DKD-Episode#30

1.8K 124 56
                                    

"کہا تھا نا میں نے تمہیں اپنے بھابھی لینے تم بھی جاؤ گی"۔ احد نے گاڑی سے اترتے ہوئے اپنی ایک دفعہ پہلے کہ کہی گئی بات یاد دلائی۔
"ہاں جی بالکل۔۔" ھدی مسکراتی ہوئی گاڑی سے اتری اور چاروں اندر داخل ہوئے۔
ثمرینپڑھائی سے فارغ ہوچکی تھی اور احد کو تو پتنگے لگ گئے کہ فوراً اس کی شادی بھی کی جائے۔ ہادی ثمرین کے گھر والوں کو پہلے ہی باخبر کرچکا تھا ۔ اور اس وقت وہ سب ڈرائینگ روم میں براجمان تھے۔
ثمرین کے والد، والدہ، بھائی بھابھی اور سامنے والے صوفے پر احد اپنی والدہ ہمراہ، سائیڈ پر ہادی اور ھدی۔۔
اور احد اس وقت اس کے بھائی سے ساتھ بات چیت میں مصروف تھا۔
ثمرین کے گھر والے احد کے متعلق پہلے ہی ہادی سے جانچ پڑتال کر چکے تھے اور ہادی نے انہیں گرین سگنل دے دیا ہوا تھا۔ اب تو بس رسماً وہ لوگ یہاں بیٹھے تھے۔ وہ احد کو ہادی میں شادی میں دیکھ چکے تھے اور ہادی انہیں احد کے خیالات سے آگاہ کر چکا تھا۔ ان کی طرف سے مکمل ہاں تھی۔
ثمرین کو اسکی بھابھی لے کر آئیں تو احد کی والدہ نے اٹھ کر اسے پیار کیا۔ ثمرین اپنی ماما کے ساتھ بیٹھ گئی اور دھیرے سے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا۔ احد اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔
"آخرکار وہ دن آپہنچا۔۔" اس نے اپنی آنکھوں سے کہا۔
ھدی نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا پھر ہادی کو جو احد کو گھور رہا تھا۔
"نظریں نیچے کر۔۔۔ سُسرال میں بیٹھا ہے تو۔۔۔" اس نے آنکھوں سے تنبیہ کی تو احد نے نظروں کا زاویہ بدل لیا۔
"اپنی ہوگئی ہے نا۔۔ اس لیے اب دوسروں کا خیال نہیں۔ ہونہہ!"
نظریں بدلیں تو سامنے ٹیبل پر پڑے لوازمات نظر آئے۔ اف اللہ!
اتنا کچھ پڑا ہوا تھا اسکا دھیان کیوں نہیں گیا۔
"خبردار۔۔۔ تمیز سے بیٹھنا کھانے پر ٹوٹنا مت۔۔۔" ہادی نے ذرا سا جھک کر اسکے کان میں کہا۔
"ڈیش انسان۔۔۔" احد نے دانتا پیستے ہوئے کھانے سے نظر اٹھائیں۔ اگر ہونے والے سُسرال میں اسکا پہلا دن نا ہوتا نا پھر بتاتا وہ ہادی کو۔۔
"ارے بیٹا آپ کچھ لے نہیں رہے ، کھاؤ نا"۔ ثمرین کی ماما نے پلیٹ اسکے آگی کی۔
"ارے نہیں نہیں آنٹی۔۔ جوس کافی ہے"۔ وہ قصداً مسکرایا اور آخر میں ہادی کو گھور کر دیکھا جو بڑے مزے سے رول کیچپ لگا کر کھا رہا تھا۔
"خالہ رول بہت مزے کے بنائے ہیں آپ نے۔۔۔" ہادی نے رول اٹھا کر کہا۔ کہا تو خالہ جی کو تھا لیکن سنایا کسی اور کو۔۔۔جس کو آگ لگ گئی تھی اور وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔
"اس کی آرام سکون سے ہوگئی ہے نا۔۔۔۔ اب میری باری میں بینڈ بجائے گا۔ ڈیش انسان"۔ احد نے مسکرا کر بہت "پیار" سے ہادی کو دیکھا (گھورا)۔ ہادی نے اسے زچ کرنے میں کامیاب ہونے کی خوشی میں دوسرا رول اٹھا لیا۔
------------
ثمرین کمرے میں آئی تو پیچھے ہی ھدی بھی داخل ہوئی اور اندر بڑھتے ہی اسے زور سے گلے لگا کر بھینجا۔
"بھابھی میری پیاری۔۔۔ہائے۔۔۔"
ھدی نے ثمرین کا شرم و خوشی سے مسرت چہرہ دیکھا اور پیار سے کہا۔
"دو مہینے ہیں بس۔۔۔ پھر تو آپ بن جائیں گی مسز احد۔۔"
