شادی ہال کچھ اس طرح بنا ہوا تھا کہ داخلی دروازے سے اندر آؤ تو سفید پتھروں کا راستہ آپ کو سیدھا بڑے ہال کی جانب لے کر جاتا ہے۔ جبکہ بائیں جانب کھانے کا الگ سے ہال تھا اور دائیں جانب دو کمرے (برائیڈل یا فیملی روم) تھے اور اس کے ساتھ چھوٹا سا باغ تھا جہاں عموماً شادی کے فوٹوشوٹ ہوتے تھے۔
باغ کا چھوٹا سا دروازہ تھا اور اطراف میں بڑے بڑے پودے لگے تھے تاکہ ہر کوئی اندر نا جاسکے۔
یہ ہال حویلی سے کافی دور گاؤں کی حدود سے باہر نکل کر بنایا گیا تھا۔
فوٹوگرافر ان کی تصاویر اتارنے کے لیے باغ میں کھڑا اینگل چیک کر رہا تھا۔ ہادی ھدی کو لینے کے لیے برائیڈل روم داخل ہوا۔
ہادی نے سیاہ تھری ہیس سوٹ پہن رکھا تھا، اندر میرون شرٹ زیب تن کی گئی تھی جو ھدی کے سوٹ سے میچ کر رہی تھی۔ براؤن گھنے بال ہیر سپرے لگا کر سیٹ کیے ہوئے تھے اور چمکتے چہرے پر بڑھی ہوئی تراشیدہ بیئرڈ۔۔۔ وہ کسی سلطنت کا بادشاہ لگ رہا تھا۔۔۔
سلطنتِ دل کا۔
اور اس کی ملکہ سامنے بیٹھی تھی جسے وہ مبہوت ہوکر دیکھ رہا تھا۔
آفوائیٹ جھلملاتی فراک جس کے نیچے سے میرون لہنگا دکھائی دے رہا تھا۔ بالوں کا ہئیر سٹائیل بنا رکھا تھا، سر پر ڈوپٹہ جمائے ، میک اپ لگائے، نظریں جھکائے۔۔ کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہادی کے دل کا کیا حال کر رہی ہوگی؟
ہادی قدم قدم اٹھاتا آگے آیا اور اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
"تم دن بہ دن مجھے اس قدر حسین لگتی جارہی ہو کہ مجھے تمہاری تعریف کرنے کے لیے الفاظ ہی نہیں ملتے"۔
وہ مسکرا کر بولا اور اسے دیکھا۔ ھدی نے لمحہ بھر کو نظر اٹھا کر اسے دیکھا، پھر مسکرا کر سر جھکا لیا۔
ہادی نے اس کی اٹھتی اور جھکتی پلکیں مزے سے دیکھیں۔ پھر اس نے دل کش انداز میں اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔
"May I?"
ھدی نے اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا۔ ہادی اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے باغ میں لے آیا جہاں اب ان کی تصاویر کھینچی جا رہی تھیں۔
ایک تو وہ پوز ایسے ایسے بتا رہا تھا کہ بندہ یا تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائے یا شرم سے پانی پانی ہوجائے۔ اور ھدی اس وقت دونوں مرحلوں سے گزر رہی تھی۔ دلہن ہونے کا لحاظ تھا اسی لیے بمشکل ضبط کر رہی تھی اور اس کے برعکس ہادی بہت مزے سے سب کر رہا تھا۔
"اب آپ ان کے سامنے بیٹھ کر پروپوز کریں انہیں۔۔" فوٹوگرافر کی بھاری سی آواز آئی۔ ہادی سر کو خم دیتے ہوئے جھکا اور ایک گھُٹنہ زمین سے لگا کر بیٹھا۔ دوسرا ہاتھ بڑھا کر ھدی کا ہاتھ تھاما۔
اپنی مسکراہٹ دبا کر ہادی کھنکارا اور بولا۔
"محترمہ۔۔۔ کیا آپ میری شریکِ حیات بننا پسند کریں گی؟"
اس کے انداز پر ھدی بے ساختہ مسکرائی۔ اور فوٹوگرافر نے جلدی سے یہ منظر قید کیا۔
"اب آپ انہیں پیار کریں"۔ اگلے ہی سیکنڈ وہ پروفیشنل انداز میں بولا۔
"کیا؟" ہادی کو صحیح سے سمجھ نہیں آئی تھی۔ جبکہ ھدی حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"پیار کریں۔۔مطلب۔۔" فوٹوگرافر ان کی شکلیں سیکھ کر خود کنفیوز ہوگیا۔
"اچھا چھوڑیں۔۔۔۔ اگلا پوز۔ اب آپ۔۔۔۔" وہ بولنے لگا تو ہادی نے اسکی بات کاٹی۔
"ایک منٹ۔۔۔" پھر وہ ھدی کی طرف مڑا۔
اس کے ہاتھ تھامے وہ اسکی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
"اجازت ہے؟"
'اللہ اکبر۔۔۔' شرم ہی اتنی آگئی تھی اسے کہ اس کے میک اپ سے کیے گیے گلابی گال اور گلابی ہوگئے۔
