DKD-Episode#19

1.7K 143 33
                                    

"کیا جانتی ہیں آپ؟" ہادی نے چونک کر سر اٹھایا اور انہیں دیکھا۔
"یہی کہ کون ہے وہ جس نے میرے پوتے کو جیت لیا ہے"۔ وہ مسکرائیں۔
"دادو۔۔۔" ہادی حجل سا ہوگیا۔
"بیٹا جی، دادی ہوں آپ کی۔۔۔ بھلا میرا پوتا اپنی بہن سے کیوں اگلوا اُگلوا کر پڑوسیوں کے قصے سنتا رہتا تھا"۔
"نہیں دادو۔۔۔عائشہ خود بتا بتا کر میرا سر کھاتی تھی"۔ اسنے فوراً کہا۔
"چلو وہ چھوڑو۔۔۔ یہ بتاؤ شادی میں بھلا کوئی کیوں گھور گھور کر ایک لڑکی کو دیکھتا ہے؟"
"دادو۔۔۔" اس نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ ارے وہ تو ٹھیک سے دیکھتا بھی نا تھا کہ کوئی اس کی بولتی آنکھوں کو پڑھ نا لے۔
"صرف تنگ کر رہی ہوں۔۔۔مجھے بتاؤ کیا تم ہمدردی میں یہ سب کر رہے ہو یا کچھ اور ہے"۔
"دادو، میں اپنی فیلزنگز سے اچھی طرح واقف ہوں۔ یہ ہمدردی ہرگز نہیں ہے"۔ اس نے صاف گوئی سے کہا۔
"پھر کیا ہے؟" دادو نو مسکراہٹ دبائی اور سنجیدگی سے پوچھا۔
وہ جو پیار محبت عشق ٹائپ کا کوئی جملہ بے ساختہ کہنے والا تھا انکی شکل دیکھ کر ان کو گھورنے لگا۔
"دادو۔۔۔ آپ مجھے تنگ کر رہی ہیں؟"۔ جواباً وہ ہنسنے لگی۔ پھر انہوں نے ہادی سے کہا کہ
"مجھے ھُدٰی تمہارے لیے بہت پسند ہے۔۔۔ تم اس کی ذمہ داری اگر ٹھیک سے اٹھا سکتے ہو تو کہو۔ مجھے تم سے شکایت نہیں ملنی چاہئے اس معاملے میں"۔
"آپ مجھے اس معاملے میں تابعدار اور فرماں بردار پائیں گی۔ کوئی شکایت نہیں ہوگی"۔
احد اس کی جگہ بیٹھا یہ جملہ کہہ رہا تھا تو فوراً سے پہلے اٹھ کر بھنگڑا ضرور ڈال لیتا۔
"اور ان کے تایا والا معاملہ۔۔۔؟" دادو نجانے کیا ہوچھ رہی تھیں۔
ہادی نے گہری سانس لی۔ "دادو مرتضی انکل کے ساتھ انہوں نے کیا کِیا یہ میں آپ کو بتا چکا ہوں، اور اب میں نہیں چاہتا کہ وہ ھدی یا آنٹی پر یا ان سے تعلق رکھتی کسی چیز پر نظر بھی ڈالیں"۔ ہادی کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
فاخرہ جو سکینہ کے کمرے میں بیٹھی ، دادو کو خدا حافظ کہنے ان کے کمرے کی طرف آئی تھیں ، ہادی کی آواز سن کر دروازے میں رک گئیں اور پھر ہلکے قدم اٹھاتی سائیں سائیں ہوتے ذہن کے ساتھ وہ واپس مُڑ گئی۔
--------
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔ چارجنگ پر لگا اس کا فون بجنے لگا تو سائڈ ٹیبل سے فون اٹھایا۔ "عائشہ"۔
