DKD-Episode#16

1.7K 132 47
                                    

اس جگہ کا تفصیلی جائزہ لے کر اسے پتہ چلا کہ وہ بس سکول نہیں ہے، وہ ان بچوں کے لیے ایک سکول سے بہت زیادہ ہے۔ چھوٹے بڑے ہر عمر کے بچے موجود تھے۔ یہاں مفت تعلیم کے علاوہ دینی تعلیم بھی دی جاتی تھی، اخلاقیات پر لیکچرز دیے جاتے تھے، اس دنیا میں کیسے رہنا ہے اس پر بھی لیکچر دیے جاتے تھے ، بچوں کے چھپے ہنر کو ڈھونڈ کر باہر نکالا جاتا اور انہیں آگے بڑھنے کی تلقین کی جاتی، اسی طرح کی کئی ایکسٹرا ایکٹیویٹیز ہوتی تھیں۔
ایک کمپنی کے ساتھ کھانے کا کانٹریکٹ بھی کیا ہوا تھا جو یہاں مفت کھانا بھی فراہم کرتی تھی۔ یہاں ہر کام کرنے والے کو تنخواہ بھی دی جاتی تھی۔ کچھ پیسے وہ دوست لگاتے تھے جبکہ دیگر کئی ادارے بھی فنڈز اور دیگر اشیاء مہیا کرتے تھے۔
احد نے اسے ساری تفصیلات دے دی تو ایک کمرے کے آگے آکر رک گیا۔
"اب تم اپنا انٹرویو دو۔۔ اور جاب سلیکٹ کرو کہ تم کیا کرنا چاہتی ہو"۔
ھدی کو کمرے کی طرف اشارہ کرکے وہ باہر چلا گیا۔ وہ ایک دو لمحے کھڑی سوچتی رہی کہ اسے کیا کرنا ہے۔ پھر آگے بڑھ کر دروازہ ناک کیا۔
"کم اِن"۔ اندر سے بھاری آواز ابھری۔ وہ اندر داخل ہوئی۔ سامنے دو افراد کچھ فائل پر جھکے بیٹھے تھے۔ ایک ہادی تھا اور دوسرا کوئی انجان تھا۔
"جی؟" دوسرے شخص نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"یہ احد کی سِسٹر ہیں۔ جاب کے لیے اپلائی کرنے آئی ہیں"۔ ہادی نے اسے دیکھ کر پاس بیٹھے دوست سے کہا جس کا اس سکول میں بڑا ہاتھ تھا۔
"اوہ، آجائیں آپ کا انٹرویو لے لوں۔ ہادی تم فائل مہراب بھائی کو دے آؤ"۔ چونکہ وہ ہادی کی غیر موجودگی میں بھی یہیں ہوتا تھا تو سارے انٹرویو اور معملات وہ نپٹاتا تھا۔ اب اس بیچارے کو تھوڑی نا پتا تھا کہ ہادی صاحب آج آفس جانے کے بجائے سکول میں کیوں بیٹھے ہیں؟
اسے تھوڑی نا پتا تھا کہ کسی کا انٹرویو لینے کے لیے ہادی صاحب مین روم میں بیٹھے ہیں کب سے؟
بیچارا۔
وہ مسکین سی شکل بنا کر بالوں میں ہاتھ پھیر کر کھڑا ہوا۔ ایک نظر ھدی کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی، اسکے دیکھنے پر نظروں کا زاویہ فوراً بدلا۔ وہ باہر نکل گیا اور پہلا ٹاکرا احد سے ہوا۔ احد نے اچنبے سے اسے باہر کھڑا دیکھا پھر آدھے کھلے دروازے سے اندر دیکھا۔
اگلے ہی لمحے اسکے فلک شگاف قہقہے نِچلی منزل میں گونجنے لگے۔ وہ ہنس ہنس کر دوہرا ہورہا تھا۔
ہادی اسے کھینچتا ہوا باہر ک طرف لے آیا ۔ وہ اب بھی ہنسی جارہا تھا۔
"کیا تکلیف ہورہی ہے؟" ہادی نے دانت پیس کر پوچھا۔
بمشکل ہنسی روک کر اس نے کہا۔
"دلِ مضطرب کو پھر بے قراری نے آگھیرا
