میرون شال کے ہالے میں اسکا چہرہ دمک رہا تھا، مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ اس کے بیڈ کے قریب آکر رکی۔
"اسلام علیکم"۔
ہادی اسے حیرت سے تک رہا تھا۔ اسنے احد کو منع کیا تھا کہ وہ گھر میں کسی کو نا بتائے۔ تصویر دیکھ کر اسکا دماغ ماؤف ہوچکا تھا۔ وہ بنا جواب دیے اسے دیکھتا رہا تو ھدی ہنس کر بولی۔
"کیا مسٹر ہادی کو ہمارا سلام سنائی نہیں دیا؟"
"وعلیکم السلام ھدی بی بی"۔ وہ سوچوں کو جھٹک کر سنبھل کر بیٹھا۔
"کیسی طبیعت ہے آپ کی؟" وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئی بولی۔
"بہتر۔۔۔" مختصر سا جواب آیا۔
"ہاں جی لگ تو بہت اچھے رہے ہیں۔۔" ھدی نے اسکا جائزہ لیتے ہوئے مسکراہٹ دبائی۔
ایک تو وہ خوش اتنا تھی کہ باقی ہر چیز بھلا دینا چاہتی تھی۔
"تم یہاں کیسے ؟" ہادی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"چل کے آئی ہوں۔۔" اسنے فرماں برداری سے جواب دیا اور رخ موڑ کر مسکراہٹ چھپائی۔
"ھدی!" ہادی نے اسے گھورا۔
"جی جی؟"
"یہ پیکچر والا کیا سین ہے؟ مجھے بتاؤ"۔ ہادی یہ جاننے کے لیے بے چین تھا کہ ایک دن وہ بستر پر کیا پڑا رہا اس کے پیچھے اتنا سب کیسے ہوگیا۔
ھدی نے جواب دینے کی بجائے اسے دیکھا اور ایک ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا۔
"آپ کسی کے لیے بہت اہم ہیں۔ اپنا دھیان رکھا کریں۔۔۔"
وہ دھیمے آواز میں سر جھکا کر بولی۔
"تم رکھا کرو نا دھیان میرا ۔۔۔" ہادی نے مسکرا کر اپنے دوسرے ہاتھ سے اسکا ہاتھ دبایا۔
وہ ہنس دی۔
"تم پریشان تو نہیں ہوئی؟ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔" ہادی نے اسکا چہرہ دیکھ کر کہا۔
"جب آپ کے پاس احد بھائی جیسا ساتھی اور دوست موجود ہے۔۔ تو ہم بھلا کیوں فکر کریں۔۔۔؟ آپ دونوں کی دوستی قابلِ رشک ہے"۔ ھدی نے سادگی سے مسکرا کر کہا۔
"یہ تو بالکل ٹھیک کہا۔۔۔ اب ذرا بتانا یہ سب کیا ہورہا ہے؟" ہادی دوبارہ اسی سوال پر آپہنچا۔
ھدی اسے ٹالنے ہی والی تھی کہ احد دروازہ کھول کر آ دھمکا۔
"ہیلو لو برڈز۔۔۔۔ ناشتے لا وقت ہوگیا ہے۔۔۔" احد ہاتھ میں دو شاپر پکڑے آیا۔
"پرے ہٹ جا تھوڑا۔۔۔" اس نے ہادی کی چادر ایک طرف کھسکائی تو ہادی تھوڑا پیچھے ہوکر بیٹھ گیا اور اسے گھورنے لگا جو بیڈ پر حلوہ پوری رکھ کر اب کرسی گھسیٹ کر بیٹھ رہا تھا۔
"ہائے قسمے بڑی بھوک لگی تھی۔"
"مجھے بھی۔۔" ھدی مُڑ کر ناشتے کی طرف متوجہ ہوئی۔
دونوں بغیر سُلا مارے ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ہادی ان دونوں کے چہرے تکنے لگا۔
پھر خود ہی ڈھیٹ بن کر آگے بڑھ کر پوری کا نوالہ توڑنا چاہا۔
احد نے اسکا ہاتھ جھٹکا۔۔ "اوئے، وہ اپنے سامنے دیکھ" اسنے اس ناشتے کی طرف اشارہ کیا جو ابھی نرس اسکے لیے دے کر گئی تھی۔
"چپ کر کے وہ کھا، ہمارے کھانے پر نظر نا رکھ۔۔"
ہادی اسے کھری کھری سنانا چاہتا تھا لیکن جگہ اور اپنی حالت کا خیال کرکے رک گیا اور سبزیوں کے سوپ کی طرف دیکھ کر منہ بسورا۔
"پہلے ہی اتنا کام کر کر کے کمزور ہوگیا ہوں اور اوپر سے تم نے الگ پھٹیک ڈالی ہوئی ہے کل سے۔۔ ہونہہ"۔ احد ناشتے سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ھدی مسکراہٹ دباتی چپ کرکے کھا رہی تھی۔