"جی محترمہ!" بڑے خوشگوار موڈ میں ہادی نے کال آنسر کی۔
"یہ آپ کی لیلیٰ کا دماغ گھوم گیا ہے۔ ذرا سیٹ کر آئیں"۔
"ہیں۔۔۔؟ کیا ہوا؟"
عائشہ نے ھدی سے کی گئی ساری گفتگو اسے بتادی۔ وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گیا۔
"اب یہ کام خود کرلیں ٹھیک۔ ہم معصوم کب تک آپ کے کام سرانجام دیتے رہیں گے"۔
"احسان جتاؤ گی اب؟"
"میری جیسی بہن کہا ملے گی آپ کو، احد بھائی جیسا دوست کہا ملے گا۔۔۔ ہم معصوم شریف اچھے بچے کب سے آپ کی دال گلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔ اب خود کریں کچھ"۔ وہ تو سارا چھٹا بٹا کھولنے پر تُلی ہوئی تھی۔
"اف۔۔۔چپ"۔ ہادی نے فون کاٹ دیا۔
پھر کچھ سوچتے ہوئے باہر نکل گیا۔
'چل بیٹا اب خود بھی کچھ کرلے'
-----

عاصم لوگوں کو تو وہ فالحال ٹال چکی تھیں۔ لیکن جو سچائی ان پر کھُلی تھی اس نے ان کا دماغ گھوما دیا تھا۔ کیا خون بھی خون کر سکتا ہے؟ وہ انہیں سوچوں میں گھری بیٹھی تھی۔ بیل کی پر وہ چونک اٹھیں۔
دروازہ کھولا تو سامنے ہادی کھڑا تھا۔
"اسلام علیکم آنٹی۔۔۔"
"وعلیکم السلام۔۔۔" فاخرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"کیا ہوا سب خیریت۔۔؟ " وہ شاید پہلی دفعہ ان کی طرف آیا تھا۔
"آنٹی اگر آپ کی اجازت ہو تو میں ھدی سے بات کر سکتا ہوں۔ کچھ باتیں کلئیر کرنا چاہتا ہوں "۔ اس نے شائستہ لہجے میں کہا۔
کچھ سوچ کر فاخرہ نے سر ہلایا اور اندر آنے کو کہا۔
وہ اسے غور سے سیکھ رہیں تھی، اس کی باتیں ان کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔
'کیا اس سے بہتر ان کی لڑکی کو مل سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔۔۔۔ ہادی تو ہیرا ہے'
"وہ اوپر ہے"۔ انہوں نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔
"تھینک یو"۔ شکریہ ادا کرتا وہ زینے چڑھنے لگا۔
---------
وہ چھت پر منڈیر سے ٹیک لگائے کھڑی آسمان کو گھور رہی تھی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ ماما سے بات کرے۔ پھر ارادہ کل تک ملتوی کر دیا کہ صبح انکار کردے گی۔
اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے وہ فوراً مڑی۔
عبدل ہادی احمد سیاہ ٹراؤزر اور آف وائیٹ ٹی شرٹ میں بکھرے بال اور رف حلیے میں قدم اٹھاتا اس کی طرف آرہا تھا۔ اس کے بالکل سامنے آکر وہ رک گیا اور سینے پر ہاتھ باندھ کر سیدھا اسکی آنکھوں میں دیکھا۔
"جی ھدی بی بی!"
