DKD-Episode#31

1.8K 143 57
                                    


اس نے کہاں تھا وہ شام تک لوٹ آئے گا لیکن شام سے رات ہوگئی اور وہ لوٹا نہیں۔۔
کوئی فان کال، کوئی میسج نہ آیا تو اسنے خود فون ملایا۔ لیکن بیل جاتی رہی مگر کسی نے فون نہیں اٹھایا۔
ھدی اب پریشانی کے عالم میں کمرے میں ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔ پھر بالکنی کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔
'احد بھائی کو فون کرکے  پوچھتی ہوں۔۔' اس نے کچھ سوچ کر احد کا فون ملایا۔
تیسری چوتھی گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
"ہاں ھدی بولو؟" اسکی مصروف سی آواز آئی۔ بڑی عجلت میں لگتا تھا وہ۔
"اسلام علیکم احد بھائی کیسے ہیں؟ وہ میں نے پوچھنا تھا ہادی سے بات ہوئی آپ کی۔۔۔"
ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ احد نے بات کاٹی۔
"تم دو منٹ رکو، میں کال بیک کرتا ہوں"۔ اسکی آواز میں جلد بازی، پریشانی ، فکر سب تھا۔
ھدی انتظار کرنے لگی اور دل میں دعائیں مانگنے لگی کہ سب خیر ہو۔
---------
پچھلے آیک گھنٹے سے وہ ہاسپٹل میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا۔ ہر ایک منٹ بعد وہ نظر اٹھا کر وارڈ کی طرف دیکھتا لیکن بند دروازہ دیکھ کر دوبارہ چکر لگانے لگتا۔
خود کو کوئی شخصیت جب حد سے زیادہ عزیز ہو تو اسکا درد آپ کو اپنا درد لگتا ہے، اس کے تکلیف آپ کو اپنی تکلیف لگتی ہے، پریشانی میں وہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ پریشانی میں آپ بھی گھِر جاتے ہیں، آنسو اسکا بہتا ہے تو نم آنکھوں سے وہ آنسو آپ سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔ خوش وہ ہوتا ہے اور اسکے قہقہوں میں اسکا ساتھ آپ دیتے ہیں۔
یہی تو ہوتا ہے وہ رشتہ جو کسی کے ساتھ دل سے بندھ جاتا ہے۔
ضروری نہیں یہ سب خون کے رشتوں میں ہو، دوستی میں تو کبھی رشتوں کا حوالہ نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ دلوں کا رشتہ ہوتا ہے جو دلوں کو جوڑ دیتا ہے۔
احد نے فالحال کسی کو ہادی کی حالت کے بارے میں نا بتایا تھا۔ اور وہ یہاں اکیلا کھڑا اپنے دوست اپنی جان سے عزیز شخص کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔
ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ زیادہ خطرے کی بات نہیں ہے کیونکہ اسے ایک ہی گولی لگی تھی اور وہ بازو پر۔
دروازہ کھلا تو احد یک دم سیدھا کھڑا ہوا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا۔
ابھی وہ کچھ بولنے ہی والا تھا کہ ڈاکٹر اپنے پروفیشنل انداز میں بولے
"ہی از فائین ناؤ۔۔۔ کنڈیشن کافی بہتر ہے۔ فالحال دوائیوں کے زیرِاثر رکھا ہوا ہے۔ ایک دو گھنٹے تک ہوش میں آجائیں گے پیشنٹ"۔ وہ کہہ کر رکے نہیں اور چل دیے۔ نرس بھی چلتی ہوئی باہر آئی۔
