DKD-Episode#27

1.7K 127 21
                                    

سینے پر ہاتھ باندھے وہ گھور کر ان چاروں کو دیکھ رہا تھا۔
"اوہ خدا کی بندیوں۔۔۔۔۔ بس کردو اب تو"۔ ہادی بیچارگی سے بولا۔
لیکن وہ چاروں دروازے کے آگے جم کر کھڑی تھیں۔
"نا بابا نا۔۔۔۔ پہلے پیسے ڈھیلے کریں، پھر جا سکتے ہیں آپ کمرے میں"۔ کتنی چالاک تھیں یہ لڑکیاں۔۔۔ ایک جگہ پیسے نہیں ملے تو دوسرا موقع فوراً ہتھیا لیا۔
"اف۔۔۔" ہادی نے آنکھیں میچ لی۔ ایک تع اوپر کوئی لڑکا ساتھ نہیں آیا تھا ورنہ وہ پھر بچ جاتا، وہ خود ہی تو کہہ کر آیا تھا اب "پرائیویسی" دے دو مجھے۔ اور اب یہاں کھڑا سلگ رہا تھا۔
"بیگم عزیز نہیں آپکو اپنی؟ فوراً پیسے دیں"۔ ثمرین نے جذباتی کرنا ضروری سمجھا۔
"اچھا بتاؤ کتنے؟" وہ ہار مانتے ہوئے بولا۔ اف لڑکا تو لُٹ ہی جاتا ہے پیسے دے دے کر۔۔
"پچاس ہزار بس۔۔" عائشہ نے مزے سے کہا۔
"کیا؟" ہادی چینخا۔ یہ تو کنگال کرکے چھوڑیں گی۔ مانا کہ وہ اچھا خاصا کماتا تھا لیکن پھر بھی ایک ہی دن میں کتنا لوٹنا ہے انہوں نے۔۔
"ہم بات سے نہیں پھرنے والے۔۔" عالیہ نے جتا کر کہا کہ بھیا ریٹ کم نہیں ہوگا اتنے ہی دو۔
"اچھا۔۔" ہادی چپ ہوگیا پھر کچھ سوچ کر مسکرایا۔
"اچھا رک جاؤ، میں ذرا اپنے گینگ کو بلا لوں۔۔۔"
وہ چاروں گڑبڑائیں۔
"خبردار اگر آپ نے ان چِٹے ککڑوں کو آواز دی تو۔۔۔" عالیہ نے دھمکانا چاہا لیکن ہادی تو پھر ہادی تھا۔
"اوکے پھر پیسے کم کرو۔۔" وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر مسکرایا۔
لڑکیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"چلو بس بیس ہزار رکھ لو ورنہ میں ان کو بلاتا ہوں"۔
ان کو بلانا مطلب بیس ہزار بھی ہاتھ سے جانا۔
"اچھا اچھا اتنے کافی ہیں"۔ عائشہ فوراً مان گئی۔ چاروں کے منہ اتر گئے تھے لیکن نا ملنے سے بہتر اتنے مل جانا اچھا تھا۔
"اوکے۔۔" ہادی نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اور کچھ لمحوں بعد پیسے انہیں پکڑائے۔
"پچاس ہزار۔۔۔؟؟" ان چاروں کا منہ کھل گیا۔
"ہاں اب اتنا  تو کماتا ہی ہوں کہ بہنوں کی خواہش پوری کرسکوں"۔ انکے حیران چہرے اب مسکراہٹوں سے سج چکے تھے۔
"ہادی بھائی آپ بہت اچھے ہیں"۔ وہ راستے سے ہٹ گئیں۔ "اللہ آپکو خوش رکھے"۔
"آمین"۔ وہ مسکراتا ہوا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
--------
وہ دروازہ ناک کرنے کے بعد اندر داخل ہوا اور سامنے دیکھا۔ ھدی بیڈ پر گھونگھٹ لیے بیٹھی تھی۔
ہادی اس کے سامنے آ بیٹھا اور اسے دیکھا۔ پھر کچھ بولنے سے پہلے اسکا چہرہ دیکھنا چاہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ خود اٹھائے یا اسے کہہ دے۔
"یہ تو ہٹا دو اب۔۔"
ھدی نے سر اٹھایا اور مسکرائی جو ہادی نا دیکھ سکا۔ ھدی یونہی بیٹھی رہی تو ہادی نے احتیاط سے اسکا ڈوپٹہ اوپر کردیا۔ پھر میسمرائز ہوکر اسے دیکھتا رہا۔
"یہ میری زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ ہے"۔ وہ اسکے مہندی سے سجے ہاتھ تھام کر بولا۔
"اور میں جانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ میری زندگی بہت اچھے گزرے گی۔۔۔ لیکن ہر رشتے کو احسن طریقے سے چلانے سے پہلے ہر بات کلئیر کر لینی چاہیے تاکہ کوئی شک و شبہ دل میں رہ نا پائے"۔ ہادی سنجیدہ لیکن نرم لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ھدی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"تم مجھ سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی تھی؟" ہادی نے بنا تمہید باندھے سوال کیا۔
"اور ہم ایک دوسرے سے صرف سچ بولیں گے۔۔" اسنے مزید کہا۔
"کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ فقط ہمدردی یا زبردستی ،دباؤ کی وجہ سے آپ مجھ سے شادی کریں۔۔" ھدی آہستہ آواز میں صاف گوئی سے بولی۔
"اچھا؟" ہادی مسکرایا۔
"جی"۔ ھدی نے سر ہلایا۔
"تو پھر مجھے اپنی بیگم کو بتا دینا چاہئے کہ اسکا شوہر اس سے کتنی محبت کرتا ہے۔۔۔"
ھدی نے اسکی براؤن آنکھوں میں دیکھا جو چمک رہی تھیں۔
"میں جو کہوں گا اس پر یقین کروگی؟"
"جی"
"تمہیں میں کہا سے شروع کرکے بتاؤں کہ تم میری زندگی میں کب سے ہو؟ تب سے جب سے میں نے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا۔۔ لیکن تمہاری ہر بات مجھے پتا ہوتی تھی۔
عائشہ سارا سارا دن گھر میں تمہاری باتیں کرتی، پھر جب میں گھر چھٹیوں میں آتا تب بھی اسکا زبان پر تمہارا ذکر ہوتا، آہستہ آہستہ میں بہت شوق سے تمہارے متعلق باتیں سنتا۔۔ میں تمہاری ہر عادت سے واقف تھا، تم ایک زندہ دل ، ہنس مسکرا کر جینے والی لڑکی تھی۔۔۔ اور جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تو میں اتنا خوش ہوا تم یقین نہیں کروگی"۔ وہ ہنسنے کو رکا۔ ھدی اسے سن رہی تھی۔۔یک ٹک۔۔
"محبت تب ہونا شروع ہوئی جب میں نے تمہیں دیکھا، جب میں تم سے ٹکرایا، جب تم نے مجھے پھول دیے۔۔۔ پھر میں چلا گیا لیکن تمہارا خیال میرے ساتھ رہا۔ واپس لوٹا تو دیکھتا ہوں کہ وہ لڑکی جس کی ہنسی کا میں دیوانہ تھا ، وہ کھو چکی ہے۔ میں نے بہت چاہا کہ اس کو دیکھ سکوں۔۔۔۔" ہادی نے جان بوجھ کر ساری بات نا بتائی۔ ھدی حیرت و مسرت میں گِھری اسے سن رہی تھی۔
وہ بات بدل کر دوبارہ بولنا شروع ہوا۔
"میں اتنے عرصے میں تم سے دور رہا، ایک فاصلہ درمیان میں رکھا کیونکہ میں تمہیں دوبارہ خوداعتماد اور خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ جو آج تم ہو۔۔" ہادی مسکرایا۔
"تو بات یہ مسز کہ جس طرح ابھی میں تمارے اتنی قریب ایک شرعی رشتے میں بندھ کر تمہارے ہاتھ تھام کر تمہارے سامنے بیٹھ کر اقرارِ محبت کر رہا ہوں، اس کا مزہ کسی اور طریقے سے مجھے کبھی نا مل پاتا۔۔۔
ھدی میرے دل میں صرف تم ہو۔۔۔ اور میں اقرار کرتا ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے اور میں ساری زندگی تمہارا ہاتھ تھام کر تم سنگ کھڑا رہوں گا۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تمہیں بھی مجھ سے اپنے دل کا حال شئیر کرنا ہوگا"۔
سچے اور بھرپور دل سے ہر بات کہہ کر وہ آخر میں شرارت سے مسکرایا۔
ھدی اسکے اقرار سے سرشار ہوگئی تھی اور اب سوچ رہی تھی کہ کیا بولے۔
"اپنوں کے سامنے ایکسپریسیو ہونا ضروری ہوتا ہے" بابا کی بات اسکے ذہن میں آئی تو وہ گہرا سانس لے کر بولنا شروع ہوئی۔ نظریں اپنے ہاتھوں پر جمائیں جو ہادی کے ہاتھ میں تھے۔
"میں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ آپکو سوچ کر گزارا ہے۔ میرے دل نے ہمیشہ آپکو چاہا ہے لیکن بس کچھ پچیدگیوں کی وجہ سے یہ چاہت دب گئی تھی۔ لیکن اب میرا آپ سے رشتہ بندھ چکا ہے جس پر میں خوش ہوں، اور آپکی باتوں پر حیران ہوں کہ مجھے اتنی چاہت ملی ہے، میں اپنی زندگی کو مزید ضائع نہیں کرنا چاہتی اور آپ کے ساتھ اسے خوشگوار طریقے سے گزارنا چاہتی ہوں۔" وہ یہ سب دل سے کہہ رہی تھی اور مطمئین تھی کہ یہ سب کہہ کر ، دل کا حال بیان کرکے، ایکپریسیو ہوکر واقعی رشتوں میں سے خلا کم ہوجاتا ہے۔
ھدی نے نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا جو مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔
"میں اللہ کی بہت شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے لیے آپ جیسا اتنا اچھا انسان چُنا۔
آپ کی محبت میرے لیے اعزاز ہے اور آپکا ساتھ ایک نعمت۔ الحمدلاللہ!
