DKD-Episode#23

1.7K 139 24
                                    

آستینیں فولڈ کرکے اسنے زور سے گیٹ کھولا اور سامنے دیکھا۔
سڑک سنسان لیکن لائیٹ کی وجہ سے روشن تھی۔ سامنے احد کھڑا تھا۔
"احد کہاں ہے وہ؟" احد کو دیکھتے ہی وہ تیزی سے آگے آیا۔
"ہادی وہ۔۔۔"
"احد کدھر ہے وہ؟"
"ہادی وہ ھدی کو لے کر چلا گیا۔۔۔ اور کہہ رہا تھا کہ وہ اس سے شادی۔۔۔" احد کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ ہادی نے جھٹکے سے اسکا گریبان تھاما۔
"شٹ اپ۔۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو؟"
احد نے ضبط کے مارے سرخ ہوتے چہرے کو جھکا لیا۔
"احد منہ سے کچھ پھوٹ کدھر گیا ہے وہ؟" ہادی نے اسے جھنجھوڑا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا عاصم اسکے سامنے ہوتا اور وہ اسکی چمڑی ادھیڑ دیتا۔
"احد۔۔۔" ہادی نے اسے جھٹکا دیا۔ یہ بول کیوں نہیں رہا کچھ۔۔
اسے چھوڑ کر وہ دوسری طرف بڑھا کہ چوکیدار سے خود پوچھے کہ کون کب آیا اور کہاں گیا؟
لیکن احد کی ہنسی پر وہ ساکت ہوگیا اور پھر دھیرے سے مڑا۔
'یہ نمونہ اتنی سیریس صورتحال میں بھی نمونوں والی حرکتیں کر رہا ہے' ہادی نے اسے گھورا اور آگے بڑھا لیکن احد کے قہقہے بلن ہوتے جارہے تھے اور وہ پیٹ پکڑے بس زمین بوس ہونے کے قریب تھا۔
"واٹ دا ہیل احد؟" ہادی کو تو اسکی ہنسی سے پتنگے لگ گئے۔
"منہ دیکھ اپنا کیسے لال بھبھوکا ہورہا ہے۔۔۔۔
Dude i was just kidding
"۔ احد نے تھوڑی دیر کو ہنسی روک کر کہا۔ ہادی الجھ کر اسے دیکھے گیا جو اسکا چہرہ دیکھ کر دوبارہ ہنسنے لگا تھا۔
پھر اسے ساری بات سمجھ میں آئی۔ او گاڈ! یہ فقط مذاق تھا۔
ہادی نے فوراً سے پہلے احد کو تین چار مکے مارے۔ "ڈرا کر رکھ دیا تھا تم نے۔ فضول ، بے ہودہ مذاق۔۔۔"
"ہاہاہا۔۔۔۔ بس ایویں دل چاہا کہ تجھے ستاؤں تو ڈرامہ کرلیا۔ اور یہ بات تم بھی جانتے ہو عاصم یہاں آ ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ ہمارا علاقہ ہے، اور ویسے بھی تم تو ہیرو ہو اپنے، دلہنیا خود ہی لے کر جاؤگے"۔ احد نے آنکھ دبائی اور ہادی کا غصہ ٹھنڈا کرنے لگا۔ تھوڑی پیش رفت کے بعد وہ مان ہی گیا اور یہ سوچ کر پرسکون ہوگیا کہ واقعی وہ اس گاؤں تک آنہیں سکتا اور اگر آ بھی گیا تو زندہ واپس نہیں لوٹے گا۔ بہتر یہی ہوگا اسکے لیے کہ دبک کر گھر بیٹھا رہے۔
--------
ڈھولک ایک دفعہ پھر سج گئی تھی۔ لیکن اس دفعہ وہ محفل میں شامل نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ بقول دادی وہ مایوں بیٹھی تھی جس سے دلہن کو "روپ" چڑھتا ہے۔ ہادی نے اس "ملاقات" کے بعد سے اسے دیکھا نہیں تھا۔ احد کا کہنا تھا "بڑا جگرا ہے، اتنے صبر سے کیسے بیٹھے ہو" جواب میں وہ کہتا "بس وقت ہی کتنا رہ گیا ہے ملن کا"۔