وہ آئے تو صنم، لیکن ملے ہرگز نہیں۔۔۔ "
یہ اسکا اپنا تازہ بنایا ہوا شعر جسے "فرما" کر وہ ہنسنے لگا۔ ہادی اسے سینے پر ہاتھ باندھ کر گھورنے لگا۔ اسکا بس چلتا تو ایک آدھ لگا دیتا لیکن جگہ کے خیال سے رک گیا۔
احد کی ہنسی کو بریک لگے جب وہ گیٹ کی طرف بڑھا۔ "ارے کدھر۔۔؟"
"جا رہا ہوں میں ، تماری طرح ویلا نہیں ہوں۔۔" اسنے چبا چبا کر بولا۔ پھر چونک کر سر اٹھایا اور اسے گھور کر دیکھا۔
"کہیں تم نے تو اسلم کو نہیں کہا کہ انٹرویو لو؟"
"اللہ اکبر حد ہے ویسے میں کیوں کہوں گا؟" احد اس الزام پر تڑپ اٹھا تھا۔ پھر دوبارہ مسکرایا۔
"چچ چچ۔۔۔ تو تم اس لیے دیوداس بنے گھوم رہے ہو کہ پارو سے بات نہیں ہوئی؟" احد نے دوبارہ اسے چھیڑا۔
"تیری ایسی کی تیسی۔۔۔" وہ مُڑ احد کو دبوچنے لگا لیکن وہ فوراً بھاگا۔
"بہن تم نے میری ہی لینی ہے۔ تجھے پوچھ لوں گا سالے ۔۔۔۔ میرے۔۔۔۔"۔ ہادی نے پیچھے سے آکر اسے گردن سے پکڑا اور کان میں چینخ کر کہا اور جھٹک کر احد کو آزاد کیا۔
------------
اسے چھوٹی کلاسز پڑھانے کے لیے رکھ لیا گیا تھا۔ ٹائمنگ دو سے پانچ بجے کی تھی۔ اور اسکی سیکری بھی کام کے لحاظ سے مناسب تھی۔
لیکن اسنے ایک ایکسٹرا ایکٹویٹی اپنی خوشی سے کرنا چاہی جس کے لیے اسے مثبت جواب ملا۔ وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ ایکٹویٹی ائریا میں جو دل چاہے ہو کر سکتی تھی، خواہ وہ کھیلے، لیکچر دے، یا باتیں کرے۔۔۔یہ اسکی مرضی تھی۔ اور جب اس ایکسٹرا ایکٹیویٹی کی تنخواہ کی بات کی گئی تو اسنے انکار کردیا کہ یہ وہ اپنی خوشی سے کر رہی ہے۔
کسی کی رہنمائی کرکے ہم اسکی کتنی مدد کر سکتے ہیں۔ جو ہم جانتے ہیں وہ دوسروں کو بتا کر انکا بھلا کر سکتے ہیں۔ کسی کے چہرے سے اداسی جذب کرکے مسکراہٹ لا سکتے ہیں۔
یہ قدم اسنے احد اور ثمرین سے متاثر ہوکر اٹھایا تھا۔
-------
ہیلو جی؟! کیسی ہو؟" عاصم یک دم اسکے آگے آیا۔  وہ کچن سے نکل رہی تھی سامنے کھڑے عاصم کو دیکھ کر ٹھٹک کر فوراً رکی ورنہ ٹکر ہوجاتی۔
"جی ٹھیک ہوں۔۔" اس نے نظریں جھکائی رکھیں۔
"آج تو بہت۔۔۔" وہ اس کے حلیے پر نظر کر ڈال تعریفی جملہ کہنے ہی والا تھا کہ فاخرہ آگئی۔
"چلو ہم تیار ہیں۔۔۔چلیں۔۔" ان کے کہنے پر وہ سر ہلا کر ھدی کو دیکھتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹا۔ ھدی شکر ادا کرتی ڈوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے ماں کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔
گاڑے میں جاتے ہوئے بھی عاصم کی نظریں بیک ویو مِرر سے اسے گاہے بگاہے دیکھتا رہا۔ اور دل ہی دل میں اپنے ارادوں کو مزید پختہ کیا۔