"آپ۔۔۔آپ یہاں؟"
"کیوں میں نہیں آسکتا کیا؟ آخر میرا سُسرال ہے"۔ ہادی نے بڑے مزے سے کہا حلانکہ چہرہ ابھی بھی سنجیدہ تھا۔
"امی نیچے ہیں۔۔۔" ھدی نے اطلاع دی۔ اسے لگا شاید ان سے ملنے آیا ہو۔ بھلا ھدی سے تھوڑی نا ملنے آنا تھا اس نے۔
"جی اپنی ساس سے مل آیا ہوں"۔
'اللہ اکبر'۔ ھدی بڑبڑائی۔ ہھر کوئی بھی بات نا سوجھی تو نیچے جانے کے لیے آگے بڑھی۔
ہادی نے سرعت سے اپنا ہاتھ آگے کیا اور اسے روکا۔ پھر سنجیدگی سے بولا۔
"آرام سے یہاں کھڑی رہو۔ تم سے بات کرنے آیا ہوں، اور اجازت لے کر آیا ہوں۔۔۔ آج کوئی فرار نہیں"۔
ھدی نے حیران ہوتے ہوئے منہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
ہادی نے اسے ایکھا اسکی کالی آنکھوں میں بے تحاشہ حیرت تھی۔
"مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی؟" اس نے سیدھا مدعے کی بات کی۔
ھدی نے سر جھکا لیا۔
"جواب دو"۔ ہادی سنجیدہ تھا۔
ھدی نے نفی میں سر ہلایا۔
"پھر کس سے کرنی ہے؟ عاصم سے یا صائم سے؟"
اس کے الفاظ پر ھدی نے چونک کر سر اٹھایا اور چبا چبا کر بولی۔
"کسی سے بھی نہیں"۔
"لیکن مجھے تو کرنی ہے شادی۔۔۔ اور صرف تم سے ہی کرنی ہے"۔ ہادی نے نرم لہجے میں کہا۔
"اور تمہیں لگتا ہے کہ میں یہ شادی ایویں کر رہا ہوں یا ہمدردی میں کر رہا ہوں تو تمہیں غلط لگ رہا ہے"۔
وہ اظہارِ محبت کے کیا الفاظ گھر سے رٹ کر نکلا تھا اور اسکے سامنے کیا کہہ رہا تھا۔ احد ہوتا تو کہتا 'تف ہے تم پر ہادی'۔ لیکن ہادی کے دماغ میں اظہار کے لیے کئی اور طریقے اور وقت تھے۔۔۔فالحال اتنا کافی ہے۔
"میں اپنی پوری رضامندی سے تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ اور تم بیچ میں کوئی ٹانگ نہیں اڑاؤ گی"۔
"ہادی میں۔۔۔۔" ھدی کچھ بولنا چاہ رہی تھی۔ پھر وہی ڈائلاگ کہ مجھے شادی نہیں کرنی یہ وہ بلا بلا۔۔
"شش۔ ایک لفظ نہیں۔ تمہاری شادی مجھ سے ہی ہوگی۔ اور اگر تم آرام سے نا مانی ۔۔۔۔" اب کے اسکا لہجہ سخت ہوا وہ دو قدم آگے آیا۔
"تو ھدی بی بی! میں تمہیں یہاں سے اٹھا کر لے جاؤں گا۔ لیکن تب بھی مسز عبدل ہادی تم ہی بنو گی۔ سمجھی؟"
سیاہ آنکھیں حیرت سے پٹھی جا رہی تھیں۔
"اس لیے اب کوئی نوٹنکی مت کرنا، ہوں؟" نرمی سے کہتے ہوئے اسنے اسکا گال تھپکا۔
وہ کچھ نہیں بولی وہ تو بس حیران تھی بے حد۔۔۔
"۔۔Okay Pretty Lady, see you soon My Mrs to be"
وہ اس پر ایک مسکراتی نظر ڈالتا مڑ گیا۔ وہ فالحال رشتہ چاہتا تھا، محبت اور اس کا اظہار پینڑنگ کر کے وہ جا چکا تھا۔
دوسری طرف ھدی کا سکتا ٹوٹ چکا تھا۔ جو بھی تھا اسکی باتوں سے وہ اچھا محسوس کر رہی تھی ، پتا نہیں ہادی نے اس سے سچ کہا تھا یا صرف دل بہلایا تھا۔۔ لیکن بہرحال وہ انکار کرنے کا ارادہ ترک کر چکی تھی۔
اس رشتے کو کیسے نبھانا ہے یہ اس نے نہیں سوچا تھا، اس کے لیے یہی بہت تھا کہ صائم اور عاصم جیسے لوگوں سے اسے چھٹکارا مل رہا ہے۔ جو بھی تھا ہادی کو وہ جانتی تھی کہ وہ بہت اچھا ہے، وہ بس یہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ سے خوش ہے یا نہیں۔