اپنے کمرے کی کھڑکی سے وہ نیچے لان میں جھانک رہی تھی جہاں سب ہلا گُلا کرنے میں مصروف تھے اور ان کے قہقہے وہ صاف اوپر تک سن سکتی تھی۔ ان کے ہنستے چہرے دیکھ کر وہ مسکرا اٹھی۔
تبھی دروازہ دھڑام سے کھلا اور کوئی چینختا ہوا اندر داخل ہوا۔
"ھدی۔۔۔۔۔ میری گڑیا۔۔۔"
ھدی فوراً پلٹی اور خوشی سے چہکی۔ "عائشہ آپی۔۔۔۔"
عائشہ بھاگتی ہوئی آئی اور سیدھا بغل گیر ہوئی۔ "کہاں رہ گئ تھیں آپ؟"
اسے ساتھ لگائے وہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گر رہی تھی۔
"اف یقین کرو۔۔ میں تو اسی دن پہنچ جاتی جس دن رشتہ پکا ہوا لیکن شہروز نا اتنے مصروف ہوگئے تھے کام میں۔۔۔ بس اب آگئی ہوں نا اپنی پیاری سی بھابھی کے پاس"۔ عائشہ نے الگ ہوکر آنکھ ماری تو ھدی جھینپ کر ہنس پڑی۔
"میں بہت خوش ہوں کہ ہادی بھائی کو تم جیسی شریکِ حیات ملنے جارہی ہے۔ ہادی بہت اچھے ہیں ھدی ان کے ساتھ خوش رہنا، وہ اچھی اور خیال رکھنے والی لڑکی بن کے رہنا جو تم پہلے تھی"۔ وہ اسے ساتھ لیے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
ھدی نے سر جھکا لیا۔ گزرے وقتوں میں تو وہ اپنے آپ کو فراموش کر چکی تھی۔ وہ کیا ہوتی تھی؟ کیسے رہتی تھی، کیسی باتیں کرتی تھی؟ سب بھول بھال چکی تھی۔
"جانتی ہوں زندگی میں برا وقت آتا ہے اور ہم خود کا ساتھ بھی ٹھیک سے نبھاہ نہیں پاتے۔۔۔ لیکن بعد میں کوشش تو کر سکتے ہیں نا، ہم وہ بن سکتے ہیں جو ہم تھے یا ہم اس سے بھی زیادہ اچھے بن سکتے ہیں۔"
اب موقع ملا تھا tuning کرنے کا وہ کیوں ہاتھ سے جانے دیتی۔ ھدی آرام سے سن رہی تھی۔
"میں تمہیں آگے کی زندگی میں بہت خوش، بہت مضبوط اور بااعتماد دیکھنا چاہتی ہوں۔ تمہاری اپنی پہچان ہو، تمہارا اپنا رنگ ہو جس سے تم منفرد دِکھو۔۔۔ ہم عورتوں کو سب سے پہلے خود کا کردار مضبوط کرنا پڑتا ہے۔ اور اسکے بعد ہم اپنا گھر بار اور شوہر اچھے سے سنبھال سکتی ہیں
دوسروں پر انحصار کرکے نہیں بلکہ صرف اور صرف خود پر۔۔۔" عائشہ نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تو ھدی نے سر ہلایا۔ پھر عائشہ اس سے شادی کے کپڑوں کے متعلق پوچھنے لگی۔
--------
"ھدی چلو دوسرے کمرے میں تاکہ بیوٹیشن تمہیں تیار کردے"۔ عائشہ نے اسکے کپڑے اور جیولری اٹھائی۔
"کیوں اس کمرے کو کیا ہوا؟" اپنے نہانے کے بعد گیلے بالوں کو خشک کرتے ہوئے اسنے پوچھا۔