ان کے گھر میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔ عاصم تو گویا وہیں ٹک کر بیٹھ گیا تھا۔ ہر بات پر ھدی کو مخاطب کرتا ، کھانے کی میز پر اسکے ساتھ بیٹھ کر کھانا پلیٹ میں ڈالتا رہا۔۔۔ وہ خاموش اور گھبرائی سی فاخرہ کے ساتھ لگی بیٹھی رہی۔ فاخرہ نے بھی عاصم کی حرکتیں محسوس کیں اور جلد ہی کہہ دیا کہ "بھائی صاحب میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں، ہم چلتے ہیں"۔ انہوں نے جان بوجھ کر یہ بات تایا ابو سے کہی کیونکہ عاصم نے ضرور ٹانگ اڑانی تھی۔
اور بات تو وہاں کرنی چاہئے جہاں آپ کو لگے کے بات کا اثر اس شخص پر ہوگا۔
عاصم انہیں واپس چھوڑ گیا تو گھر کا دروازہ بند کرکے انہوں نے سکون کا سانس لیا۔
--------
ھدی بے حد خوشی خوشی اس جگہ کام کر رہی تھی۔ چھوٹے چھوٹے صاف دل کے بچوں کو روز زندگی کے جگنو دکھانا، ان کے زنگ لگے ذہنوں کو صاف کرکے اس میں علم کا سامان لادنا، ان دنیا سے دور رہتے بچوں کو دنیا کی طرف لانا۔۔۔ یہ سب کرنا اسے دل سے بے تہاشا سکون دے رہا تھا۔
یہاں جان کرتے اسے دو مہینے ہو چلے تھے اور وہ اس عرصے میں وہ اپنے امتحان سے فارغ ہوچکی تھی اور بے فکر ہوکر زندگی بسر کر رہی تھی۔ نا راتوں کو جاگ کر پڑھنا پڑتا تھا نا صبح سویرے اٹھ کر دہرائی کرنی پڑتی تھی۔
عاصم کبھی فون کھڑکا دیتا تو کبھی گھر میں خود آدمکتا۔ ھدی کو تو اس سے چِڑ ہونے لگی تھی۔ "اللہ اکبر! حد ہے ویسے۔۔۔۔ کس طرح گھور گھور کر دیکھتے ہیں، گندی نظریں"۔
غصے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اسنے سوچا۔ فاخرہ خود خیال کرتیں کہ جب بھی عاصم آئے تو وہ ھدی کے قریب ہی ہوں۔
احد ہفتے میں ایک آدھ دفعہ سکول کا چکر لگاتا جبکہ ہادی ہر دوسرے دن آجاتا تھا۔ اس کی بس سلام دعا ہی ہوتی تھی کہ وہ کام میں مصروف ہوتی تھی۔
اب اسکو تھوڑی نا معلوم تھا کہ کوئی من چاہے کو دیکھ لینے پر ہی کتنا خوش ہوجاتا ہے؟

یہاں پر اسکی کئی لوگوں سے ہائے ہیلو ہوگئی تھی۔ ایک لڑکا تھا بڑا ہنس مکھ سا، رطب السان ، اور بات بات پر قہقہے لگانا اسکی فطرت تھی۔ دوسروں کی تعریفیں کرنا اور اپنی تعریفیں کروانا اسے بہت اچھے سے آتا تھا۔ صائم۔۔۔بائس تئیس سال کا نوجوان۔۔
ھدی کے ساتھ تو وہ بہت فری ہوتا تھا۔ بات بات پر کوئی لطیفہ سناتا تو ھدی ہنسنے لگتی۔ پھر وہ کہتا آپ ہنستے ہوئی بہت اچھی لگتی ہیں تو وہ جھینپ جاتی۔
ایک دن ہادی نیچے والے فلور کا راؤنڈ لگا رہا تھا تو اسے ھدی کی کلاس میں ٹیبل پر بے تکلفی سے بیٹھے دیکھا۔ وہ کلاس میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر صائم فوراً سیدھا ہوا۔ ہادی نے اسے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ سر کھجاتا کلاس سے باہر نکل گیا۔
