صائم کی باتوں کو سوچتے ہوئے اسکے دماغ میں کئی سوال اٹھ رہے تھے۔
بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور کسی کو کسی سے محبت ہوگئی، اس کے بارے میں ظاہری حلیے کے علاوہ کچھ نا جانتے ہو اور محبت ہوجائے؟
بھلا یہ کوئی فلم، ڈرامہ یا کہانی ہے جو ایسا ہو؟
مان لیا کہ بھئی پسند نا پسند کیا جاسکتا ہے ایسی صورتحال میں لیکن محبت۔۔۔؟
'کیا اسے واقعی میں پسند ہوں؟ لیکن میں تو اسے پسند نہیں کرتی'۔
"پھر کسے پسند کرتی ہو"۔ خیالوں میں اگلا سوال جاگا جس کے جواب میں صرف ایک شخص مسکراتا ہوا اسے نظر آیا، جو اسکے سامنے کھڑا پھول لینے پر شکریہ ادا کر رہا تھا، پھر وہ اس سے کچھ کہہ رہا تھا، پھر وہ اس کی پلیٹ سے کھا رہا تھا۔
صائم ذہن سے غائب ہوچکا تھا اور وہ ایک شخص ہر طرف چھا چکا تھا۔
فون کی گھنٹی بجنے لگی تو وہ سوچوں سے باہر نکلی۔
"ثمرین کالنگ"۔
"اسلام علیکم" فون اٹھاتے ہی دوسری طرف سے چہکتی آواز سنائی دی۔
"وعلیکم السلام کیسی ہیں؟" وہ حال احوال پوچھنے لگی۔ پھر ھدی اسے بتانے لگی کہ وہ جاب کر رہی ہے اور کہاں کر رہی ہے۔
"ارے خوشی انسٹیوٹ؟ زبردست۔۔۔ میں نے بھی وہاں کچھ عرصہ کام کیا ہے، قسم سے دل ، کلیجہ ، پھیپڑے سب کو سکون مل جاتا ہے۔ وہ جگہ ہی بہت اچھی ہے"۔
"جی یہ تو صحیح کہا آپ نے۔۔"۔ اس نے ہنس کر تائید کی۔
"اور لوگوں کی بتاؤ، سٹاف کیسا لگا ؟ کوئی پریشانی تو نہیں؟" ثمی پوچھ رہی تھی۔ ھدی بے ساختہ بولی۔
"سب اچھا ہے "۔
"ارے وہاں وہ لڑکا آتا ہے ابھی؟ کیا نام تھا اسکا۔۔۔۔۔ہاں صوم صیم کچھ تھا"۔ وہ سوچتے ہوئی بول رہی تھی۔
"کون صائم؟ ہاں آتا ہے"۔
"اچھا مجھے لگا اتنی وارنِنگ دینے پر اب نکل چکا ہوگا۔ ایک نمبر کا لفنٹر ہے"۔
"ہیں کیوں؟" ھدی کو تجسس ہوا۔
"کیا بتاؤں میں جب وہاں تھی تو توبہ اتنا فرینک ہوتا تھا، اور ایک دن تو اس نے سیدھا مجھے پروپوز کردیا۔ میں تو سیدھا جا کر احد اور ہادی بھائی کو بتایا۔۔۔ پھر پتا چلا کہ یہ میٹھی چھری ہے۔
ہر لڑکی کو دیکھ کر میٹھے میٹھے لفظوں سے پھنساتا ہے۔ اس قسم کے لڑکے نا لڑکیوں کے ساتھ فقط ٹائم پاس کے لیے جھوٹ کو چینی میں ڈبو ڈبو کر جملے فرماتے ہیں۔"
ھدی غور سے سنتے سنتے یک دم ساکت ہوگئی۔
"اور کچھ لڑکیاں اتنی بے وقوف ہوتی ہیں ، کہ کوئی پیار سے پیش آجائے تو بس سمجھتی ہیں وہی سب کچھ ہے، وہ سچا ہے۔۔۔ بعد میں خسارا کر بیٹھتی ہیں اپنا۔ لیکن اب لوگوں کے چہروں پر تھوڑی لکھا ہوتا ہے کون کیسا ہے"۔