"یار وہ ذرا سائیڈ پر ہے نا اسلیے۔۔" عائشہ نے قصداً لہجہ مصروف سا رکھا اور اسے لیے دوسری کمرے میں چلی گئی۔
وہاں بیوٹیشن اسکی منتظر تھی۔ ھدی دیکھ کر وہ مسکرائی اور اسے لاکر کرسی پر بیٹھایا۔
"آپ تو بہت پیاری ہیں، نظر نا لگے۔۔۔"
ھدی مسکرائی ۔ کھلے دروازے سے ہوا کا جھونکا اندر آیا تو اسنے گردن موڑی۔
کمرے کے ایک کونے میں دروازہ تھا جو غالباً بالکونی تھی۔
"آپ کپڑے بدل آئیں پہلے"۔ اس نے کپڑے تھامے اور چینج کرکے باہر آئی۔
جاماوار کپڑے کا ملٹی کلر شرارہ اور اوپر زرد رنگ کی گھٹنوں تک آتی قمیض جس پر لیس لگی تھی اور ساتھ جیں پیلا ڈوپٹہ جس کے بارڈر پر موتی لٹک رہے تھے۔
وہ تیار ہوچکی تھی۔ بالوں کی فرنچ ناٹ بنائی گئی تھی جس میں کلی کے پھول لگی تھے۔ ہاتھوں میں گجرے اور چوڑیاں، کانوں میں موتیے کے پھولوں والے ٹاپس اور نفاست سے کیا گیا ہلکا میک اپ جس میں فاؤنڈیشن، مسکارا، لائیٹ کلر لپ سٹک اور بلش آن۔
لیکن پھر بھی وہ اپنے آپ کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔  اسا سادہ سا چہرہ چمک رہا تھا، شاید دلہن بن کر الگ ہی خوبصورتی چھلکتی ہے۔
"ہائے میری بھابھی جان۔۔۔۔۔ بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ شہزادی لگ رہی ہو بالکل"۔ عائشہ اندر آئی۔
"ابھی تمہیں دس پندرہ منٹ تک نیچے لے جائیں گے، اوکے؟" عائشہ بیوٹیشن کو لے کر باہر نکل گئی۔ وہ دوبارہ آئینے کے سامنے آئی اور سر پر ٹِکے ڈوپٹے میں سے نکلتی چُٹیا کو ہاتھ سے چھو کر دیکھنے لگی۔
تبھی پیچھے آہٹ ہوئی تو اس نے چانک کر سر اٹھایا۔
آئینے میں بالکونی کے دروازے میں کسی کا عکس ابھرا۔ پھر اسے وہ آئینے میں اپنی طرف بڑھتا نظر آیا۔ وہ ویسے ہی کھڑی رہی۔
سفید کرتے پر پیلے ڈوپٹے گلے میں ڈالے وہ ڈیشنگ بندہ یقیناً اسکا شوہر تھا۔
وہ دھیرے سے بالکل اسکے ہیچھے آکھڑا ہوا اور اسے آئینے میں دیکھنے لگا۔ بالکل مبہوت ہوکر۔۔۔
"اہم۔۔۔ کیا یہ میری ہی بیگم ہیں یا کوئی اور ہے؟" ہادی نے کھنکار کر سوال کیا۔
ھدی نے پلکیں جھکا لیں۔ گلابی گال اور گلابی ہوگئے۔
"کیا مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ تم کتنی حسین لگ رہی ہو؟"
ھدی نے چہرہ اٹھایا اور اسے دیکھا۔
"میری پریٹی لیڈی کو تعریف کی ضرورت نہیں لیکن وہ اس تعریف کی حقدار ہے۔
"۔You're the prettiest and precious pearl of my life
"آپ ۔۔۔ یہاں کیسے آئے؟" اس نے نظریں جھکا کر کہا۔
"بالکونی کے دروازے سے۔۔" وہ مزے سے بولا۔
"اوہ۔۔۔" ھدی نے مڑ کر بالکونی کی طرف دیکھا۔
"تو یہ پلان تھا آپ کا؟"
"ہاں تو کیا اپنی بیگم کو بھی نا دیکھوں کہ وہ کیسی لگ رہی ہے"۔ اس کے کانوں میں پہنی بالی کو چھو کر وہ بولا۔