"I'm truly blessed
آج یہ سب کہنا ضروری تھا۔ اب زندگی کو مزید فضول سوچوں اور فضول حرکتوں کے نام نہیں کرنا تھا۔ اسے اپنا کردار مضبوط کرنا تھا ،اپنا عزم بڑھانا تھا۔ زندگی ایک نعمت ہے اور اسے اپنے ہاتھوں ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ اچھا بنانا چاہئے۔ اسے مثبت سوچ رکھنی تھی اور وہ جانتی تھی ہادی اسکے ساتھ ہے تو زندگی واقعی اب اچھے گزرے گی۔
"Me too"
ہادی نے اسکے ہاتھ لبوں سے لگا کر اسکو اپنے ساتھ لگایا۔ ھدی نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔
------------

وہ گہری نیند میں تھی جب اسے کسی کی آواز بہت قریب سنائی دی۔ پھر کسی نے اسکا کندھا ہلایا تو اسنے آنکھ کھولی۔
"ھدی اٹھ جاؤ"۔ وہ ہادی تھا۔
"کیا ہوا؟" وہ آنکھیں مسلتی اٹھ بیٹھی۔ اسنے ہادی کو دیکھا جو شلوار قمیض پہنے فریش سا کھڑا تھا۔
"اٹھ کر فجر کی نماز پڑھ لو۔۔ میں مسجد جارہا ہوں"۔
وہ جانے لگا پھر رک کر اسکی طرف مُڑا۔
"نماز پڑھنے سے اللہ قریب محسوس ہوتا ہے۔ ہم اسکا ذکر کرتے رہینگے تو وہ ہمیں یاد رہے گا۔
اگر ہم اس سے دور ہوجائنگے تو کئی مشکلات اور پریشانیاں آکر ہمیں گھیر لینگی۔ لیکن نماز، قرآن اور اللہ کا ذکر کرتے رہنے سے کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اللہ ہمارے ساتھ ہے"۔ اسکا نرم سا لہجہ دل میں اتر رہا تھا وہ مسکرا کر سر ہلاتی واشروم کی طرف بڑھ گئی۔
نماز پڑھ کر وہ بستر پر آکر بیٹھی، ہادی بھی قرآن تھامے آکر دوسری طرف بیٹھ گیا اور خوبصورت آواز میں تلاوت کرنے لگا۔
سورة الرحمان
"اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟"
ھدی کے دل میں سکون اتر رہا تھا۔ ہادی کی آواز سنتے سنتے وہ آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔
----------

ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر اسنے فون اٹھایا۔ ویٹس پر میسج آیا ہوا تھا۔
"احد بھائی"
اسنے میسج کھول کر دیکھا۔ آدھی گھنٹے کا Voice message ۔
"اف۔۔ " اس میں کیا ہے؟ ھدی نے سوچتے ہوئے باقی میسج پڑھے ۔ نیچے لکھا تھا۔
"یہ میسج تب سننا جب تم اکیلی ہو۔۔۔ اور پلیز مضبوط دل سے سننا اور عقل سے کام لینا، بہتر یہی ہوگا کہ خاموشی سے سننا۔
تو آئے چلتے ہیں ماضی میں۔۔۔ کہانی کا ایک پہلو جو سامنے ہوکر بھی سامنے نا تھا۔
پیشِ خدمت ہیں تین کردار۔۔۔۔۔
مرتضی انکل، عاصم تمہارا تایا زاد۔۔۔۔ اور عبدل ہادی احمد۔۔۔"
ھدی نے تجسس اور حیرت کے زیرِ اثر اِدھر ادھر دیکھا اور کانوں میں ائیر فون لگا کر وائس میسج پلے کیا۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔
----------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now