الفاظ تھے یا ٹھنڈی پھوار۔۔۔ احد نے آنکھیں بند کرکے سکون کا سانس لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
" میں کچھ کام سے پولیس سٹیشن جا رہا ہوں۔۔۔ ایک گھنٹے میں واپس آجاؤں گا۔ کچھ چاہئے ہو تو کال کردینا آپ۔۔"
وہ ایک نرس کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔ جواباً اس نے سر ہلایا۔
وہ یہا سے ہلنا نہیں چاہتا تھا لیکن کچھ کام بہت ضروری ہوتے ہیں کہ انہیں وقت پر نا کیا جائے تو نقصان ہو سکتا ہے۔ اسی لیے انہیں وقت پر کرنا ضروری ہوتا ہے۔
وہ جلدی سے ہاسپٹل سے باہر جانے والے راستے کی طرف بڑھا۔
-------------
دو منٹ گزر گئے۔۔۔تین منٹ گزر گئے۔۔۔ چار منٹ گزر گئے۔۔۔
پورے دس منٹ بعد احد کی کال آئی اور یہ دس منٹ اس نے جس طرح صبر کیا تھا یہ وہی جانتی تھی۔
پہلی بیل پر ہی اسنے کال اٹھالی۔
"جی احد بھائی؟"
احد ابھی پولیس سٹیشن سے باہر نکل کر گاڑی میں آکر بیٹھا تھا۔
"ہاں ھدی۔۔۔ سوری اس وقت میں ذرا مصروف تھا۔۔" احد نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے آنکھیں بند کرکے کہا۔
"کوئی بات نہیں۔۔آپ ٹھیک ہیں؟"
"ہوں۔۔۔ " اس نے آہستہ سے کہا۔
"آپ کی ہادی سے بات ہوئی؟"
ھدی کے بات پر اسنے آنکھیں کھولیں اور گہرا سانس لیا۔
"اچھا ھدی میری بات سنو غور سے۔۔۔ اور پلیز فوراً ری ایکٹ مت کرنا۔۔۔ پرامس می!"۔
"سب ٹھیک ہے نا؟" اسے پریشانی ہوئی۔ "اچھا پرامس۔۔۔آپ بس جلدی سے بتائیں۔۔۔ " اسنے فوراً کہا۔
"ھدی ہادی ہاسپٹل میں ہے اسے گولی لگی ہے بازو میں۔۔۔لیکن اب وہ ٹھیک ہے میں اسی کے پاس جارہا ہوں۔ گھر میں کسی کو مت بتانا ابھی۔۔۔ ہادی خود بتا دے گا۔۔" احد کہتا جا رہا تھا اور ھدی کے سر پر بم گرا تھا۔
"اللہ اکبر۔۔۔" اسے سانس لینے میں مسئلہ ہوا جب کچھ یک دم ہوگیا تھا۔
آنکھوں میں ڈھیر ساری نمی اتر آئی۔ "وہ ٹھیک ہیں نا؟"
"ہاں ٹھیک ہے ، اس کے پاس جا رہا ہوں۔ تم پریشان نا ہو"۔ احد نے اسے تسلی دی تو اسکے آنسو بہنے لگے۔
"اب دوسری بات غور سے سنو۔۔۔" وہ یک دم سنجیدہ ہوگیا۔
"ہادی کو گولی عاصم نے مروائی ہے۔۔۔ میں پولیس سٹیشن میں اسکے خلاف رپورٹ کروا چکا ہوں"۔
"واٹ؟" اور یہ پھٹا تھا دوسرا بم۔ "عاصم بھائی۔۔۔" وہ تو بھائی کہنے کے قابل بھی نا تھا۔ ھدی نے لب بھینجے۔
"ہاں۔۔۔ رپورٹ میں نے درج کروا دی ہے۔۔ پولیس ہادی سے بیان لینگے اگر اس کے بیان کے مطابق ایسا ہوا تو تفتےش کی جائےگی عاصم کو لے کر۔۔" اسے بتاتے ہوئے احد ساتھ ساتھ ڈرائیو کرنے لگا اسے ہاسپٹل پہنچنے کی جلدی تھی۔
"اس عاصم کی ایسی کی تیسی۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی ہادی کو کچھ کرنے کی۔۔۔میں چھوڑوں گی نہیں اسکو۔۔۔" وہ یک دم غصے سے اتنا زور سے بولی کہ احد نے فون کان سے کچھ فاصلے پر کرکے اسے دیکھا۔
"ھدی ۔۔۔" اسنے اسے ریلیکس کرنے کے لیے آواز دی۔
