DKD-Episode#14

1.7K 129 36
                                    

آج لڑکی والے بغیر کسی ٹینشن کے گھوم رہے تھے۔
کیونکہ ولیمے کا دن تھا تو کوئی کام ان کے ذمہ نہیں لگایا گیا تھا۔ ولیمے کی مناسبت کے لحاظ سے ہال کی تھیم لائیٹ کلرز رکھی گئی تھی۔
لڑکیاں آج بھی خوب دل لگا کر تیار ہوئی تھی۔ سفید سادے شراراوں پر سفید موتیوں سے کام کی ہوئی قمیضیں اور ساتھ میں چم چم کرتا رنگ دار ڈوپٹہ۔
ھدی نے شرارے کے ساتھ پیچ کلر کا ڈوپٹہ لیا ہوا تھا اور بال سٹریٹ کرکے کھُلے چھوڑے ہوئے تھے۔
ثمرین نے اسی طرح کے شرارے کے ساتھ جامنی رنگ کا ڈوپٹہ لیا ہوا تھا اور ڈائی کیے ہوئے بالوں کا ہئر سٹائیل بنایا ہوا تھا۔
"یہ ساری تو چِٹّی کُکڑیاں لگ رہی ہیں آج "۔
عدیل کے کہنے پر چٹے ککڑوں کے گروہ نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہے لگائے۔
انہوں نے گہرے نیلے کنٹراسٹ کے پینٹ اور ویسٹ کوٹ پہن رکھے تھے جبکہ اندر وائٹ شرٹس زیب تن تھی۔ ٹائی کی بجائے گلے میں 'بو' لگا رکھی تھی۔
چونکہ آج وہ مہمان تھے تو آرام سے گول میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
"یار شکر ہے آج ہم کھانا تو آرام سے بیٹھ کر کھائیں گے"۔ عدیل کو سب سے زیادہ خوشی اسی بات کی تھی۔
"ہاں ورنہ دوسروں کو کھاتا دیکھ کر ان سے یہ پوچھنا کہ 'کچھ چاہئے تو نہیں؟' اپنے منہ میں پانی جمع ہوجاتا ہے"۔ عقیل نے بھی ہامی بھری۔
"موٹے۔۔۔ تمہیں بس کھانے کی پڑی رہتی ہے۔۔۔" کسی دوسرے نے عدیل کو لتاڑا۔
"اوئے لڑکے والوں کے رشتہ داروں میں پیاری پیاری لڑکیاں ہیں، مہذب بن کر بیٹھو۔۔۔ تھوڑا شو آف کرو۔۔۔"۔ علی نے دھیمی آواز میں آگے جھک کر سب سے کہا۔
"صحیح کہہ رہے ہو یار۔۔" وہ سب فوراً سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ کوئی بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تو کوئی سیٹی بجاتا ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
"لوفریاں مت کرو۔۔۔"۔ بلو پینٹ اور وائٹ شرٹ پر بو لگائے بازو پر کوٹ لٹکائے ہادی جو کسی مہمان سے مل کر ان کے پاس آکھڑا ہوا تھا ، ذرا سا جھک کر انہیں ڈپٹ دیا۔
"یار ہادی بھائی۔۔۔" عقیل نے اعتراض کرنا چاہا۔
"بہن کا سُسرال ہے۔۔۔ کہیں اور کرلینا یہ لوفری"۔ اس کے کہنے پر ایک دو نے منہ بنائے جبکہ باقی آرام سے بیٹھ گئے کہ بات صحیح کر رہا تھا وہ۔
ہلکا سا کھنکار کر احد نے اسے متوجہ کیا۔
"اچھا جی اور خود جو آپ ہماری بہن کے ساتھ کر رہے ہیں دو دن سے؟" ہادی کے مقابلے میں اسنے لائٹ بلو کلر پہن رکھا تھا۔ باقی ہیر سٹائل دونوں کا سیم تھا۔
"تو میں کوئی لوفری کر رہا تھا کیا؟" ہادی نے حیران ہوکر پوچھا۔
"نہیں نہیں آپ تو قومی ترانہ پڑھ رہے تھے"۔ احد سادہ سے انداز میں مسکرایا۔
"نمونے۔۔۔۔" ہادی چینخا۔ احد ہنسنے لگا۔
"اس تبدیلی کی وجہ؟" احد نے نوٹ کیا کہ وہ عام انداز میں اسے آتا جاتا مخاطب کرکے بات کرلیتا، جیسے باقی کزن کے ساتھ فرینک تھا ویسے ہی اسکے ساتھ سلوک کرتا۔
ھدی پہلے تو حیران ہوئی تھی لیکن ہھر نارمل انداز میں بات کرلیتی ۔
"یار میں نے سوچا تھوڑی بہت انڈر سٹینڈنگ بحال کی جائے"۔