-------
نارمل روٹین کی طرح وہ واپس خوشی سکول پہنچ گئی۔ رکوٹیں تو آتی ہیں زندگی میں، ان کے لیے رکا نہیں جاتا بلکہ راستے میں آئی رکاؤٹوں کو ایک طرف کیا جاتا ہے اور دوبارہ سفر شروع کر دیا جاتا ہے۔
اسے پتا چلا کہ صائم کی جگہ کوئی دوسری ٹیچر رکھ لی گئی ہے تو اسے سکون کا سانس آیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بڑے آرام سے اپنی کلاس لے کر باہر گراؤنڈ میں آئی اور بچوں کو کھیلتا دیکھ کر مسکرانے لگی۔
آفس میں بیٹھے ہادی کا فون بجنے لگا۔
"آج موسم سہانے۔۔۔جِیا نہیں مانے۔۔۔
تو چھُٹی لے آجا سونیا۔۔۔ہو"
احد کی شوخی سے بھرپور گنگناتی آواز سنائی دی۔ ہادی اسکا اشارہ سمجھ کے مسکرا دیا۔
"کیا کہہ رہے ہو؟" اس نے مسکراہٹ دبائی۔
"چل بے! زیادہ اداکاری نا کیا کر میرے سامنے۔۔کیا کہہ رہے ہو؟" احد نے اسکی نکل اتار کر اسے لتاڑا۔ ہادی ہنسا۔
"چل آجا۔۔۔ تیرا مِلن کرواؤں۔۔۔ پھر کہاں یہ مزہ آئے گا تجھے شادی کے بعد"۔ احد نے احسان کرنا ضروری سمجھا۔
کتنا مزا آئے گا جب ہادی اسے یہ بتائے گا کہ کل وہ اس سے ملنے گیا تھا۔ اف احد کو تو مرچیں لگ جائیں گی۔ "نمونے تیار ہوجا" ہادی نے سوچتے ہوئی بات شروع کی۔
"وہ احد۔۔۔ میں تمہیں بتانا بھول گیا۔۔۔"
"کل نا میں رات کو۔۔۔"
"تمہاری بہن کی طرف گیا۔۔"
وہ جان بوجھ کر وقفہ دے کر بول رہا تھا۔
"اور آپ کی پیاری سی بہن سے میں نے اکیلے میں ملاقات بھی کرلی۔۔۔۔۔"
"مِلن تو ہوگیا ہمارا سمجھو۔۔۔ تم اپنی خیر مناؤ اب۔ تھینکس آلوٹ"۔
جبکہ فون کی دوسری جانب چینختا ہوا احد جھنجھلاتا ہوا اس سے کہہ رہا تھا۔
"میسنے، لعنتی۔ گھنے۔۔۔۔ اداکار کہیں کے، ڈرامے باز۔۔۔۔ اکیلے اکیلے ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ چھپے رستم۔۔۔تیری تو۔۔۔۔۔" وہ بھڑاس نکالی جا رہا تھا اور ہادی کا آفس قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
"اچھا سن۔۔۔ آجا نکاح کی شاپنگ کرنے چلیں۔۔۔ میں نے تو کہہ دیا بھئی فوراً نکاح کرواؤ صبر نہیں ہوتا میرے سے"۔
"تیری تو ایسے کی تیسی۔۔۔۔"۔ احد کا بس نہیں چل رہا تھا وہ گلا دبا دے اس میسنے اداکار کا۔
---------
"امی جی آئیں تھی آج۔۔۔"۔ فاخرہ نے دادو کے بارے میں بتایا جب وہ سکول سے لوٹی۔
"اس جمعے نکاح کا کہہ رہی ہیں۔۔۔ جبکہ شادی حویلی میں جا کر ہی ہوگی"۔
وہ اسکا چہرہ دیکھتی کہہ رہی تھیں۔
"میں نے کہا جو آپ مناسب سمجھیں۔۔ ویسے بھی یہ نا ہو کہ عاصم کوئی پنگا کھڑا کر دے"۔ انہیں یہی خدشہ تھا۔ اس لیے وہ چاہتی تھیں جلد از جلد ھدی اپنے گھر کی ہوجائے۔ ھدی خود عاصم سے خار کھاتی تھی۔ اس لیے اسنے ماں کی ہاں میں ہاں ملائی۔
اور خاموشی سے سر جھکا لیا۔
جبکہ دل اچھل رہا تھا، اس شخص کا ساتھ اسے ملنا والا تھا جسے اسنے جب سے دیکھا تب سے چاہا تھا۔ "جمعے کو نکاح یعنی بس دو دن۔۔۔۔۔"
---------

دل کے دریچےOù les histoires vivent. Découvrez maintenant