ھدیٰ کا بسیرا عائشہ کی فرمائش پر اسی کے کمرے میں تھا۔ جبکہ فاخرہ کو دادی نے اپنے کمرے میں رکنے کے لیے کہا۔ باقی افراد میں سے کوئی مہمان خانے میں رکا، تو کوئی کسی کے ساتھ کمرہ شئیر کرکے ٹھہرا تھا۔
حویلی میں رات کے کھانے کی تیاری ہورہی تھی اور مختلف پکوانوں کی خوشبو ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔
باورچی خانے کے سامنے ڈائیننگ روم تھا جس میں لمبی سی میز اور قطار میں کرسیاں لگیں تھی جبکہ زیادہ مہمان ہونے کی وجہ سے تھوڑے فاصلے پر دسترخوان نیچے بھی بچھایا گیا تھا۔ چونکہ حویلی کے مکین کافی ماڈرن ہوچکے تھے اس لیے عورتیں اور مرد ایک وقت میں ساتھ ہی کھاتے تھے، ہاں کوئی الگ بیٹھ کر کھانا چاہے تو کوئی روک ٹوک نا تھی۔
ابھی شادی میں کچھ دن مزید تھے اور کچھ مہمان ابھی آنا باقی تھے۔
"سمینہ! عائشہ کو بھی کھانے کی میز پر لے آؤ۔ کچھ دن رہ گئے ہیں سب مل بیٹھ کر کھا لینگے"۔ سکینہ (عائشہ کی تائی امی) نے کہا۔
"لیکن وہ تو مایوں بیٹھی ہے"۔ میز پر برتن رکھتی عالیہ نے سر اٹھا کر کہا۔
"کوئی بات نہیں۔ لے آؤ اسے"۔ دادی جان نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے گویا حکم دےدیا۔ سمینہ اور عالیہ مسکراتے ہوئے اسکے کمرے کی طرف چلے گئے۔
"اتنی رونق لگی ہے کھانے پر عائشہ بھی انجوائے کرےگی"۔ سکینہ بھی کرسی پر بیٹھ گئیں۔ کھانا رکھنے کا کام بچیوں اور ملازم نے سنبھال رکھا تھا۔
ھدی عائشہ کے ساتھ نیچے آئی تھی۔ میز پر سب بڑے بیٹھے تھے ، تو وہ دونوں نیچے دسترخوان کی طرف بڑھ گئیں۔
"بسم اللہ کرو"۔ دادی جان کے کہنے پر سب کھانے کی طرف متوجہ ہوئے۔
ہادی ہاتھ میں چاولوں کی ٹرے تھامے کچن سے نکل رہا تھا۔
"ہادی بھائی! لائیں ہم رکھ دیتے ہیں"۔ اسکی کزن نے اسے کام کرتے دیکھا تو فوراً آگے بڑھی اور ٹرے لینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے۔
"میں اپنی مرضی سے کر رہا ہوں، جاؤ تم کچھ اور کرو"۔ ہادی نے ہاتھ تھوڑا پیچھے کیا اور سائڈ سے ہٹ کر میز تک آیا۔ دادی جان کے ساتھ والی کرسی خالی تھی۔ ٹرے ان کے سامنے رکھ کر وہ بیٹھ گیا۔ ان کے آگے پڑی پلیٹ اٹھا کر اس میں چاول نکالے جو غالباً باقی کھانوں کے مقابلے میں سادہ تھے۔ اسے ان کے کھانے کا خیال تھا۔ یہ دیکھ کر وہ مسکرانے لگیں اور اسے دیکھتی رہیں۔
"یہ لیں! کہتی ہیں تو کھِلا بھی دوں؟" ان کی مسکراہٹ دیکھ کر اسنے شرارتاً کہا۔
"ہاں جی کھلا دو"۔ انہوں نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔ اسنے مسکراہٹ دباتے ہوئے چمچ اٹھایا اور چاول بھر کر انکی طرف بڑھائے اور دوسرے ہاتھ کو چمچ کے نیچے رکھا کہ کھانا نیچے نا گر جائے۔
ھدی نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور فوراً نظریں جھکا لیں۔ کسی نے میری نظروں کا زاویہ دیکھ لیا تو؟ وہ جان جائے گا۔۔۔ وہ کھانے کی طرف متوجہ ہوئی۔
پہلا نوالا لے کر انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔ "بس میں خود کھالوں گی، تم جاؤ اور کھانا کھاؤ"۔
"جو حکم"۔ سر کو خم دیتا وہ اٹھا اور کرسی چھوڑ کر کھڑا ہوا اور نیچے سے کسی بڑے کو اٹھ کر کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔
ادھر اُدھر دوسروں سے کھانے کا پوچھتے ہوئے وہ نیچے اپنے کزن کے ساتھ بیٹھ گیا۔ احد اس وقت سے کہیں غائب تھا۔ یقیناً باقی پلٹون کے ساتھ گاؤں میں آوارہ گردی کرنے نکلا ہوگا۔
-------
YOU ARE READING
دل کے دریچے
General FictionRanked#1 . A romantic/social story. episodes will be coming weekly. it is a story of a girl huda , who goes throw different phases of life. A story of friendship (Hadi & Ahad) , A story of family relation and a story love..