DKD-Episode#22

1.7K 134 48
                                    


"اسلام علیکم پریٹی وائف"۔ اس کی طرف مسکراتی نگاہ ڈالتا ہادی گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔
"وعلیکم السلام"۔ بڑی دھیمی سی آواز میں جواب آیا۔ ہادی نے سڑک پر سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا جو سر جھکا کر بیٹھ گئی تھی۔
"کیسی ہو؟" اسنے دوبارہ مخاطب کیا۔
"اچھی ہوں"۔ اسی طرح بیٹھے وہ بولی۔ نا سر اٹھایا، نا آواز اونچی کی۔
"جانتا ہوں۔۔" وہ بے ساختہ بولا۔ چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
"مجھ سے تو پوچھ لو میں کیسا ہوں؟"۔ اسے ویسے ہی بیٹھا دیکھ کر ہادی بولا۔
"کیسے ہیں آپ؟" وہ فوراً بولی۔
ہادی کو ہنسی آئی لیکن ضبط کر گیا۔
"ویسے تو میں بھی اچھا ہوں، لیکن کتنا اچھا ہوں یہ شادی کے بعد بتاؤں گا"۔
"اف۔۔" وہ بڑبڑائی۔ سخت گھبراہٹ ہورہی تھی ۔
ایویں کچھ الٹا نکل گیا منہ سے تو؟ ابھی تازہ تازہ تو نکاح ہوا ہے۔ ہے بھی پہلا! مجھے کیا پتا کیسی گفتگو کرتے ہیں شوہر سے۔۔۔ مسکراؤں یا کچھ کہوں؟ حد ہے ویسے ھدی بے وقوف کہیں کی۔
وہ خود کو ذہن میں ڈپٹ رہی تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر ہادی نے فون کو گاڑی کے بلوٹوتھ سے کنیکٹ کردیا۔
'دیکھا ہوگیا کام خراب۔۔۔ بھلا چپ کیوں بیٹھی ہوں تب سے۔۔ اب وہ گانے سننے لگے گے تو مجھ سے تھوڑی نا بات کریں گے۔۔۔'
سکرین پر love mashup لکھا دکھائی دیا اور گاڑی میں میوزک کی آواز سنائی دینے لگی۔
"تعریف ہی کردیتی ۔۔۔ کتنے اچھے لگ رہے ہیں رف حلیے میں بھی'۔ ھدی نے نظر اٹھا کر اسے غور سے دیکھا۔ ہادی بظاہر تو ڈرائونگ میں مصروف تھا لیکن اصل میں اسکا دھیان اسی کی طرف تھا۔
"میں تجھ کو کتنا چاہتا ہوں
یہ تو کبھی سوچ نا سکے۔۔۔"
کبھی کسی گانے کے الفاظ سنائی دیتے تو کبھی کسی دوسرے کے۔
ھدی ابھی تک اسے غور سے دیکھ رہی تھی شاید اسے لگا تھا کہ ہادی محسوس نہیں کرےگا۔ (ہونہہ بے وقوف، اداکار کو نہیں جانتی؟)
"او تیرے سنگ یاراں
خوش رنگ بہاراں۔۔۔"
اس دفعہ ہادی بھی ساتھ گنگنایا تو ھدی نے گانے کے بولوں پر دھیان دیا اسی وقت ہادی نے اسکی طرف دیکھا، وہ فوراً نظریں جھکا گئی۔
ہادی نے اسکی گرتی پلکوں کو نوٹ کیا اور دائیں ہاتھ سے سٹئیرنگ تھاما جبکہ دوسرا ہاتھ بڑھا کر ھدی کا ہاتھ تھاما اور دھیمی آواز میں گنگنایا۔
"اتنا تمہیں چاہنا ہے۔۔
نا سوچ سکو گے۔۔"
ھدی نے سر اٹھایا اور سیدھا اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ براؤن چمکتی آنکھیں اسی کی طرف متوجہ تھیں، سیاہ آنکھوں کے آگے پلکوں کی جھالر گری اور رخصار پر لالی پھیل گئی۔
ہادی یہ منظر دیکھ کر مبہوت ہوا اور مسکرایا۔ اپنی کہنی سائڈ کُشن پر رکھ کر اسنے ھدی نا ہاتھ اوپر اٹھایا اور لبوں سے لگایا۔ گاڑی کی رفتار وہ آہستہ کر چکا تھا۔
"I'm blessed to have you Pretty wifey, and I'll always love you, and will always care about you, and I'll be always be there to protect you. I'm all yours"
اب وہ اسکا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا رہا تھا۔
سیاہ آنکھیں حیرت و مسرت سے کھلی رہ گئی۔ اتنی محبت، اتنا مان۔۔۔ اور کیا چاہئے ہوتا ہے ایک لڑکی کو؟