ہادی نے اسکے جھکے سر کو دیکھا اور اسکے ماتھے پر بوسہ کرکے پیچھے ہوا۔
'کلک' فوٹوگرافر نے مسکرا کر تصویر دیکھی۔ "پرفیکٹ۔۔۔"
"ھدی۔۔۔ ہر لمحہ انجوائے کرو۔ یہ وقت لوٹ کر نہیں آئےگا۔
بعد میں ہم بوڑھے ہوجائینگے نا تو پھر اپنی شادی کو یاد کرکے مسکرائیں گے"۔ ہادی نے اسے ہنسانے کی کوشش کی۔ حسبِ توقع اسکی کھلکھلاہٹ سنائی دی۔
'کلک۔۔'
ہادی محسوس کر رہا تھا کہ وہ زیادہ expressive نہیں ہے۔ ہمم۔۔۔ کوئی بات نہیں ہادی تو ہے نا۔
"Sweetheart. Standing beside you is an honor for me"
"Me too"۔ خلافِ عادت اسکا جواب آیا تو ہادی حیران ہوا۔ پھر اسکا مطمئین چہرہ دیکھ کر وہ مسکرایا۔ ۔
"I'm blessed "
"اور میں آپ سے زیادہ۔۔"
---------
کمرے میں بس پنکھا چلنے کی آواز آرہی تھی یا کچھ دیر بعد پلٹے جانے والے صفحے کی۔
ھدی خالی کمرے میں بیڈ پر بیٹھی اپنے بابا کی ڈائری پڑھنے میں مصروف تھی۔ صفحوں پر بکھرے اسکے بابا کے الفاظ بول رہے تھے۔۔اور وہ سن رہی تھی۔۔۔
"کہتے ہیں انسان کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو وہ deserve کرتا ہے۔ تو کیا اچھے کے ساتھ صرف اچھا ہوتا رہتا ہے؟ اور برے کے ساتھ صرف برا؟ پھر تو اچھے کے ساتھ برا ہونا ممنوع ہو۔۔ اور برے کے ساتھ اچھا ہونا ممنوع ہو۔
نہیں نا؟ ہاں! بالکل نہیں۔
انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ جو ہوتا ہے اسکا ایک مقصد ہمیشہ ہوتا ہے۔ وہ یا تو آپ کی سزا ہتی ہے، یا آپ کو کوئی سبق دینے کے لیے ہوتا ہے، یا آپ کو کچھ باور کرانے کے لیے ہوتا ہے جو ہم اس وقت نہیں سمجھ پاتے۔
مشلیں آتی ہیں اور ہم پریشان بھی ہوتے ہیں۔۔یہ فطری بات ہے۔
اور کچھ عرصے بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں۔۔۔ یہ بھی فطری بات ہے۔
لیکن اگر زندگی میں کچھ برا ہوتا ہے اور اسکا اثر ہم ہمیشہ کے لیے دل پر لے لیں یا اسکا غم سینے سے لگا لیں تو ہم اپنا خسارا کر بیٹھتے ہیں۔
ہماری دماغی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ اور ہم کیا کرتے ہیں کیا سوچتے ہیں اس پر ہمارا کنٹرول نہیں رہتا۔ ہر تیسرا بندہ غم کو سینے سے لگا لیتا ہے جو اسکی زندگی پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔ وہ حساس ہونے لگ جاتا ہے، اداس رہنے لگتا ہے، کوئی کام دل جوئی سے نہیں کر پاتا ، جینے سے دل اٹھ جاتا ہے اور مرنے کا احساس اسے خوشگوار گزرتا ہے۔
ہے نا؟" اسے لگا بابا اس سے پوچھ رہے ہیں۔ نم آنکھوں سے اسنے سر ہلایا کیونکہ یہ اسکی زندگی کا حال تھا۔
"تو اسکا حل یہ ہے کہ ان باتوں کو نا سوچا جائے جو آپکا دل دکھاتی ہیں۔ کچھ عرصہ خود کو مصروف رکھیں کسی اور کام میں، عبادت میں پڑھائی میں۔۔۔ ان باتوں کو سوچیں جو اچھی لگے، وہ کریں جس سے دل خوش ہو۔۔۔ گھر والوں کے ساتھ اچھا وقت گزاریں۔۔۔
غم بھولتا نہیں ہے مانتا ہوں۔۔۔ لیکن اسے ہر روز یاد بھی نہیں کرنا چاہئے۔ بس کچھ عرصہ کر لیا سوگ۔ اب اٹھو اپنے لیے کھڑے ہو، خود کو اچھا بناؤ، اپنا کردار مضبوط کرو۔۔۔ آگے بڑھنے کی لگن پیدا کرو، زندگی جیو۔۔ کیونکہ کچھ بھی ہوجائے زندگی تو تب تک چلتی رہنی ہے جب تک سانسیں چلے گی، اور جب تک سانسیں چلے گی آپ کو روز اٹھنا ہے اپنے لیے۔۔۔ گر جائیں تو دابارہ اٹھ جائیں۔ کھڑے ہیں تو خود کو بتائیں کے تم گر سکتے ہو اس لیے دھیان سے چلو۔۔
اپنے کردار کو اتنا بلند کرو کہ اپنے لیے تم منفرد بن سکو، اپنے آپ کو ہر مشکل میں تم میسر ہو، اپنے آپ کو دوسروں کی نظروں میں گراؤ مت۔۔۔ بس اٹھو کیونکہ تم مضبوط ہو!"