ایک ہفتے بعد منگنی فائینل ہوئی تھی اور دو مہینے بعد شادی۔ احد کا تو بس نہیں چل رہا تھا ایک ہی ہفتے میں شادی کرلے لیکن چلو دو مہینے بھی ٹھیک ہیں اس نے خود کو ایک دفعہ پھر صبر کا گھونٹا پلوایا۔
"خوش ہیں؟" ھدی نے پوچھا۔
"بہت زیادہ۔۔۔" ثمرین نے ہنس کر سر ہلایا۔
"پرفیکٹ جوڑی ہیں آپ دونوں تو۔۔۔ " ھدی نے آنکھ دبائی۔
"ہاں لیکن پہلا نمبر مسٹر اینڈ مسز ہادی کا ہے۔۔۔۔" ثمرین نے بھی اسی کی طرح آنکھ دبائی تو کھلکھلا اٹھی ۔
---------
"ہادی پیارے۔۔۔" احد اسکے ساتھ بیٹھا آہستہ سے بولا۔
"ہاں سالے بہنوئی۔۔۔" اب تو دو رشتے ہوگئے تھے۔
"یار میں نے تیری باری میں ملاقات کروائی تھی نا۔۔۔ تو بھائی پر اب تیرا احسان ہے، اسے چکاؤ"۔ احد نے بتیسی دیکھائی۔
ہادی نے اسے دیکھا بلکہ گھورا پھر باقی سب کو دیکھا۔۔۔ اتنے سارے لوگوں کے ہوتے ہوئے ملاقات کیسے کروائے گا وہ؟
لیکن احد نے بھی تو کروائی تھی نا۔
پھر کچھ سوچ کر مسکرایا۔
"اوکے بات سن۔۔۔۔" وہ اسکے کان میں جھکا۔ "یہاں سے فون کے بہانے باہر جا اور بائیں جانب مُڑ جانا، وہاں ایک لمبا سا پائپ ہوگا۔۔۔ اس پر چڑھ جانا۔۔"
"پائپ واٹ؟" احد دبا دبا سا چینخا۔ خود تو ڈیش کو میں نے اتنی اچھی میٹنگ سیٹ کروا کر دی تھی ہونہہ۔
"ہاں بس یہی راستہ ہے ، پائپ پر چڑھ کر سیدھا اسکے کمرے کی کھڑکی میں کود جانا، مل لینا اور واپس نیچے پائپ سے آجانا۔۔ یا پھر چھلانگ لگا دینا"۔ وہ بے تہاشہ سنجیدگی سے بتا رہا تھا۔
"کیوں میری ہڈی پسلی تُڑوانی ہے؟" وہ دانت پیس کر بولا۔
"ہاں تو تُو کیوں نئے نویلے سسرال میں اوچھی حرکتیں کرنے کا سوچ رہا ہے؟" اس نے دوبدو جواب دیا۔
"خود کرو تو میٹنگ، میں کروں تو اوچھی حرکت ہونہہ۔۔" وہ چپ ہوکر بیٹھ گیا۔ لیکن اسکا منہ انتہائی برا بنا ہوا تھا۔
ہادی کو اسکا چہرہ دیکھ کر ہنسی آئی۔ پھر اسنے ثمرین کے بھائی کو اشارہ کیا تو وہ کھنکار کر بولے۔
"میرا خیال ہے جب فکس ہو چکا ہے تو ایک بار لڑکا لڑکی کو بات کرنے کا موقع دینا چاہئے۔۔۔ تاکہ وہ اس بارے میں اپنی خواہشات کا اظہار کر سکیں۔۔" انہوں نے اپنی پوری کوشش کرتے ہوئی اچھے الفاظ کا استعمال کیا تاکہ کسی کو کوئی اعتراض نا ہوسکے۔ ہادی انہیں دیکھ۔ کر مسکرایا پھر احد کو دیکھا جو چونک کر سیدھا ہوا تھا اور منہ بالکل ان بچوں جیسا بنا لیا تھا جنہیں ٹافی دے کر پچکارا جاتا ہے اور وہ خوش ہوجاتے ہیں۔
اب ہادی اپنے دوست کے لیے اتنا تو کر سکتا تھا نا۔۔۔ وہ کیا کہتا ہے احد اسے؟ ۔۔۔۔ ہاں اداکار۔۔۔ صحیح کہتا ہے۔
-----------
"اہم۔۔اہم۔۔اہم"۔ احد اسکے پیچھے آکر کھنکارا۔
"اہو۔اہو۔اہو۔۔" ثمرین بھی ہلکا سا کھنکاری۔
"تو فائنیلی انارکلی ہماری ہونے جا رہی ہے۔۔" احد ہاتھ پیچھے باندھ کر آگے کو جھکا۔
"آخر کو اسے اپنے شہزادے کے پاس جانا ہی تھا۔۔" ثمرین نے بالوں کو جھٹکا دیا۔
"ثمی۔۔" وہ بہت آہستہ آواز میں بولا۔
"ہوں"۔
"چینخنا مت۔۔" اسنے تنبیہ کی۔
"کیوں؟" سوال پوچھا گیا۔
لیکن جواب دینے سے پہلے وہ آگے بڑھا اور اسے اٹھا کر گول گھومنے لگا۔
"احد۔۔۔" وہ چینخی۔ پھر دروازی کی طرف دیکھا۔
"میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔" احد خوشی سے چینخا۔
"اور تمیں بھی خوش ہونا چاہئے۔ آخر کو احد کسی شہزادے سے کم ہے کیا؟"
