بات ہے"۔ اسنے مسکرا کر بات سمیٹی۔
"ہمم۔۔ دل کا معاملہ ہے۔۔۔ "۔ وہ ہنسنے لگے تو وہ چپ چاپ مسکرانے لگا۔ اپنا نظریہ وہ صحیح سے سمجھا پایا تھا یا نہیں۔۔لیکن اس نے بات ختم کردی۔
"شہر سے آئے ہو؟" وہ پوچھنے لگے۔ "ہاں جی!"
"ارے۔۔شعیب احمد کے پوتے ہو؟" انہوں نے چونک کر پوچھا۔
"جی جی!"
"شادی میں آئے ہو۔ اچھا کیا نام ہے تمہارا؟"
"عبدل ہادی احمد خان"۔ اس نے مسکرا کر کہا اور کھڑا ہوگیا۔ وقت کافی ہورہا تھا اور اسے ابھی گھر جاکر کچھ کام بھی کرنے تھے۔
"ارے وہ جو باہر ہوتے تھے؟"
"ہاں جی وہی"۔ اس نے سر جھکا کر مسکراہٹ دبائی۔ "شاباش بہت اچھے بچے ہو"۔ انہوں نے کھڑے ہوتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ ہاتھ ملا کر اجازت لیتا ہوا واپس پر ہولیا۔
-------
"ہاں تو آرام سے میرے پلین پر عمل کرو اور انجوائے کرو"۔ احد بڑے مزے سے بولا اور ہاتھ جھاڑے جیسے چٹکی بجاتے ہی چھو منتر پڑھ کر سب کچھ بدل جائے گا۔
"میں اپنی بات منواؤں گی کیسے؟" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
"دیکھو اپنے کام اور اپنی بات منوانے کے لیے ہمیں ایک ہنر آنا چاہیے۔۔۔
اپنی بات منوانے کا ہنر۔ اب وہ تمہاری مرضی کہ تم سیدھی طرح بات کرو، یا بلیک میل کرو، یا تھوڑا جذباتی کرو یا بات اس انداز سے کرو کہ وہ مان جائے۔
جیسے تم جانتی ہوگی کہ کوئی تمہاری بات کیوں مانے گا اور کیوں نہیں مانے گا۔ تم اس کو وجہ دو کہ وہ تمہاری بات مانے۔ ایسے پیش کرو اپنی بات کہ اسے وہ بات اچھی لگے یا اچھی نا بھی لگے تو پھر بھی وہ مان جائے۔
یہ باتوں کرنے کا ہنر ہوتا ہے بی بی! سیکھ لو ، کامیاب رہو گی"۔ کسی ماہر استاد کی طرح احد نے اپنی بات مکمل کرکے کالر کو ٹھیک کیا۔
جواباً ھدیٰ ہنس پڑی۔
"مائنڈ مت کرنا آپ ۔۔۔۔لیکن اتنی نمونوں والی حرکتیں کیوں کرتے ہیں آپ؟"۔ بے ساختہ ہی ہنستے ہوئے وہ اپنے پرانے مخصوص لہجے میں بول گئی تو احد پہلے تو حیران ہوا۔
پھر منہ بنا کر کچھ بڑبڑاتے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگ گیا۔
ھدیٰ نے ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی اور دوبارہ پوچھنے لگی۔
"اچھا یہ ساری باتیں کس نے سیکھائی ہیں آپ کو؟"
"میرے دوست نے رٹائی ہیں۔" بے ساختہ اسکے منہ سے نکلا تو اگلے ہی لمحے اسنے زبان دانتوں تلے دبائی۔ چونکہ چند لمحے قبل وہ  ناراض تھا اس لیے آواز آہستہ ہی تھی جو ھدیٰ ٹھیک سے سن نا پائی۔
"جی کیا کہا؟"
احد نے رخ اسکی طرف موڑا۔ اور صحیح فلموں کے ایکٹر والا انداز اپنا کر بولا۔
"تھپیڑے وقت کے کتنے سبق آموز ہوتے ہیں
زمانہ بھی تو کار سیلیٓ استاد کرتا ہے
زندگی سکھا دیتی ہے ھدیٰ بی بی!"