"اللہ اکبر۔۔۔۔" ھدی رو دینے کو تھی۔
"میں کتنے بےوقوف تھی میں کیا کیا کرتی آئی ہوں اپنی زندگی میں۔ لوگ سمجھتے ہونگے اسے عقل نہیں ہے۔ لیکن سمجھنے دو، میں نے ہی تو انکو موقع دیا ہوگا باتوں کا۔۔۔ لیکن اب نہیں۔ ھدی مرتضی اب اپنے قدموں کو مضبوط کرےگی، اپنے کردار کو پختہ کرےگی۔" اہ ڈائری کے دیکھتے ہوئے عہد کر رہی تھی۔
اس نے صفحہ پلٹا۔
"بعض اوقات اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور اسے اجیرن بنانا بھی ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
آپ کیا سوچتے ہیں ، اور آپ کیا کرتے ہیں۔۔۔ ان چیزوں کا بہت گہرا اثر آپ کی زندگی پر پڑتا ہے"۔
"ایک رویہ ہوتا ہے ، being expressive
آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں، آپ کیا سوچ رہے ہیں، آپ کو کوئی چیز اچھی لگ رہی ہے یا بری، آپ کیا کرنے چاہتے ہو، کیوں کرنا چاہتے ہو، آپ کا مقصد کیا ہے باتوں کا۔۔۔۔۔ ان سب چیزوں کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا۔
ہم سے بعض لوگ آرام سے ایکسپریس کردیتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں۔ اور بعض سب اپنے دل تک رکھتے ہیں۔
یہ آپ کی ذاتی رائے ہے لیکن میں یہ کہوں گا کہ کم از کم آپ کو اپنی فیملی اور اپنے سے جُڑے قریبی لوگ کے ساتھ ایکسپریسیو ضرور ہونا چاہئے۔
کیونکہ آپ کیا ہو؟ آپ کو کیا چاہئے؟ آپ کو کچھ برا لگا یا اچھا؟ آپ کے دل میں کیا ہے؟
یہ وہ تب تک نہیں جان سکیں گے جب تک آپ کہو گے نہیں۔
اور جب آپ کہہ دو گے تو آپ کے بارے میں وہ جان جائینگے اور آپ کو محسوس کرنے لگیں گے۔ اگر آپ اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ ایکسپریسیو نہیں ہو تو یقین جانو آپ لوگوں کے درمیان ایک خلا ہے جسے آپ صرف اپنے ہاتھوں سے ہی ختم کرسکتے ہو۔ اور اگر نہیں کروگے تو یہ خلا دھیرے دھیرے بڑھتا جائےگا۔۔۔ اور رشتوں میں غلط فہمی، غلط بیانی، اعتماد نا ہونا جیسی بیماریاں پیدا ہو جائیں گی"۔
ھدی نے ڈائری بند کی اور سوچا اسکے بابا نے اسے کرنے اچھی بات صحیح وقت پر بتا دی ہیں اور اسکا خسارا ابھی تک نہیں ہوا اور اب وہ اپنا خسارا ہونے بھی نہیں سے گی۔ اسنے سوچا کہ ہادی کے سامنے اسے ایکسپریسیو ہونا شروع کرنا چاہئے ورنہ وہ کوئی غلط فہمی پال سکتا ہے کہ میں اسکے ساتھ خوش نہیں ہوں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
"تھینک یو بابا"۔
سوچتے سوچتے اسکی آنکھ لگ گئی۔
-----------سٹیج پر بیٹھے وہ سب سے ماشاءاللہ، داد، پیار اور سلامیاں وصول کر رہے تھے۔ چٹے ککڑ اور ککڑیاں ادھر ادھر چراتی ہوئی بکریوں کی طرح گھوم رہے تھے۔ جوان گینگ پیاری لڑکیاں دیکھنے میں مصروف تھا جبکہ پریٹی گینگ پاؤٹ بنا کر سیلفیاں لینے میں مصروف تھا۔
