کال کاٹ کر اس نے دراز میں سے اپنی کتابیں نکالیں۔ کافی ٹائم سے اسنے کتاب کھول کر ہی نہیں دیکھی تھی۔ ابھی کتاب کھولنے ہی والی تھی کہ فون کی بیپ بجی۔
'ایک تو جب پڑھنے کا سوچ لو نا یہ سوتن بن کر بجنے ، چینخنے لگتا ہے کہ مجھے توجہ دو، مجھو دیکھو۔۔' ھدی نے فون کو دیکھ کر سوچا۔
پھر اللہ اللہ کرکے کتاب کھول ہی لی۔ "میسج چیک کرلوں پہلے، بعد میں پڑھ لوں گی"۔ ایک منٹ کے اندر اندر اسنے فیصلہ کیا اور کتاب چھوڑ کر فون اٹھایا۔ فون میں ایسے میگنٹ لگے ہوتے ہیں جو سٹوڈنٹس کو کتاب سے دور کرکے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
"احد بھائی"۔ واٹس ایپ میسج نوٹیفیکیشن سکرین پر جگمگا رہا تھا۔ سکرین کو چھو کر اسنے میسج کھولا۔
"لوگ اپنے چہرے پر اپنے کردار کی اچھائی اور برائی لکھ کر نہیں گھومتے، اور نا ہی ہر کوئی یہ بتاتا پھرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ مخلص ہوں یا میں تم سے اپنے فائدے کے لیے بات کر رہا ہوں۔ ۔۔۔ لوگوں کے رویوں سے خود کو باور کروانا چاہئے کہ کون کیسا ہے۔۔۔ احتیاط برتنی چاہئے، دھیان رکھنا چاہئے، آنکھیں اور ذہن کھُلا رکھنا چاہئے۔عقل سے کام لینا چاہئے۔"
میسج اسنے غور سے پڑھا۔ پھر اسکا ذہن عاصم کی طرف گیا۔۔۔
"اتنے عجیب سے ہوگئے ہیں وہ۔۔ مجھے ذرا دھیان رکھنا چاہیے۔ عقل سے کام لو ھدی"۔ وہ خود سے کہہ رہی تھی کہ بیپ دوبارہ بجی۔ اسنے سکرین روشن کرکے دیکھا۔
"یہ میسج دس لوگوں کو مزید سینڈ کریں، آپ کے دل کی مراد راتوں رات پوری ہوجائے گی"۔ یہ بھی احد کا میسج تھا جو کہ یقیناً صرف اور صرف احد نے ہی کیا تھا۔
وہ ہنس پڑی۔ ہنسنے والی ایموجی بھیج کر اسنے فون رکھ دیا۔
--------"انکل میرا تجربہ زیادہ نہیں ہے اس فیلڈ میں، لیکن چونکہ میں بزنس پڑھ رہا ہوں اور ڈگری سے ایک قدم پیچھے ہوں بس۔۔۔ اس لیے میں کوئی کمپنی جوائین کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے
اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے تھوڑا تجربہ مل جائے گا"۔ وہ پر اعتماد نظر آرہا تھا۔
"یہ تو تم نے بہت اچھا سوچا"۔ وہ مسکرائے۔
"اس لیے میں آپ کے پاس آیا، کہ آپ کی کمپنی میں شئیر ڈالوں۔۔ میں اور یہ میرا دوست احد، ہم ساتھ پارٹنر شِپ کرنا چاہتے ہیں"۔ اسنے احد کا غائبانہ تعرف کروایا۔
"تو کیا خیال ہیں آپ کے اس ڈیل پر ؟" ہادی نے مسکرا کر پوچھا۔
"ہمم۔ خیال اچھا ہے۔ ینگ یوتھ کو موقع دیا جانا چاہئے کیونکہ تجربے کے علاوہ ہنر بھی کسی شے کا نام ہے"۔ مرتضی صاحب سنجیدہ تھے لیکن بات کے آخر میں پروفیشنل انداز میں مسکرا ضرور دیتے۔
" تم اپنا فیملی بزنس کیوں نہیں جوائن کر رہے؟"
"کیونکہ میں خود اپنے قدم پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔۔۔ پھر فیملی بزنس سنبھالوں گا"۔
"عبدل ہادی۔۔۔ مجھے تمہارے ساتھ کام کرکے بہت اچھا لگے گا"۔ مرتضی صاحب نے ہاتھ آگے بڑھایا جسے اسنے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔
یہ ایک سال پہلے کی بات ہے جب وہ چھٹیوں پر پاکستان آیا تھا۔ اسنے اپنی فیلڈ کی خاطر بزنس جوائین کرنا چاہا، اور سب سے اچھا آپشن اس کے پاس مرتضی صاحب تھے۔ وہ روز ان کے آفس جاتا تھا ، اس نے کچھ مہینوں کا کانٹریکٹ کیا تھا کیونکہ اسے ابھی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے واپس بیرون ملک بھی جانا تھا۔
