DKD-Episode#10

1.9K 133 46
                                    

"تم۔۔۔۔"
"آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟" اسنے پوچھا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کیا کام والی رکھا ہے تمہیں ادھر؟" احد نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
"حد ہے ویسے میں آپ کو کام والی لگتی ہوں"۔ ھدی نے برا سا منہ بنایا۔
احد نے اوپر سے نیچے تک اسے دیکھا۔ نیلی قمیض، سفید تنگ پجامہ اور میچنگ ڈوپٹہ پہنے وہ اسے اپنی سیاہ بڑی بڑی آنکھوں گھور رہی تھی۔
"نہیں کام والی تو نہیں لگ رہی، پھر ادھر کیا کر رہی ہو؟"
"میں اپنی دوست کی شادی میں آئی ہوں، ہاں شاید آپ یہاں لائٹیں لگانے آئے ہونگے یا چاولوں کی دیگ چڑھانے؟"
ھدی نے اسی کے انداز میں اسے دیکھ اور پورا پورا بدلا لیا۔
سادہ سے شلوار سوٹ میں کہیں سے بھی لائٹیں لگانے والا نہیں لگ رہا تھا۔
"او بی بی! منہ دھو رکھو۔ مابدولت دلہا صاحب کے خاص الخاص دوست ہیں بچپن کے"۔ احد نے فرضی کالر جھاڑے ۔
"او بی بی منہ دھو رکھو"۔ ھدی نے اسکی نقل اتاری ۔
وہ ہنسنے لگا۔ تبھی کسی نے پیچھے سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"احد بھائی آپ کہاں تھے ؟"
اس نے مڑ کر دیکھا تو ہادی مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"میسنا کہیں کا، اداکار، ڈرامے باز ، مسکرا کیسے رہا ہے"
احد نے دانت پیستے ہوئے سوچا۔ اور خود بھی جبراً مسکرایا۔
"جی میں ذرا اپنی بہن سے باتیں کر رہا تھا"۔ اس نے ھدی کی طرف اشارہ کیا جو خاموشی سے نظریں جکھائے کھڑی تھی۔
احد کے کہنے پر ھدی نے اسکی طرف دیکھا۔
جینز کے اوپر نیوی بلو کلر کی شرٹ پہنے،  گیلے بال سلیقے سے پیچھے سیٹ کر رکھے تھے۔ اسکی لائیٹ براؤن آنکھوں شرارت تھی۔  ہادی نے سر ہلایا دیا۔
"آپ ناشتہ نہیں کریں گے؟" ہادی نے مزید پوچھا۔
"آپ کروائینگے تو کرلینگے"۔ احد نے مسکرا کر اسکا کندھا تھپتھپایا۔
"یہ بھی غلطی سے میرا دوست ہے"۔ اسنے ھدی کی طرف مڑ کر کہا۔
"ایک نمبر کے نمونے ہو تم، آجاؤ ناشتہ لگ گیا ہے"۔ ہادی کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
"صحیح کہا انہوں نے۔ نمونہ۔۔۔" ھدی بے ساختہ ہنسنے لگی۔ احد کا فوراً منہ بن گیا۔
"بھائی کو ایسے بولتے ہیں؟"
ھدی کان پکڑ کر سوری کرتے ہوئے اندر چلے گئی۔
--------
سرِ شام لان میں سب جمع ہوگئے تھے۔ آج ڈھولک کی بجائے علی نے ہاتھ میں گِٹار پکڑ رکھا تھا۔ اور گانے کی دھنوں کے ساتھ ٹھیک ٹھاک انصاف کرتے ہوئے سُر خراب کر رہا تھا۔
کزنز ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔ ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتے ، ایک دوسرے کو جملے اور گانے dedicate کر رہے تھے۔
ھدیٰ ان کے بیچ نہیں بیٹھی تھی بلکہ کچھ فاصلے پر دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔
کتنا پرفیکٹ ہے سب کچھ۔۔۔ہنستے مسکراتے چہرے۔۔۔ ہر پریشانی ایک طرف کرکے ، مل بیٹھ کر سب کے ساتھ ہنستے باتیں کرتے۔۔۔بڑے بزرگ چھوٹے سب۔۔۔
ایک مکمل گھر۔۔۔ مکمل خوشیاں۔۔۔
ھدیٰ ان سب کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ اسے بابا یاد آئے، ان کے ہوتے ہوئے وہ سب کتنا خوش تھے، ساتھ رہتے تھے تو کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔
یہ جو سربراہ ہوتا ہے نا گھر کا یہ سب کچھ خود برداشت کرلیتا ہے، سارا کچھ خود سوچتا ہے اور ہر پریشانی اور مشکل سے اپنی فیملی کو بچاتا ہے اور ان کے بِنا کچھ کہے ان کا خیال رکھتا ہے۔
سیاہ کپڑوں میں دمکتے اسکے چہرے پر اداسی پھیل گئی تھی۔ بڑی بڑی آنکھوں میں نمی اترنے ہی والی تھی کہ اسے اپنے پاس آہٹ محسوس ہوئی۔

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now