DKD-Episode#08

1.9K 177 47
                                    

شام کا اندھیرا حویلی پر پھیل رہا تھا۔ لیکن بتیاں چلا دینے کی وجہ سے اندھیرا چھٹ گیا تھا اور اپنی ہی چلائی روشنیوں میں حویلی کی سفید دیواریں ڈوب گئیں۔
باہر سے دیکھو تو حویلی کی سفید دیواروں  پر کہیں کہیں گہرے سرخ رنگ کا ڈیزائن بنا ہوا تھا۔ گہرے ہی سرخ رنگ کے ستون جو اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرون رنگ دکھائی دیتا تھا، اوپر والے کمروں کے ساتھ جڑے ٹیرس بھی باہر سے دکھائی دیتے جن کی گولڈن گرل دھوپ میں چمکتی ہوئی نظر آتی۔
گولڈن ہی رنگ کی میٹل پلیٹ پر "احمد خان" لکھا ہوا تھا جو بڑے گیٹ کی دائیں جانب لگی تھی۔ یہ حویلی اپنی پوری شان اور وقار کے ساتھ کھڑی دور سے ہی خوبصورت نظر آتی تھی اور قریب آنے والے کو تو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی۔ یہ باہر سے جتنی خوبصورت تھی اندر سے اس سے کہی زیادہ خوبصورت اور سلیقے سے سجی تھی۔
گیٹ سے اندر داخل ہو تو بائیں جانب گراج بنا ہوا تھا جبکہ دائیں جانب وسیع لان تھا۔ کچھ کمروں کی کھڑکیوں سے لا صاف نظر آتا تھا۔
سامنے دیکھو تو پتھروں کی روش پر چلتے ہوئے اندر صحن کی طرف جاتے ہوئے ایک اور دروازہ تھا جو کھلا ہی رہتا تھا۔ نیچے باورچی خانہ، ڈائیننگ ہال اور لاؤنج تھا۔ جبکہ تھوڑا اور آگے جاؤ تو سیڑھیاں اوپر کی جانب جاتی دکھائی دیتی ۔
اوپر سب کے کمرے تھے۔ سارے کمرے بھی صاف ستھرے تھے اور ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ کہیں سے بھی یہ گاؤں  کی حویلی نہیں لگتی تھی ، یہاں ہر آسائش موجود تھی۔ اور چونکہ سب پڑھے لکھے تھے اور جوائینٹ فیملی سسٹم بھی تھا تو سب مل جل کر رہتے۔ ہاں یہاں اپنی مرضی کرنے کی سب کو اجازت تھی۔ وہ چاہے شہر میں رہیں یا گاؤں میں ان پر کوئی پابندی نہیں تھی۔

-------
شادی کا گھر ہونے کی وجہ سے سب رشتہ دار آچکے تھے۔ ہر طرف کوئی نا کوئی ادھر اُدھر جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ کوئی باورچی خانے میں لگا تھا تو کوئی حویلی گھوم رہا تھا تو کسی کے بازار کے چکر لگ رہے تھے۔
بچہ پارٹی لان میں جمع ہوئی تھی۔ گھاس پر شیٹ بچھائی گئی تھی اور ارد گرد کرسیاں بھی پڑی تھیں جس پر سب کزنز بیٹھے ہوئے تھے۔
عقیل اور عدیل ٹیرس پر کھڑے china lights کی لڑیاں تھامے انہیں گرِل کے گرد لپیٹ رہے تھے۔
"یہ کیا بات ہوئی، آپس میں باتیں کرنے لگے ہوئے ہو تم سب، کوئی رونق میلا ہی لگا لو"۔ عائشہ کے ابو ظہیر احمد باہر آئے تو انہیں آپس میں مگن دیکھ کر بول اٹھے۔
"ہاں بھئی، کوئی رونق ہوتی ہے، کوئی بنگھڑا ہوتا ہے"۔ علی جوش سے کہتے ہوئے میدان میں کود پڑا۔
"ہاں ہاں"۔ سب نے تائید کی۔
"چلو بھئی ڈھولکی لاؤ"۔ کسی نے آواز دی۔
"عدیل ذرا نیچے آنا ، تمہیں بجانا ہے"۔ سمیر نے اسکے موٹاپے کو نشانہ بنا کر کہا تو سب ہنسنے لگے۔ جبکہ وہ اوپر منہ بسورے کھڑا سمیر کو دے مارنے کے لیے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
کوئی بھاگ کر ڈھولک لے آیا ، جسے علی نے فوراً تھام کر بجانی شروع کی۔ عالیہ نے چمچ پکڑ کر ڈھولک پر بجانا شروع کردیا۔
باقی کزنز ان کے ارد گرد بیٹھ گئے اور تالیاں بجانے لگے۔
"عقیل گانا گاؤ یار، کیا خالی ڈھولکی ہی بجاتے رہنا ہے؟" علی نے لحظہ بھر کو ہاتھ روک کر اسکی طرف دیکھا تو وہ گلا کھنکھارتے ہوئے شروع ہوا۔
مہندی لگا کے رکھنا
ڈولی سجا کے رکھنا
اس کے گانے پر ایک لمحے کو علی نے منہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
"یہ کیا لڑکیوں والا گانا گا رہا ہے"۔ لیکن شاید شادی پر ایسے ہی گانے چلتے ہیں اسی لیے باقی سب اس کے ساتھ سر میں سُر ملانے لگے۔
لینے تجھے آ او گوری
آئینگے تیرے سجنا۔۔

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now