"میں بھی خوش ہوں نیچے اتارو۔۔" لیکن وہ ہنستے ہوئے گھوم رہا تھا۔
"احد میرا سر پھنکے میں لگ جائے گا۔۔۔" ثمرین نے مسکراہٹ دبا کر بولا تو احد نے فوراً اسے چھوڑا اور وہ دھڑام سے نیچے گری۔
"احد۔۔" ثمرین نے اسے بری طرح گھورا۔
"سوری"۔ احد نے ہاتھ بڑھا کر اسے کھڑا کیا۔ "معاف کردو"
"گرایا تو جان بوجھ کر تھا نا؟" وہ برا نہیں مانتی تھی، بڑے دل والی لڑکی تھی بالکل احد کی طرح۔۔
"اب نہیں چھوڑوں گا۔ پکّا"۔ اسنے وعدہ کیا۔
"اب پکڑو تو صحیح۔۔بھائی۔۔۔ بھابھی۔۔" کہتے ساتھ ہی اسنے آواز لگائی۔
"کیوں مجھے سسرال میں پہلے دن کُٹ پڑوانی ہے؟ جا رہا ہوں میں۔۔" وہ خفگی سے کہتے ہوئے مڑا تو ثمرین کی ہنسی نے اسکا تعاقب کیا۔ احد بھی مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا۔
-----------
"چلو ٹھیک ہے، میں نکل رہا ہوں"۔
یہ اگلے دن کی بات ہے جب ہادی ایک کال آنے پر اپنا والٹ اور چابیاں اٹھاتا نکلنے کی تیاری میں تھا۔
"ھدی مجھے ذرا کچھ کام ہے، انسٹیوٹ میں کچھ مسئلہ ہے وہ حل کرنا ہے۔۔۔ شام تک واپس آجاؤنگا۔" واشروم سے نکلتی ھدی کو دیکھ کر اسنے بتایا۔
"سب ٹھیک ہے؟" اسنے پوچھا۔
"ہاں ، تم اپنا خیال رکھنا۔ اوکے بائے"۔ وہ جلدی جلدی میں باہر نکل گیا۔
"اللہ کرے سب ٹھیک ہو۔۔" اسنے زیرِ لب دعا کی۔
"احد بھائی آپ کو جو کام کہا تھا وہ ہوگیا؟" اسنے میسج کیا۔
"یس سسٹر" احد نے کچھ تصاویر اسے بھیج دیں جنہیں وہ غور سے دیکھنے لگی۔
کچھ ہی دیر میں عالیہ، علینہ وغیرہ آگئیں تو وہ ان کے ساتھ مصروف ہوگئی۔
--------
گاڑی سے اتر کر سب سے پہلے اسنے دروازے پر بیٹھے چوکیدار کی کرسی کو دیکھا جو خالی تھی۔ ابھی تو اسنے کال کی تھی کہاں گیا؟ وہ کھلے دروازے سے اندر آیا تو اطراف میں دیکھا۔۔ ہر طرف سکوت تھا۔
'عجیب بات ہے۔۔۔ ابھی تو اسنے کہا کہ کچھ لوگ گھس آئے ہیں سکول میں اور افراتفی مچی ہے توڑ پھوڑ کی ہے۔۔لیکن یہا تو کچھ نہیں ہوا۔۔'
وہ بلڈنگ کے اندر داخل ہوا۔ کچھ بھی تو نا تھا۔
ذہن یک دم کلک ہوا۔ کہیں یہ کوئی سازش تو نہیں؟ ہر طرف کا جائیزہ لینے کے بعد وہ دروازے کے قریب آیا اور باہر قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے سے ایک موٹر سائکل تیزی سے گزری اور دو افراد میں سے ایک نے گن اونچی کرکے گولیاں چلائیں۔
وہ یک دم دروازے کی اوٹ میں ہوا۔ لیکن اسے ایک گولی لگ چکی تھی۔ اسکی شرٹ کا بازو تیزے سے لہو لہو ہو رہا تھا۔ درد کی شدت سے اسنے دروازے کو تھاما۔
بائک والے گزر چکے تھے لیکن کچھ دور ایک گلی کے کونے پر اسنے جانی پہچانی گاڑی دیکھی۔ اور درد کے باعث آنکھیں بند کرلیں۔ وہ جانتا تھا یہ سب کس نے کیا ہے۔۔۔
"یا اللہ"۔ اس نے ہمت جمع کرکے اٹھنا چاہا۔ دوسرا ہاتھ اٹھا کر جیب میں سے فون نکلانے کی کوشش کی جس میں کامیاب رہا۔
احد شہر میں تھا اس نے اسی کو کال ملائی۔ لوگ سکول کے قریب نا ہونے کے برابر تھے۔
"ہاں جی سالے صاحب کیوں کال کی ہے۔۔۔" ہادی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
"ہیلو؟ ہادی؟"
لیکن  تب تک عبدل ہادی احمد ہر چیز سے بے گانہ ہوچکا تھا۔
-------------

Third last episode

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now