محافظ؟ وہ اسے محفوظ رکھ رکہا تھا، اپنا نام اپنا ساتھ دے کر۔
پیسا دولت؟ نہیں وہ بس اسے خوش رکھے، اچھا کھلائے اچھا پلائے۔۔
اچھی سیرت و صورت؟ ہاں یہ تو بہت لوگ دیکھتے ہیں۔۔۔ ہادی کی صورت بلاشبہ بہت چھی تھی لیکن سیرت اس سے زیادہ حسین تھی۔
ھدی کی آنکھیں نم ہوئیں۔
اس سے اسکے بابا دور گئے تھے، اسے عاصم کا قریب آنا برا لگتا تھا، وہ صائم سے کی گھٹیا سوچ سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔۔۔
اسے اسکے اللہ نے اتنا خوبصورت تحفہ انعام میں دیا تھا۔ وہ ناشکری نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسکی آنکھیں نم ہورہی تھیں جنہیں اسنے جھپکا اور دھیمے سُروں میں بولی۔
"خوش قسمت تو میں ہوں کہ مجھے آپ کا ساتھ نصیب ہوا۔۔۔"
اس کی بات پر ہادی سرشار ہوگیا اور تہہِ دل سے مسکرایا۔
ابھی وہ کچھ کہتا کہ اسکا فون بجا۔ سارے "سین" کا "ڈراپ سین" احد صاحب کی کال کر چکی تھی۔
"کیا تکلیف ہے؟" ہادی نے دانت پیس کر کہا۔
"ہادی میاں، آپ کی دادو جان کا فرمان ہے کہ جو پانچ کلو میٹر پر ہوٹل آئے گا وہاں تشریف لے آئیں۔ تاکہ چائے پانی ہوجائے اور عصر کی نماز ادا کرلی جائے"۔
"اوہ۔۔"
"اسی لیے جہاں ہے وہی رک جا، میں ناصر کے ساتھ آرہا ہوں پیچھے سے، فوراً میٹینگ ختم کر اور گاڑی بدل۔۔۔ ورنہ تم تو گئے میاں"۔ احد بڑے مزے لے لے کر بول رہا تھا۔
ہادی نے منہ بنا کر کال کاٹی اور کار روکی۔
وہ کوئی الوداعی کلمات کہنے والا تھا کہ پیچھے ہارن بجا۔ اسنے مڑ کر دیکھا احد دوسری گاڑی سے اتر رہا تھا۔
"ڈیش کہیں کا۔۔۔ گاڑی ساتھ ساتھ رکھی ہوئی تھی جیسے میں بہن لے کر بھاگ رہا ہوں اس کی"۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
"نمونہ کہیں کا۔۔" اب کی بار وہ اونچا بولا۔
"نمونہ کون؟" ھدی نے چونک کر پوچھا۔
"یہ تمہارا بھائی اور کون۔۔"
"آپ بھی نمونہ بولتے ہیں انکو۔۔ مجھے لگا بس میں ہی کہتی ہو۔۔" وہ ہنس کر بولی۔ تبھی احد نے دروازہ کھولا۔
"چل ٹائم اوور۔۔۔" ہادی بنا کچھ کہے اتر گیا۔ اور احد کو گھورتے ہوئے پچھلی گاڑی میں چلا گیا۔
"کیا رہا پھر؟" احد نے بیٹھتے ہی پوچھا۔
ھدی کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔ احد نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔ "خیر ہے؟ لطیفے سنا کر گیا ہے کیا وہ؟"
"نمونہ۔۔۔ہاہاہا۔۔۔" وہ دوبارہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسے لگی تو احد کو ساری بات سمجھ آگئی۔
"اداکار تیری ایسی کی تیسی۔۔۔ اب میں سناؤں گا تیرے عاشقانہ قصے ، ہاہا مزہ آئے گا"۔ وہ خود کو باور کراتا گاڑی چلانے لگا جبکہ وہ ہنسی جارہی تھی۔
---------
چائے پینے کی غرض سے وہ ایک متوسط ڈھاپے کے باہر لگی کرسیوں اور چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔
چونکہ ہادی بھی وہی تھی اس لیے ھدی کو دادو نے چادر اوڑھنے کو کہا اور اسے سب کے کونے میں بٹھایا۔ جبکہ ہادی اس سے کافی دور احد کے ساتھ بیٹھا تھا جو چائے کا ہر گھونٹ بھرنے کے بعد ایک شعر عرض کرتا جا رہا تھا جیسے پرانے شاعر حقے کا کش لگا کر شعر ارشاد کرتے، بالکل ویسا انداز تھا اسکا۔