اسکا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ دل کو ٹھیس پہنچی تھی کہ وہ کسی کی غلیظ سوچ کا نشانہ بننے والی تھی۔
"اسنے مجھے بھی کہا تھا ایسے۔۔۔" ھدی نے دھیرے سے کہا تو ثمی حیران ہوئی پھر فوراً بولی۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے اس لفنٹر کی باتوں میں آنے کی۔ سیدھا منہ پر جواب دو اور کنارا کرو۔۔۔"
پھر گہرا سانس لے کر بولی۔ "ھدی ہم لڑکیاں اچھے سلوک کی ماری ہوتی ہیں۔۔ کوئی پیار پیار سے زہر بھی پلادے تو شربت سمجھ لیں گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی بھی غیر مرد کی پیار بھری باتوں کی خاطر خود کو ان کے قدموں میں یا اپنے گھر والوں کے قدموں میں رول کر رکھ دیں۔
اپنا معیار اتنا نہیں گرانا چاہئے، اللہ نے ہمارے لیے ایک بہت اچھا انعام لکھ کر رکھا ہے اگر ہم خود کو بچا کر رکھیں۔۔"۔
ثمرین دھیمے لہجے میں کہتی جا رہی تھی اسکی باتیں ھدی کے دل پر لگ رہیں تھی۔ نم آنکھوں سے اسنے سر ہلایا اور اپنے ذہن کو ہر فضول سوچ سے جھٹکا۔
----------
اگلے دن وہ پڑھا کر فارغ ہوئی تو سٹاف روم میں آئی۔ چھٹی ہو چکی تھی اور بچے گھر جا رہے تھے۔ مین روم میں میٹینگ ہورہی تھی جس میں ہادی، احد ، مہراب بیٹھے کچھ معاملات ڈسکس کر رہے تھے۔
صائم سے اسکا ابھی تک سامنا نا ہوا تھا۔ وہ اپنی کلاس میں ایک دفعہ گھر جانے سے پہلے دوبارہ گئی کہ سب جا چکے ہیں یا نہیں۔ کلاس سے ہوتے ہوئے وہ باقی کمروں کو دیکھنے لگی۔ کونے والے کمرے کی لائیٹ اور پنکھا بند کرتے ہوئے اسے اہنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی۔ مڑ کر دیکھا تو صائم نظر آیا۔
گھبراہٹ ھدی کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔ سیاہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، ہلکے گلابی رنگ کی شرٹ پہنے وہ دروازے سے کندھا ٹکائے اسے دیکھ رہا تھا۔
"کیا سوچا آپ نے ھدٰی جی؟" وہ مسکراتا ہوا زہر لگ رہا تھا۔
ھدی نے گہری سانس لے کر خود کو پرسکون کیا۔ پھر خود کو بولنے کے لیے کمپوز کیا۔
"آئی ایم سوری۔ میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں۔ آپ جا سکتے ہیں"۔
"واٹ؟" وہ ٹیک چھوڑ کر سیدھا ہوا۔
"کیوں؟ ھدی یار آئی لو یو۔ میرے ساتھ ایسا مت کرو، کیا میں اچھا نہیں ہوں؟" وہ جذباتی ہو رہا تھا۔ لیکن ھدی بالکل متاثر نا ہوئی۔
'وہ لفظوں سے کھیلنا جانتے ہیں،
وہ دلوں سے کھیلنا جانتے ہیں
سمجھتے ہیں جسے وہ فقط مذاق
اس مذاق کو اڑانا وہ جانتے ہیں'
"راستہ دو"۔ ھدی نے سنجیدگی سے کہا۔
"کیا ہوا یار اچھا نہیں لگا میں؟"