وہ ھدی کی طرف مڑا۔
"ھدی بی بی! انسان کے چہروں پر نہیں لکھا ہوتا کہ وہ کیسا ہے اور نا ہی یہ لکھا ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔۔۔ اس لیے احتیاط برتیں۔۔"۔ اسکا لہجہ سنجیدہ تھا۔ انہی سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ مُڑ گیا تو وہ شرمندہ ہوگئی۔
--------
"عاصم۔۔۔ یہ دیوار کا پینٹ دیکھو کتنا خراب ہورہا ہے۔ کلی کروادو۔۔ گھر تو پہلے اتنا اچھا نہیں ہے ہمارا اوپر سے یہ اُجڑی دیواریں سونے پر سہاگا ہیں"۔ تائی ماں مٹر چھیلتے ہوئے اسے کہہ رہی تھیں۔
"خیر ہے ماں۔۔ جلد گھر بھی آجائے وہ بھی فرنِشڈ(سجا ہوا)"۔ ٹی وی چینل بدلتے عاصم نے لا پروائی سے کہا۔
"گھر کیا تمہاری بیگم جہیز میں لائے گی؟ ہونہہ بات کرتے ہو!" طنز کا تیر پھینک کر انہوں نے سر جھٹکا۔
"ہاں ساتھ لائے گی"۔ اسی انداز میں جواب آیا۔
"آج کل نہیں آتی ایسی لڑکیاں۔۔ جو اچھی بھی ہو اور جہیز بھی اچھا لائے"۔
"ماں۔۔۔اگر میں ایسی ہی لا کر دکھا دوں تو؟" اس نے رخ موڑا اور ماں کو دیکھا۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
"ہیں کیسے لائے گا؟ کیا ہے کوئی ایسی؟" مٹر چھیلتے ہاتھ حیرانی سے رک گئے۔
"ہاں اچھی بھی ہے، اور گھر بھی لائے گی، تمہارے سارے کام بھی کرے گی"۔ اسکا لہجہ مضبوط تھا۔
"ہائے سچی؟" اندر لالچ انگڑائی لے کر اٹھا تو انہوں نے پوچھا۔
"تم ابا سے بات کرو۔۔۔ اسی سنڈے رشتہ لینے چلتے ہیں"۔ عاصم ٹی وہ ریموٹ چھوڑ کر ان کے سامنے آ بیٹھا۔
------
"آئی لو یو۔۔۔"
از حد حیران ہوتے ہوئے اسنے صائم کو دیکھا۔ جو ہاتھ میں گلاب پکڑے اسکے سامنے جھکا کھڑا تھا۔
"میں نہیں جانتا کب کیسے کیوں؟ لیکن مجھے تم سے محبت ہوگئی مِس ھدی۔۔۔"۔
وہ بولتا جا رہا تھا۔
"ایک منٹ۔۔۔ آپ پلیز۔۔۔۔" مارے حیرت کے وہ کچھ بول نا سکی۔ کچھ بھی جانے بِنا، بس یونہی تھوڑا وقت ساتھ گزار کر محبت ہوجاتی ہے؟
"پلیز انکار مت کرنا۔ میں نے آج سے پہلے یہ کسی لڑکی کے لیے محسوس نہیں کیا۔۔۔ کہو تو امی کو بھیج دوں؟ ایک بار ہاں کہہ دو بس۔۔۔"
وہ اسکی تعریفیں کرنے لگا۔ جانے وہ کیا کیا بول رہا تھا، وہ بس اسکا منہ دیکھے جارہی تھی۔
"اوکے تم ٹائم لے لو۔ میں کل پوچھوں گا تم سے۔۔۔" چھٹی ہوچکی تھی اور امکان تھا کہ کوئی نا کوئی اس طرف آجائے گا اسلیے اس نے بات فوراً ختم کردی۔
"تم گھر جاؤ۔۔ آرام سے سوچو۔۔۔ میں کل جواب لوں گا ۔ ہوں؟" اس نے بے حد پیار سے مسکرا کر اسے دیکھا اور باہر نکل گیا۔
---------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now