ھدی کے چہرے پر دکھ کی بجائی غصہ چھلک رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ عاصم سامنے ہو اور وہ تھپڑوں سے اسکا منہ لال کردے اور اسکا گلا دبا دے۔ ہمت کیسے ہوئی اسکی ہادی کو کچھ کرنے کی۔
"آپ۔۔آپ کے پاس وہ ڈاکومینٹس ہیں نا؟ میں نے پڑھ لیے تھے سارے۔۔۔۔" وہ احد سے باتیں کرتے کرتے خود سے باتیں کرنے لگی۔
احد اسکی بڑبڑاہٹ سن رہا تھا۔ وہ ہاسپٹل پہنچ چکا تھا۔ گاڑی سے نکل کر اسنے دروازے کی طرف دیکھا اور گہرا سانس لیا۔ دکھ ہوتا ہے نا کسی اپنے کو تکلیف میں دیکھ کر۔
"احد بھائی آپ۔۔علی بھائی یا عدیل سے کہیں مجھے وہاں لے جائے۔۔۔ مجھے ابھی وہاں آنا ہے۔۔" ھدی کی آواز سن کر وہ رکا۔
"واٹ؟ کیوں؟ ہادی ڈسچارج ہوکر آجائےگا گھر ھدی۔۔۔"
"آجائیں گے وہ انشاءاللہ۔۔۔ لیکن مجھے ابھی اسی وقت وہاں آنا ہے۔ بہت ہوگئی عاصم عاصم۔۔۔ ختم کروانا ہے مجھے اس معاملے کو۔۔۔" وہ بہت مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"بہت دیر ہوچکی ہے آلریڈی پلیز احد بھائی۔۔۔" وہ وہاں اکیلے کمرے میں جانے کیا کیا سوچ رہی تھی۔ اب کچھ کرنے کا عزم جاگا تھا تو وہ دیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"اوکے ۔۔۔ کہتا ہوں میں عدیل سے۔۔۔ کرنا کیا ہے تم نے؟" احد جاننا چاہتا تھا تاکہ جو ہونے والا ہے وہ پہلے ہی اسکے علم میں ہو۔ وہ ہاسپٹل میں داخل ہوا اور وارڈ کی طرف بڑھا۔
ھدی اسے بتانے لگی ساتھ ہی اپنا بیگ اٹھایا اور دروازی کی طرف بڑھی۔
-------------
دروازہ کھول کر اسنے اندر جھانکا۔ وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ احد کمرے میں داخل ہوا۔
بیڈ کے قریب آکر ہادی کو غور سے دیکھا۔ اس کے بازو پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ چہرہ پیلا پڑ چکا تھا ، بند آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑ چکے تھے۔
اسکی کال جب احد کو موصول ہوئی تو وہ آفس سے نکل رہا تھا۔ اسکے کچھ نا بولنے پر وہ پریشان ہوا۔
کال کاٹ کر دوبارہ ملائی لیکن جواب ندارد۔۔۔ احد نے فوراً سوشل ایپ کے ڈریعے اسکی لوکیشن چیک کی۔ جو ہادی اور احد خاص ایک دوسرے کے لیے آن رکھتے تھے۔ اسے وہاں پہنچنے میں پندرہ منٹ لگ گئے اور تب تک دروازے کے اندر جھانک کر دیکھا تو ہادی ہوش و حواس سے بیگانہ گرا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد بے تحاشہ خون پھیل رہا تھا۔
تب سے لے کر اب تک احد کس پریشانی اور تکلیف سے گزرا ہے وہ بیان نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ کیسے اسنے چینخ کر ہادی کو پکارا اور ہادی نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ لڑکے روتے نہیں ہے لیکن جب وہ ہادی کو اٹھا کر گاڑی تک لا رہا تھا اسکی حالت دیکھ کر اسکے آنسو نکل گئے تھے۔ کاش وہ چھوٹا ہوتا اور بچوں کی طرح رو لیتا۔