"واہ کیا شہانہ انداز ہے"۔ وہ اس کی باتوں کی وجہ بالکل فریش موڈ میں تھی تو جواباً مزے سے بولی۔
"ویسے میری بہن نہیں کوئی"۔ کچھ دیر بعد احد بولا۔
"میری بھی نہیں"۔ ھدیٰ بولی۔
"بھائی ہے؟"
"نہیں "
"کیا خیال ہے پھر؟"
"کیا خیال ہے پھر؟" ھدیٰ بھی اسی کے انداز میں بولی۔
"چلو آج سے تم میری چھوٹی سی بہن اور میں تمہارا بھائی۔ کوئی بھی کام ہو، بھائی حاضر ہے تمہارا"۔
"اوہو! میرا بھائی نمونہ نہیں ہو سکتا "۔ وہ صدمے سے بولی۔ احد کے ساتھ وہ کافی فرینک ہوچکی تھی۔
"کیا کہا؟؟" احد چینخا۔
"سوری وہ نا۔۔آپ مائنڈ مت کرنا۔ میں تیزی تیزی میں بول گئی بس"۔ وہ تھوڑی نادم ہوئی ورنہ حقیقتاً اسے صرف حقیقت بیان کی تھی۔
"نہیں کوئی بات نہیں کہہ لو ۔ بہن کے منہ سن لوں گا۔ اب میری بہن بھی تو بِلبتوڑی ہے"۔
"میرا بھائی بھی تو نمونہ ہے"۔ اس نے زبان چڑائی۔
"اے! نمونہ ہوگا تمہارا شوہر"۔
"ہائے اس بیچارے کو تو کچھ نا کہیں۔ ورنہ آپ کی بیگم کو نہیں چھوڑنا میں نے"۔
"ہائے میری بیگم۔۔۔" اس نے مصنوعی آہ بھر کے دل پر ہاتھ رکھا۔ "ابھی تو اس کو منانے کے لیے پاپڑ بیلنے ہیں بہت"۔
"اوہو! میں کروں مدد؟"
"ہاں تم ہی جاؤگی رشتہ لینے"۔
"چچ۔چچ۔۔۔۔بیچاری بھابھی! کون ملنے والا ہے انکو"۔
"چچ۔چچ۔ بیچارا سالا میرا۔۔کیا بلا ملنے والی ہے اسکو"۔
"احد بھائی"۔ ھدیٰ چینخی تو وہ ہنستے ہوئے کھڑا ہوا اور وہاں سے فوراً نکل گیا۔
----------
کبھی کبھی انسان کتنا ہی با ہمت کیوں نا ہو، ایک مقام پر آکر وہ تھکنے لگتا ہے۔
پھر جب وہ زندگی میں نئے مقاصد سیٹ کرتا ہے، تو اسے آگے چلتے رہنے کے لیے طاقت خودبخود مل جاتی ہے۔
وہ بھی تھک گئی تھی اور اسے اب کچھ دن آرام چاہئے تھا، ہرپریشانی سے دور جاکر کچھ وقت مطمئین ہوکر گزارنا چاہتی تھی وہ۔
اسے ایک ہفتے کی چھٹی مل چکی تھی۔ کیسے؟
یہ اس نے نا پوچھا اور نا ہی یہ جاننے میں اسے دلچسپی تھی کہ کیسے اسکی ماں نے بات کی۔ اسکا کام ہوگیا تھا بس وہ خوش تھی۔
کیا کب کیوں کیسے سوچ کر وہ اپنا دماغ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
ہم انسانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ہر بات نہیں جان سکتے اور نا ہی جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔
"ایویں فضول کی چِک چِک لگی رہتی ہے دماغ میں"۔

آج دوپہر انہیں نکلنا تھا۔ ساتھ والے گھر سے بھی سب آج ہی روانہ ہورہے تھے اور وہ فاخرہ اور ھدیٰ کو اپنے ساتھ ہی لے کر جارہے تھے۔
فاخرہ نے ایک بیگ نکالا اور اس میں اپنے چند سوٹ رکھے۔ ھدیٰ نے نئے کپڑے بنوائے تو نہیں لیکن جو پرانے سوٹ اسے شادی کے حوالے سے مناسب لگے وہ اس نے رکھ لیے۔
گھر لاک کرکے، وہ باہر کھڑی گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ سفر تین سے چار گھنٹے کا تھا۔
خواتین بسفر کے دوران ادھر اُدھر کی باتوں میں مصروف تھیں۔
ھدیٰ ونڈسکرین پر نظریں جمائیں بائر دیکھنے میں مصروف تھی۔ بھاگتے دوڑتے مناظر، لہلہاتے درخت ، گاڑیوں کے بجتے ہارن۔۔۔ انہیں دیکھتے دیکھتے وہ سو گئی۔
کسی قسم کے شور کی آواز پر اسکی آنکھ کھُلی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور اپنا سکارف درست کیا۔ سب گاڑی سے اتر رہے تھے۔ اس نے بھی دروازہ کھول کر پہلا قدم باہر رکھا اور سر نکال کر سامنے دیکھا۔
شام کا اندھیرا ہر سو چھایا ہوا تھا۔ لیکن اس اندھیرے میں بھی حویلی اپنی شان اور شادی کی وجہ سے لگائی گئی لائیٹوں کی وجہ سے چمک رہی تھی۔
"واؤ"۔ پہلی ہی نظر میں وہ خاصی امپریس ہوئی تھی۔
سب سے سلام دعا کرتے وہ لوگ اندر آئے۔ فاخرہ اور ھدیٰ کا بھی پرتپاک استقبال ہوا۔
وہ مسکراتی ہوئی قدم اٹھاتی سب کے ساتھ چلتی اندر آئی۔
جب میوزک اور ہلے گُلّے کی آواز پر اس نے ذرا سی نظریں اٹھا کر دائیں جانب لان کی طرف دیکھا۔
اور اسکی نظریں واپس پلٹنا بھول گئیں۔ جسے اتنے مہینوں سے اسنے نا دیکھا نا سنا، جس کے بارے میں سوچنا وہ بھول چکی تھی، جو اسی دنیا میں رہتا تھا وہ یہ بات بھی بھول گئی تھی، اسے اپنے سامنے آج دیکھ کر بہت کچھ یاد آیا تھا۔
دل میں طوفان سا اُٹھا تھا۔۔۔اور وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے وہی کھڑی سانس لینا بھول گئی۔
-------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now