"جی جی بالکل۔۔۔" احد اسے چھیڑنے کے لیے مسکرائی جا رہا تھا۔
"ہاں۔۔ اور ویسے بھی اتنا چپ رہنا اچھا نہیں ہوتا، تم نے ہی تو کہا تھا"۔ اس نے سارا ملبا احد پر ڈال دیا۔ اب یہ کہتے ہوئے اچھا لگتا کہ 'میرا دل چاہ رہا تھا بات کرنے کو' ۔
"جی جی بالکل۔۔" احد ویسے ہی مسکراتا اسے دیکھتا رہا۔
"اے نمونے۔۔۔۔ اس طرح مسکرانا بند کرو"۔ ہادی نے اسے مُکّا دیکھایا۔ اور وہ احد ہی کیا جو باز آجائے۔
"اے اداکار۔۔۔ڈرامے کم کیا کرو۔۔۔ میں نے یہ سوچا۔۔ میں نے وہ سوچا۔۔ سیدھا سیدھا بول دل میں کیا ہے"۔ احد نے اسکی نقل اتاری۔
"ہاں کرتا ہوں بات۔۔۔ کوئی مسئلہ؟"
"کیوں کرتے ہو؟"
"کیونکہ۔۔۔میری مرضی۔۔"۔ ہادی نے بات مکمل کرکے کوٹ جھاڑا اور آگے بڑھ گیا۔ پیچھے احد کا جاندار قہقہہ گونجا۔ ہادی بِنا پلٹے مسکرادیا۔
------
شادی ختم ہوچکی تھی۔ کافی مہمان جا چکے تھے۔ احد ہادی اور باقی لڑکوں کی وجہ سے کچھ دن یہی رک گیا تھا۔ ھدٰی دادو وغیرہ کے ساتھ واپس جا چکی تھی۔ عائشہ بھی ولیمہ کے اگلے روز شہروز کے ساتھ شہر والے گھر شفٹ ہوگئی۔ کیونکہ ان کی فیملی وہی رہائش پذیر تھی۔
ثمرین کچھ دیر میں نکلنے والی تھی۔ اس کے فون کی بیپ بجی تو اسنے فون اٹھا کر دیکھا احد کا میسج تھا۔
"انارکلی کو ناگوار نا گزرے تو اس شہزادے کو آداب کرنے چھت پر آجائیں"۔
وہ مسکراتی ہوئی اوپر آگئی۔ دھوپ کی وجہ سے چھت تپ رہی تھی۔ وہ تھوڑا آگے آئی تو اسے دیکھا جو گرمی میں گرِل پر ہاتھ جمائے نیچے دیکھ رہا تھا۔
"اہم اہم۔۔" ثمرین کھنکاری۔
"زہے نصیب۔۔" ہاتھ ہٹا کر وہ سیدھا کھڑا ہوا اور مسکرایا۔ بلیک ٹراؤزر پر سادہ گرے ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔
"کیوں بُلایا ہے؟" ثمرین نے دھوپ کے باعث آنکھیں سکیڑ کر کہا۔
"ایک وعدہ لینے کے لیے۔۔" احد نے اسے سیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"کیسا وعدہ؟"
"اچھا ویسے تم مجھے مِس مت کرنا۔ فون کرلیا کرنا"۔ اس نے فوراً دوسری بات کی۔
"ہونہہ میں کیوں کروں مِس؟کوئی کال وال نہیں کروں گی۔۔۔"
"اوکے میں کرلوں گا۔۔"
"احد کیا وعدہ کرنا تھا آپ کو؟" ثمرین نے نیچے اپنے ابو کو گاڑی کی طرف جاتے دیکھا تو بولی۔
"میسج بھی کر لیا کرنا کوئی بات نہیں اوکے؟ میں جواب دے دیا کروں گا۔۔" وہ اسی طرح لگا ہوا تھا۔
"احد۔۔۔" ثمرین چینخی۔ "کیا مسئلہ ہے؟"
وہ ایک لمحے کو سنجیدہ ہوا۔ "ثمرین۔۔۔"
"جی؟"
"اائی وِل مِس یو سو مچ"۔
"می ٹو۔۔۔" اس نے بہت آہستہ سے کہا کہ خود اسے بھی اپنی آواز سنائی نا دی۔
"وعدہ کرو کہ مجھے یاد رکھو گی۔۔۔" وہ اب بھی سنجیدہ تھا۔
"میں بھولی ہی کب ہوں آپ کو۔۔"
"بس پھر جلدی سے فارغ ہوجاؤ۔۔میں زیادہ دیر کنوارہ نہیں رہنا چاہتا"۔ وہ اپنے ازلی روپ میں لوٹ آیا اور مسکرانے لگا۔ ثمرین بنا کچھ بولی مسکرادی۔
تبھی اسکا فون بجا۔ "ابو کالنگ۔۔"
"چلتی ہوں"۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔ "اللہ حافظ" اور پلٹ گئی۔
"اپنا خیال رکھنا، دل والے دلہنیا لینے آجائینگے"۔ احد نے پیچھے سے آواز لگائی۔
"آپ بھی ٹیک کئیر۔۔۔" وہ ہنستے ہوئی سیڑھیاں اتر گئی۔
--------
(ایک ہفتہ پہلے۔۔۔

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now