"احد۔۔۔" ہادی نے اسے آواز دی۔ احد اسے دیکھتے ہوئے کہیں اور ہی پہنچا ہوا تھا۔
"احد بس کردے مجھے دیکھنا۔ بہت پیارا لگ رہا ہوں کیا؟" ہادی نے ہمت جمع کرکے کہا۔ بازو میں درد اب بھی بہت تھا۔ جسم کمزور سا محسوس ہورہا تھا۔
احد نے چونک کر اسے دیکھا۔ پھر اسکا چہرہ دیکھ کر اسے شدید غصہ آیا۔ لیکن چپ کھڑا رہا۔
"بول بھی چکو کچھ ۔۔۔یہ کیا حال بنا رکھا ہے اپنا؟ منہ دیکھ شیشے میں۔۔" ہادی نے اسکے الجھے بکھرے حلیے پر چوٹ کی۔
"شٹ اپ۔۔۔ تیرے سے بہتر ہی لگ رہا ہوں"۔ وہ اس وقت سخت عجیب سی فیلنگز سے گزر رہا تھا۔ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں احد کو؟ دکھ، غصہ، خوشی، پریشانی، پیار۔۔۔ سب بیک وقت محسوس کر رہا تھا۔
"اچھا مجھے کیا ہوا؟" ہادی نے اسے دیکھ کر کہا۔ اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ نمونہ چپ چاپ کیوں کھڑا ہے۔ اف یہ تو چپ چاپ بالکل اچھا نہیں لگتا۔
"تم۔۔۔تم زیادہ شوخے مت بنو۔۔۔ سمجھے؟ آئے وڈے حاتم طائی۔۔۔ آئیں آپ بھی مجھے گولی ماریں۔۔ آئیں میں آپکی مدد کروں کیونکہ میں مدد کر سکتا ہوں۔۔۔ آئیں جی آئیں۔۔۔ یہاں غلط ہورہا ہے میں ٹھیک کردوں۔۔۔ بہت شوق ہے مجھے اس سب کا"۔
احد غصے میں بولا۔ اسکا پارا چڑھ رہا تھا اب سارا غُبار نکال دے گا وہ۔ اور ہادی یہی چاہتا تھا۔
غبار اندر رکھ لو تو بے چینی اور عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔
"احد یار میری غلطی کیا ہے؟ میں نے تو کچھ نہیں کیا۔۔" وہ مصنوعی بیچارگی سے بولا۔
"تمہیں ضرور اس عاصم سے پنگا لینا تھا۔ دفع کرتے اسے۔۔" احد ابھی تک غصے میں ہی تھا۔
"میں نے تو دفع کیا ہوا تھا۔۔"
"مجھے تیری سمجھ نہیں آتی کیا ضرورت ہے ہر دفع میدان میں کود کر کچھ کر دکھانے کی؟ بعد میں بستر پر پڑ جاتے ہو۔۔" احد کا بس نہیں چل رہا تھا گلا ہی دبا دیتا اسکو۔ ہونہہ پاگل لڑکا!
"دیکھ احد۔۔۔ اگر ہم کوئی اچھی چیز  اس ڈر سے کرنا چھوڑ دیں کہ یار کوئی افاقہ نہیں ہوگا، ہمارا نقصان ہاجئے گا، بھلا ہمیں کیا ضرورت ہے۔۔۔ اس قسم کا سوچ کہ ہم کچھ اچھا کرنے سے پیچھے ہٹ جائیں، حق کی آواز دبا دیں تو وہ بزدلی ہے۔
بہت دفعہ ہمیں کچھ نا کچھ برا سہنا پڑتا ہے کسی اچھے کہ بدلے میں۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم کسی کی مدد کرنے سے رک جائیں، اچھا کام نا کریں یا حق کے لیے آواز نا اٹھائیں۔۔
یہ دنا ہمیں ہمیشہ بہتر سے نہیں نوازے گی احد۔۔۔ دنیا کے ری ایکشن کی پروا مت کرو۔۔۔"
احد اس کی بات کافی حد تک متفق تھا۔ اس لیے چپ کرکے اسکے دھیمے سے لہجے کو سن رہا تھا۔
لیکن پھر یک دم نظر اسکے بازو پر گئی اور بازو سے ہوتی ہوئی چہرے پر۔۔۔۔
سخت غصہ چڑھا اسے۔۔۔
"شوخیاں نا مار۔۔ ڈیش انسان۔۔" وہ مٹھیاں بھینج کر کاؤچ پر جاکر چپ کرکے بیٹھ گیا۔