"راستے سے ہٹو"۔ اسکا لہجہ سخت ہوا۔ لیکن وہ نا جانتی تھی کہ جب وقت برا چل رہا ہو تب ساری تدبیریں الٹی پڑتی ہیں۔
اسکے سخت لہجے پر وہ بپھر کر آگے بڑھا۔
"کیا سمجھتی ہو تم خود کو؟"
"کوئی حور پری ہو۔۔۔ تمہاری ایسی کی تیسی۔۔۔۔صائم کو انکار کیا ہے تم نے۔۔۔" وہ ایک ایک قدم اٹھاتا اسکی طرف آرہا تھا۔ وہ ڈر کر پیچھے جا لگی۔ خوف سے اسکا چہرہ پیلا پڑ رہا تھا۔
'نہیں ھدی ، مقابلہ کرو۔۔۔'
صائم نے اسکا بازو پکڑنے کے لیے اسے تھاما ۔۔۔۔۔ لیکن ھدی نے فورا پوری قوت سے ٹانگ اسکی ٹانگ پر ماری۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوا، اسی ثنا میں وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے نکلی اور سٹاف روم میں گھس کر دروازہ بند کیا۔ کلاس روم خالی تھا۔ وہ تیز تیز سانس لیتی دروازہ لاک کرکے ایک طرف ہوکر کھڑی ہوگئی۔
'ھدی کچھ سوچو۔۔۔کچھ کرو۔۔۔' گھبراہٹ کے مارے اسکا برا حال تھا۔
"ہاں۔۔۔فون"۔ سٹاف روم میں پڑا ٹیلی فون اسنے اٹھایا۔ اسکے پاس اپنا فون بھی تھا لیکن اس وقت دماغ اتنا تیز کام نہیں کر رہا تھا۔ ٹیلی فون اٹھا کر اسنے ایک بٹن دبایا دوسری جانب مین روم میں پڑا فون بج اٹھا۔ جسے تیسری گھنٹی پر اٹھا لیا گیا۔
"ہیلو احد بھائی۔ وہ۔۔۔وہ صائم ہے نا۔۔" فون اٹھتے ہی بنا سوچے سمجھے بول پڑی۔ الفاظ منہ سے ادا نا ہو پارہے تھے۔
"وہ صائم۔۔" آنکھیں گیلی ہورہی تھیں اور خشک گلے کے ساتھ وہ جملہ پورا کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ کہے کیا۔
دوسری طرف فون بند ہوچکا تھا۔ کیا وہ سمجھ چکا تھا؟ یا نہیں؟ یا اللہ۔۔۔
لیکن دوسری طرف شاید وہ اس کے لہجے سے سب سمجھ چکا تھا۔
--------
کچھ دیر وہ بند آنکھوں سے بیٹھی رہی۔ پھر اسے باہر کچھ شور کی آواز آئی۔۔۔ شور بڑھتے بڑھتے یک دم ، دم توڑ گیا۔ وہ اندر چپکی بیٹھی رہی۔
گھر بھی جانا تھا۔۔۔۔ وہ دروازہ کھول کر باکر نکلی۔ کہیں کوئی ذی روح نا تھی۔
"اللہ اکبر۔۔۔ اندھیرا ہوگیا اتنا۔۔کیا ضرورت تھی اتنی دیر بیٹھے رہنے کی وہاں"۔ خود کو کوستی وہ باہر نکلی۔ 'اللہ جی گھر کیسے جاؤں بس تو مِس ہوگئی'۔
فون نکال کر دیکھا تو ماما کی دو مِسڈ کال تھیں، میسج کیا 'دیر ہوگئی، بس آرہی ہوں'
پھر احد کا کال ملائی۔ "آپ کہاں ہیں؟"
"یار میں ذرا اسپتال جا رہا ہوں"۔ اسکی مصروف سی آواز سنائی۔
"کیوں کیا ہوا؟"
"گھر جانا تھا۔" ھدی نے مایوسی سے کہا۔
"تم وہی ہو ابھی تک؟" احد نے حیرانی سے پوچھا۔ پھر چپ ہوگیا۔
"آپ ہاسپٹل کیوں جارہے ہیں سب ٹھیک ہے؟"