"کہہ رہا ہے بہار کا موسم
ہم سفر ہو تو کوئی تیرے جیسا"۔
اسنے 'موسم' پر خاصا زور دیا۔ ہادی اسکا مطلب اچھی طرح سمجھ رہا تھا اسی لیے چپ کرکے بیٹھا رہا۔

چڑیا پوری بھیگ چکی ہے
اور درخت بھی پتہ پتہ ٹپک رہا ہے
گھونسلہ کب کا بکھر چکا ہے
چڑیا پھر بھی چہک رہی ہے
انگ انگ سے بول رہی ہے
اس موسم میں بھیگتے رہنا اچھا لگتا ہے
(پروین شاکر)
"احد بھائی اتنی گرمی ہے اور آپ کہا خوشگوار موسم کے متعلق عرض کر رہے ہیں"۔ اسکے قریب بیٹھے ڈرائیور نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
"یہ دل کا موسم ہے دوست، جو بے انتہا خوشگوار ہے۔ تم نہیں سمجھو گے"۔ اسنے ہادی کو دیکھ کر آنکھ دبائی۔
یہ رم جھم ، یہ بارش، یہ آوارگی کا موسم
ہمارے بس میں ہوتا تو تیرے پاس چلے آتے
اب اسنے دور بیٹھی ھدی کی طرف آنکھوں سے اشارہ کیا۔
"ڈیش کہیں کے۔۔۔ ایک لفظ اور بولا تو تیرا رشتہ نہیں ہونے دوں گا"۔ ہادی نے اسے dose  دینا ضروری سمجھا اور رکھ کر ایک مکا جڑا۔
منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے وہ چائے پینے لگا۔ "اسی میں عافیت ہے احد بیٹا۔ کلہاڑی مت مارو پاؤں پر۔۔"
-----------
حویلی ویسی ہی تھی جیسے ایک مہینہ پہلے۔ ابھی وہ گاڑی سے اتری ہی تھی کہ گیٹ کے آگے اسے "چِٹی ککڑوں اور چٹی ککڑیوں کا گروہ" پہلے سے کھڑا دکھائی دیا۔
ثمرین،علینہ،عالیہ،علی ، عقیل، عدیل۔۔ سب موجود تھے۔ اتنی سپیڈ سے تو یہ فوج عائشہ کی شادی پر بھی نازل نا ہوئی تھی لیکن یہ تو ان سب کے چہیتے ہادی بھائی کی شادی کی بات تھی۔
شور و غل ، چھیڑ چھاڑ اور ڈھیر سارے پیار کے ساتھ وہ اندر آئے۔ ھدی کو اوپر کمرے میں پہنچا دیا جہاں لڑکیاں اسے گھیرے بیٹھے تھیں۔
"ارے ہمیں پہلے پتا ہوتا کہ ہادی بھائی کہ کیا ارادے ہیں ہم تمہیں ایک مہینہ پہلے ہی رکھ لیتے۔۔"
"اف کیا چوائیس ہے ہادی بھائی کی"۔۔۔ جواباً ھدی بس مسکرا دیتی۔
دوسری محفل میں ہادی کی شدید قسم کی کلاس لگ رہی تھی کہ "بھائی تم تو بڑے تیز نکلے"۔ لڑکے ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے۔
"ذرا سٹوری تو سناؤ ہمیں"۔
"چلو بتاؤ ذرا۔۔۔ کیا جلدی تھی"
اور وہ ہنس کر انکے مختصر جواب دیتا۔ احد کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ صحیح پھنسا ہے ککڑوں میں۔۔۔
کچھ دیر بعد ہادی کا فون بجا۔ میسج آیا تھا احد کا۔
"ہادی یار ایک مسئلہ ہوگیا ہے۔ باہر گیٹ پر عاصم کھڑا ہے اور بول رہا ہے مجھے عبدل ہادی نے بلایا ہے شادی پر۔۔
اور وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ جس سے اسکی شادی ہونی ہے وہ میری کزن ہے ، میں اسے لینے آیا ہوں۔۔۔"
میسج پڑھ کر ہادے کے سر پر دھماکا ہوا۔ "کیا بکواس ہے یہ۔۔"
وہ فوراً ان سب سے ایکسیوز کرتا کھڑا ہوا۔ تن فن کرتا گیٹ کی طرف بڑھا۔
احد کی کال آنے لگی جسے اسنے عجلت میں اٹھایا۔
"یہ آج میرے ہاتھوں ضائع ہوجائےگا۔۔۔ پولیس کو فون کرو، اسکی کُٹ لگا کر تھانے بھیجوں۔۔۔ فون رکھ اب۔۔۔" اس کی آواز میں غصہ صاف نظر آرہا تھا۔
"ہادی۔۔"
"آج نہیں بچے گا یہ۔۔"
"ہادی۔۔"
آستینیں فولڈ کرکے اسنے زور سے گیٹ کھولا ۔ اور سامنے دیکھا۔
------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now