ہادی اسے دیکھ کر مسکرایا۔ پھر کچھ سوچ کر مسکرایا اور بولا۔
"ہائے میرا بازو درد کر رہا ہے ہائے۔۔۔۔" وہ کراہا۔ اف اداکار کہیں کا۔۔۔
احد حسبِ توقع تڑپ کر اٹھا اور اسکی طرف بڑھا۔ "کیا ہوا؟ یار رک ڈاکٹر کو بلا کر آیا۔۔۔"
احد فوراً ہڑبڑا کر پلٹا۔ ہادی کا قہقہہ گونجا۔
"نمونے میں اداکاری کر رہا تھا"۔ احد رکا اور پلٹ کر اسے گھورا۔
اف اللہ مطلب کہ حد ہے ایک تو اتنا وہ معصوم سا بچہ پریشان ہورہا تھا اور اسکو مذاق سوج رہا ہے۔ اتنا غصہ اسے ہادی پر کبھی نہیں آیا۔ احد اسے مکا مارنے کے فوراً آگے بڑھا لیکن اسکی حالت دیکھ کر رک گیا۔
ہادی ہنسنے لگا۔ احد کی تیوریاں مزید چڑھیں۔
"شٹ اپ۔۔۔" وہ دھاڑا اور پیر پٹختا ہوا باہر نکل گیا۔
ہادی نے ہنسی روکی اور مسکراتے ہوئے سوچا کہ صحت یاب ہوکر سب سے پہلے اٹھے گا اور احد کو بھینج کر گلے لگا کر مکا رسید کرےگا۔
ابھی اسے ٹھیک ہوکر گھر جاکر سب کو آرام سکون سے بتانا تھا کہ وہ ٹھیک ہے۔ وہ انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
-------------
وہ دوایوں زیرِاثر سو رہا اور احد اس کے روم میں پڑے کاؤچ پر پاؤں اوپر رکھے سر کہنی پر ٹکائے اسے گھور رہا تھا۔
"ہونہہ۔۔بدتمیز۔۔۔"
"ہونہہ۔۔"
اور ہونہہ کرتے رات کے آدھے پہر وہ سوگیا۔ صبح اٹھ کر باہر نکلا ہادی ابھی سو ہی رہا تھا۔
----------
وہ واپس آیا تو نرس اس کے سامنے ناشتہ رکھ رہی تھی۔
"اوہو اداکار صاحب۔۔۔خدمتیں ہورہی ہیں"۔ ہشاش بشاش سا احد اندر داخل ہوا۔ کل رات کا غصہ وہ بھول چکا تھا لیکن احد بھی اپنے نام کا ایک تھا بدلہ ضرور لے گا۔ ہادی اسے دیکھ کر مسکرایا۔ وہ پہلے سے بہتر نظر آرہا تھا۔
"تمہارے لیے دو خوش خبریاں ہیں۔۔" احد اسکے بیٹ پر دھڑام کرکے بیٹھا۔
"کیا؟" ہادی نے پوچھا۔
"اوئے لیٹیسٹ سیلفی دیکھ میری۔۔۔"
چلو جی وہ خوش خبری سننے بیٹھا ہے اور یہ سیلفیاں دکھا رہا ہے۔ ہے نا پھر نمونہ؟
"یار دیکھ نا۔۔۔" احد نے زبردستی اسے تصویر دکھائی۔ ناشتہ کرتا ہادی یک دم رُکا۔
تصویر میں احد انہیں کپڑوں میں کھڑا تھا۔۔ اور اسکے ساتھ میرون چادر میں ایک مسکراتا چہرہ۔۔۔ارے اسکی بیگم۔۔۔
اور یہ کیا۔۔۔ ؟ پیچھے عاصم بھی تھا۔ لیکن۔۔۔۔
لیکن سلاخوں کے پیچھے۔۔۔ اف یہ کیا ہورہا ہے؟
ہادی نے حیرت سے اسکا چہرہ تکا۔ "یہ کیا سین ہے؟" بے تہاشہ حیرت میں گھِر کر اسنے پوچھا۔
"اوکے بائے میں جا رہا ہوں۔۔" وہ بڑے مزے سے اسے چھوڑ کر فون لیتا باہر نکل گیا۔
"احد۔۔۔ڈیش۔۔" ہادی چینختا رہ گیا۔
تبھی دروازہ دوبارہ کھُلا اور میرون شال دکھائی دی۔
ھدی ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ تھامے مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
----------

Second last episode...
Who's gonna miss namoona and Adakar.
Me ofcourse 😢❤️

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now