"ہادی۔۔" ھدی شرمائی۔
"جی جانم۔۔"
'اللہ اکبر۔۔۔' ھدی نے نظریں جھکائی رکھنے میں عافیت جانی۔
تبھی عائشہ ناک کرکے اندر داخل ہوئی۔
"دلہن کو لے جانے کا ٹائم ہوا چاہتا ہے۔ دلہا میاں جس رستے ائے ہیں وہی سے لوٹ جائیں۔۔۔"
ہادی آرام سے مسکراتے ہوئے بالکونی کی طرف گیا اور چھلانگ لگا کر دوسری بالکونی میں کودا جو ساتھ والے کمرے کی تھی۔ شکر ہے احد نہیں تھا یہاں موجود ورنہ اس پاکستانی رومیو کی واٹ لگ جاتی۔
پہلے لڑکی کو مہندی لگائی گئی ، پھر لڑکے کو بٹھا کر مہندی اور تیل لگایا گیا۔ کھانے کے بعد شغل میلا ہوا۔ فاخرہ ھدی کی بالائیں لے کر اسے پیار سے ساتھ لپٹا رہی تھیں۔ اور اسے کھانا بھی وہ اپنے ہاتھ سے کھِلا رہی تھیں کیونکہ اسکے ہاتھوں پر مہندی لگی تھی۔
"کسی کی بہن کو ایسے نہیں تاڑتے۔ جانتا ہوں تیرا کھانا کھلانے کا دل چاہ رہا ہوگا"۔ احد نے اسے دیکھ کر کہا جو لڑکوں میں گھِرے بیٹھا تھا۔
"شش۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے"۔
"اور اب اگر تو نے کوئی اوٹ پٹانگ حرکت کی تو تجھے اپنی بہن نہیں دوں گا۔ روتے رہنا پھر۔۔"ہادی نے تنبیہ کی تو وہ فورا اسکے ساتھ لگ کر بولا۔
"پیاری ہادی بھائی میرے۔ کتنے پیارے لگ رہے ہیں آپ۔۔۔" اس کا پینترا ایک لمحے میں بدلا تو ہادی کا ہنسی آئی۔ "نمونہ"۔
----------
شام کو فنکشن تھا۔ سب اسکی تیاریوں میں لگے تھے۔ ابھی اسکے پاس سے ساری کزنز وغیرہ اٹھ کر گئی تھیں تاکہ وہ کچھ دیر آرام کرلے پھر اسے شام کو اتنی دیر بیٹھنا ہی تھا سٹیج پر۔ فاخرہ اس کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہی، کبھی اسکی آنکھیں نم ہوتی تو کبھی فاخرہ کی۔ بچیوں کی شادی سب کو کرنی ہوتی ہے لیکن اس موقع پر ایموشنل بھی سب ہی ہوجاتے ہیں ۔ کتنا پیارا رشتہ ہے نا بیٹیوں کا۔۔۔؟
جانے سے پہلے وہ اسے مرتضی کی ڈائری دے گئیں تھی تاکہ کچھ وقت وہ ان کو سن لے جنہیں وہ یقیناً مس کر رہی ہوگی۔
کتنی دیر وہ ڈائری پڑھتی رہی، آنسو بہائے لیکن خود ہی آنسو پونچھے کہ اسے اب اپنے بابا کی اچھے اخلاق والی بیٹی بننا تھا۔
ٹھیک چار گھنٹے بعد وہ ہال کے برائڈل روم میں بیٹھی ہادی کی منتظر تھی جس کے ساتھ اس نے ہال میں داخل ہونا تھا۔
کیونکہ نکاح تو ہوچکا تھا اور ریسیپشن میں تو کپل ساتھ آتا ہے نا۔۔۔۔
برائڈل بھاری ڈریس میں بیٹھی وہ گردن اٹھائے لیکن نظریں جھکائے بیٹھی تھی تبھی دروازہ کھول وہ داخل ہوا۔
جی ہاں وہی۔۔۔ اس کا حسین اور خوبصورت دل کا مالک شوہر۔۔۔
---------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now