ان کی فیملی کے بارے میں وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ گھر میں روز ہی انکا ذکر ہوتا تھا۔
وہ مرتضی صاحب کے ساتھ بہت فرینک ہوگیا تھا۔ کچھ دنوں سے وہ نوٹ کر رہا تھا ایک آدمی روز ان کے آفس آتا اور کچھ باتیں کرکے چلا تھا۔ پچلھے دو روز سے وہ کچھ تلخ باتیں کر رہا تھا جِس کی وجہ سے مرتضی صاحب کچھ پریشان نظر آنے لگے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ گھر پر بھی پریشان اور الجھے ہوئے نظر آتے تھے۔
ان کے آفس سے باہر نکلتے شخص کو اس نے بہت غور سے دیکھا تھا۔ گھسی ہوئی جینز پر اسنے ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ بال عجیب سے انداز میں بکھرے تھے۔ عمر تیس بتیس سال ہوگی۔۔
وہ اندر آیا۔ "سر یہ کون تھا؟" اسنے بلا تکلف پوچھا۔
جواباً انہوں نے پریشانی سے پیشانی مسلی۔
"بھائی کا بیٹا ہے میرا۔۔"
"سر آپ مائینڈ مت کریں تو ایک بات کہوں۔۔۔؟" وہ ان کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا۔
"کہو یار۔۔" وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
"یہ بندہ مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔ اس کے ساتھ ذرا دھیان سے رہیں"۔ اس نے اپنی رائے دی تو مرتضی صاحب مسکرا کر اسے دیکھنے لگے۔
"عبدل ہادی۔۔۔ میں بہت اچھے سے جانتا ہوں اس کو۔ تمہارا تجزیہ مجھے اچھا لگا"۔
انہوں نے آگے بڑھ کر پانی کا گلاس لینا چاہا، ہادی نے فوراً آگے بڑھ کر پانی کا گلاس انہیں تھمایا۔ وہ پانی پی کر بولے۔
"پیسے میں بہت طاقت ہوتی ہے عبدل ہادی۔۔ یہ طاقت رشتوں سے کبھی کبار بھاری ہوجاتی ہے۔ لوگ اپنا خون نہیں دیکھتے پھر۔۔۔ وہ پیسہ دیکھتے ہیں، طاقت مانگتے ہیں"۔
ہادی انہیں چپ چاپ بولتا دیکھتا رہا۔ وہ اپنا دل کھول کر رکھ رہے تھے اور وہ ہمہ تن گوش تھا۔
"یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔ ہم بھائیوں کی اتنی بنتی نہیں۔ لیکن اب بات چیت چلی ہے۔ اور یہ عاصم میرے بزنس میں ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے، اسکی نظر میرے کام اور میرے گھر پر ہے"۔
"سر اسکا علاج کریں کوئی۔ مجھے بندہ شاطر لگتا ہے اور خبیث بھی"۔
وہ ہنس دیے۔
"ہاں وہی سوچ رہا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔۔۔ لیکن دل بھی دکھ رہا ہے کہ خون سے زیادہ طاقت پیسے میں ہے۔۔۔"۔
"ایسے لوگوں سے دوری برتنی چاہئے سر، یا دھیان رکھنا چاہئے۔ آپ نے کچھ سوچا؟"
"گھر میں نے اپنی بیٹی کے نام کردیا ہے۔ جبکہ بزنس بھی میرے بعد اسی کا ہوگا۔ کچھ شئیر اپنی بیگم کے حوالے بھی کردیے ہیں، باقی پارٹنرز سے پروفٹ بھی ملتا رہے گا ، میں نا رہا تو وہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔۔"۔
"گُڈ سر، آپ پریشان نا ہوں۔ آئیں لنچ کرتے ہیں"۔ اب وہ انٹرکام پر کھانا لانے کو کہہ رہا تھا۔
"لالچ انسان کو دوسرے انسان کی زندگی کی قیمت لگانے پر بھی اکسا دیتا ہے۔۔۔ پیسے اور طاقت کے لیے کسی کی جان لے لینا بھی معمولی بات ہے"۔ مرتضی صاحب کی آواز بہت دھیمی تھی۔ ہادی نے چونک کر گردن ان کی طرف موڑی ۔ وہ اپنا رخ دوسری طرف کر چکے تھے۔
YOU ARE READING
دل کے دریچے
General FictionRanked#1 . A romantic/social story. episodes will be coming weekly. it is a story of a girl huda , who goes throw different phases of life. A story of friendship (Hadi & Ahad) , A story of family relation and a story love..