DKD-Episode#05

1.9K 141 58
                                    

کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھول کر گہری سانس لیتے ہوئے وہ اندر آئی اور اطراف میں نظر دوڑائی۔ سب ویسا ہی تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر ویسے ہی موجود تھی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔

وہ چلتی ہوئی کمرے میں ایک طرف رکھی میز کی طرف بڑھی۔ میز کے پیچھے الماری میں کتابیں نفاست سے سجی تھیں۔ اور ان کتابوں کے درمیان موٹے کور والی ڈائری پڑی تھی۔ جو اس کے بابا بہت پہلے لکھتے تھے۔ ان کی عادت تھی وہ جو محسوس کرتے اسے الفاظ کے ذریعے ڈائری میں قید کرلیتے تھے۔

آہستہ سے ڈائری تھامے وہ وہی کرسی پر بیٹھ گئی۔ کچھ اوراق الٹائے ، کچھ صفحات پڑھتی گئی۔۔۔

"کچھ لوگ اس دنیا کی چکمتی چیزوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ پیسے اور طاقت کی طرف۔ کچھ لوگ ان معملوں میں پڑنے کی بجائے عشق کے پیروں تلے روندے جانے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔

کچھ لوگ ظاہری حسن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کچھ لوگ قدرتی مناظر کی طرف جو آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور اردگرد سے فنا کردیتے ہیں۔

اور کچھ خود کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں۔ اپنا نام خود بناتے ہیں، اپنے ہنر کو آزماتے ہیں ، دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے وہ اپنے بل بوتے پو خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں جی جان لگا دیتے ہیں۔

ایسے لوگ بہت آگے جاتے ہیں۔ اور اگر آگے نا بھی جائیں تو وہ خود کو ڈھونڈ چکے ہوتے ہیں اور یہ چیز بہت معنی رکھتی ہے۔ کہ آپ اپنے لیے خود کھڑے ہو۔

آپ کے قدم مضبوطی سے جمے ہوتے ہیں اور کوئی چاہے بھی تو آپ کو گِرا نہیں سکتا اور اگر بھی دے تو آپ اٹھنا سیکھ چکے ہوتے ہیں"۔

وہ ایک ایک لفظ غور سے پڑھ رہی تھی اور اپنے ذہن میں بیٹھا رہی تھی۔

ھدی! ناشتہ کرلو ۔ کالج کے لیے دیر ہورہی ہے"۔

وہ دروازہ کھول کر اندر آئیں۔ ان کی بات پر وہ مدھم سی آواز میں بولی اور اٹھ کر ڈائری واپس رکھی۔

"نہیں ماما آج کافی کام ہے ۔ کالج نہیں جا سکوں گی۔۔"

وہ جواب میں کچھ نا بولیں۔ وہ کوئی روک ٹوک نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنا اچھا برا سب خود سیکھے۔

تنخواہ نہیں آئی اس دفعہ؟" مہینہ گزرچکا تھا بلکہ ایک ہفتہ اوپر بھی ہوچکا تھا لیکن اسے کوئی تنخواہ نہیں ملی۔

نہیں، میں بھی یہی سوچ رہی تھی" ھدی نے مدھم آواز میں کہا۔

اصل میں اس دفعہ تمہارے تایا جان بھی نہیں آئے اور بل وغیرہ بھی بھرنے والے رہتے ہیں تو اس لیے پوچھا میں نے۔۔۔"
وہ ذرا ہچکچاکر بولیں۔ شاید وہ اسے پریشان کرنا یا اس پر بوجھ ڈالنا نہیں چاہتی تھیں۔

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now