"صائم کی حالت بہت خراب ہے، اسے لے کر جارہا ہوں۔۔۔ تم رکو میں ہادی سے کہتا ہوں" وہ عجلت میں لگتا تھا، کچھ پریشان بھی تھا۔ پیچھے گاڑیوں کا شور تھا، شاید وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد ہادی اس کے سامنے آیا۔
"آئیں آپ کو چھوڑ آؤ"۔ وہ سنجیدگی سے کہتا فوراً آگے بڑھ گیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔
ھدی شکر کرتی ساتھ بیٹھ گئی۔ وہ بالکل خاموش بیٹھا ڈرائیو کر رہا تھا۔ ھدی نے ایک نظر اسے دیکھنا چاہا تو رخ اسکی طرف موڑا ۔ پھر حیرت سے اسکا منہ کھل گیا۔
"یہ۔۔آپ کی۔۔۔" اس کے چہرے پر دو جگہ چھوٹا سا زخم تھا، جن میں سے ہلکا سا خون رس رہا تھا۔
"گھر آگیا۔ اتریں۔۔۔" وہ سامنے دیکھتے ہوئے اسی سنجیدگی سے بولا۔ وہ اسے آنکھیں پھاڑے دیکھتی رہی۔
ہادی نے اپنا ہاتھ ہارن پر رکھا تو ساری گلی گونج اٹھی۔ اسکا مطلب تھا گاڑی سے اترو۔
ھدی گڑبڑا کر اتری اور وہ گاڑی زن سے آگے بھگا لے گیا۔
--------
وہ گھر میں داخل ہوئی تو ماں کو دیکھا جو کچھ پریشان سی لگ رہی تھیں۔
"آگئی تم۔۔۔شکر ہے آج دیر سے آئی ہو"۔
اسے دیکھتے ہی انہوں نے کہا۔
"کیا ہوا؟ خیریت؟"
"اندر آجاؤ۔۔۔" جواب دینے کی بجائے وہ اسے اندر لے آئیں۔ لاؤنج میں میز پر کھانے پینے کی لوازمات دیکھ کر وہ رکی۔
"کوئی آیا تھا کیا۔۔۔؟"
" ہاں تمہارے تایا تائی آئے تھے۔۔ " پھر اسکا چہرہ دیکھا اور ہمت کرکے دوبارہ بولیں۔
"عاصم کے لیے تمہیں مانگنے۔۔۔"۔
کائنات گھومتی ہوئی محسوس ہونا کیا ہوتا ہے۔۔۔وہ اس وقت کوئی ھدی سے پوچھتا۔۔
اس کا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ پھر وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔
"نہیں ماما نہیں۔۔۔"
"ماما وہ اچھے نہیں ہیں۔۔۔"
"ماما نہیں کرنی مجھے یہ شادی۔۔۔۔"
وہ رونے لگی۔ پھر پھوٹ پھوٹ کر روتی وہ اپنے کمرے میں چلے گئی اور بیڈ پر گِر گئی۔ آنسوؤں سے اسکے گال بھیگ رہے تھے۔
"اللہ پلیز اتنا برا نا ہونے دینا میرے ساتھ"۔
فاخرہ خود بھیگی آنکھوں کے ساتھ پریشان بیٹھی تھیں۔ وہ اپنے ہاتھوں سے کیسے اپنی بیٹی کو تباہ کرتیں۔۔۔۔ پھر کچھ سوچ کر وہ اٹھیں اور ساتھ والے گھر پہنچ گئیں۔-------
YOU ARE READING
دل کے دریچے
General FictionRanked#1 . A romantic/social story. episodes will be coming weekly. it is a story of a girl huda , who goes throw different phases of life. A story of friendship (Hadi & Ahad) , A story of family relation and a story love..