رسموں کے اختتام کے بعد کھانا لگا دیا گیا تو عائشہ ھدی کو لے کر برائیڈل روم میں آگئی کیونکہ اتنے لوگوں کے درمیان وہ آرام سے کھا نہیں سکتی تھی۔ بھلا دلہن کا پیچھا کوئی چھوڑتا ہے شادی میں۔
عائشہ اس کے لیے کھانا لینے گئی۔ تقریباً سب لوگ کھانے کے ہال میں موجود تھے اور اس طرف کوئی نا تھا۔
دوستوں کے پاس کھڑے ہادے کے پاس ایک لڑکی آئی۔
"عبدل ہادی سر۔۔۔۔۔" ہادی نے دیکھا وہ بیوٹیشن تھی ھدی کی۔
"جی؟"
وہ ذرا سا اسکے کان کی جھکی اور آہستہ آواز میں بولی۔
"آپ کو ھدی میڈم وہاں باغ میں بُلا رہی ہیں اکیلے۔۔"
ہادی نے سرہلایا تو وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی۔ ہادی نے احد کو ایک نظر دیکھا جو ایک ابرو اٹھائے اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ ہادی چپ کرکے بالر نکل گیا۔
"احد بھائی تو سیون اپ کے ٹِن پکڑانا۔۔" عائشہ نے اسے مخاطب کیا۔
احد نے ٹیبل سے ٹن اٹھا کر اسے دینا چاہے لیکن اسکے دونوں ہاتھوں میں کھانے کی پلیٹین تھی۔
"ایک تو لڑکی جتنی پیاری ہو، شادی کا کھنا دیکھتے ہی اصلیت کھل جاتی ہے۔" احد نے اسے چھیڑا۔
"منہ دھو رکھیں۔ یہ میرا اور ھدی بھابھی کا ہے"۔ عائشہ نے دوبدو جواب دیا۔
"آؤ میں چھوڑ آتا ہوں"۔ وہ اس کے ساتھ برائڈل روم میں آیا۔
"تم واپس آگئی؟" ھدی کو صوفے پر بیٹھا دیکھ کر اسنے پوچھا۔
"کہاں سے؟" اسنے سادگی نے پوچھا۔
"باغ۔۔ملاقات۔۔۔آئی مین تم یہاں کب سے بیٹھی ہو؟" اسنے بات بدلی۔
"سٹیج سے آکر سیدھا یہی بیٹھی ہوں"۔
"تم نے تو ہادی سے کہا کہ وہاں آؤ باغ میں۔۔" احد اب حیران ہوا۔
"اللہ اکبر۔۔میں کیوں کہوں گی؟" ھدی نے سنجیدگی سے کہا۔ "انکے ساتھ سے تو اٹھ کر آئی تھی سٹیج سے"۔
احد کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تو فوراً دروازے کی طرف بڑھا۔
"آگ۔۔۔آگ"۔ باہر سے کوئی چینخا۔ احد نے لپک کر دروازہ کھولا اور باہر دیکھا۔
کچھ فاصلے پر دھواں سا اٹھ رہا تھا ۔
"باغیچے میں آگ لگ گئی۔۔ کچھ کرے کوئی"۔ کوئی دوسرا چینختا ہوا آیا۔
احد گھبرا کر تیزی سے باغ کی طرف دوڑا۔ پیچھے کھلے دروازے میں سے ھدی اور عائشہ بھی باہر بھاگی آئیں۔
"آگ بھُجاؤ کوئی۔۔۔ آگ۔۔۔" ڈائننگ ہال سے لوگ نکل کر باہر دیکھ رہے تھے، دو لمحوں میں ہر طرف شور و دہشت پھیل گئی۔
-----------
YOU ARE READING
دل کے دریچے
General FictionRanked#1 . A romantic/social story. episodes will be coming weekly. it is a story of a girl huda , who goes throw different phases of life. A story of friendship (Hadi & Ahad) , A story of family relation and a story love..