"یار وہ۔۔۔ عاصم؟ کیا سیلفی تھی تم دونوں کی؟ اب منہ سے کچھ پھوٹو گے؟" ہادی نےزچ ہوکر سوال کیا۔
جواباً وہ دونوں ایسے تھے جیسے سنا ہی نا ہو۔
"یہ ایک پوری بچ گئی ہے ، آدھی تمہاری آدھی میری۔۔ اوکے؟" احد ھدی سے کہہ رہا تھا۔
"اوکے۔۔۔"
'واہ مطلب کے ہادی میاں کو فُل اگنور کیا جا رہا ہے؟ ڈیشوں جلاؤ مت مجھے۔۔۔ بھگتو گے۔۔۔ہونہہ۔۔۔ دونوں نمونے!' وہ غصے میں سوچتے ہوئے سوپ کے پیالے پر جھکا اور برا سا منہ بنایا۔ اسکا چہرہ دیکھ کر احد اور ھدی نے ہنس کر ایک دوسرے کے ہاتھ پر تالی ماری۔
-------------
"سارا کچھ ہے نا؟ ہم کامیاب ہوجائیں گے نا؟ ایسے کیسے نہیں ہونگے کامیاب۔۔۔
لوگ غلط کرتے ہوئے تو نہیں ڈرتے۔۔ تو ہم کیوں کچھ صحیح کرتے ہوئے ڈرتے یا گھبراتے ہیں۔۔۔؟"
وہ احد کو کم خود کو زیادہ سنا رہی تھی۔
پولیس سٹیشن کے باہر رک کر اسنے گہرے سانس لیا۔ "ناکام نہیں ہونا ھدی۔۔۔ ہارنا مت۔۔۔۔
سچ کے لیے آواز اٹھا کر یہ سوچ کر رک نہیں جاتے کہ ناکام ہوجائیں گے۔۔۔"
خود سے کہتی وہ آنکھیں بند کرکے کھولتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
احد کے کیس کروانے پر عاصم کو پکڑ کر تھانے لایا گیا تھا۔
اور وہ اپنا بندوبست کرکے آیا تھا۔ وہ ماننے کو تیار ہی نا تھا کہ اسنے ایسا کچھ کیا ہے۔
ھدی کرسی سے اٹھی اور آفیسر کے سامنے کچھ فائلز زور سے رکھی۔ سب نے چونک کر اسے دیکھا۔
"ھدی مرتضی نام ہے میرا۔۔۔ شادی کے بعد ھدی عبدل ہادی ہوگیا۔۔" اس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ سب خاموش ہوکر اسے سننے لگے۔
"میرے بابا کا اپنا بزنس تھا۔۔ ہمارا اپنا گھر تھا۔ پھر ہمارے بابا کی ڈیتھ ہوگئی اور انکا بزنس ہمارے کزن کے سنبھال لیا۔۔۔"
دوسری کرسی پر بیٹھا احد اسے غور سے دیکھ۔ رہا تھا۔
ضروری نہیں ہوتا کہ انسان ہمیشہ سے مضبوط ہو، کبھی کبار کچھ حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ آپ کو اپنے اندر مضبوطی بحال کرنی پڑتی ہے۔ آپ کو حالات کے مطابق خود میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔
"اور اب آپ لکھیں۔۔۔" وہ مُڑی اور حوالدار کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ کیا۔
"ھدی عبدل ہادی پرچہ کٹوارہی ہے اپنے تایا زاد عاصم کے خلاف۔۔۔ لکھو"
اسکی آواز آہستہ آہستہ اونچی ہوتی جارہی تھی۔ حوالدار نے پین تھاما۔ باقی افراد اسے دیکھ رہے تھے۔ عاصم ایک طرف بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔
"یہ کیا بولی جارہی ہو؟" عاصم غصے سے اٹھا۔
"خاموش۔۔۔۔" وہ غصے سے دھاڑی۔ "میری بات مکمل نہیں ہوئی ابھی۔۔۔"
آفیسر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"اس انسان نے میرے باپ کا قتل کروایا ہے۔ لکھو اس کے خلاف ایف آئی آر۔۔۔
اس انسان نے میرے باپ کا بزنس زبردستی ہڑپ کیا ہے جبکہ اصل میں میرے بابا نے اسے بزنس کا پارٹنر نہیں بنایا۔۔۔
لکھو کہ اس شخص نے ہمارا گھر ہتھیانے کے ارادے بھی تھے۔ اور میرے شوہر نے جب اسے روکنا چاہا تو اسنے اسے راستے سے ہٹانے کے لیے اس پر دو دفع حملے کروائے۔
ایک دفع آگ لگوائی اور دوسری دفع گولی چلوائی۔۔۔"
ھدی نے رک کر گہرا سانس لیا۔ احد نے اسے دیکھ کر داد دی۔
"شٹ اپ کیا بکواس کر رہی ہے یہ لڑکی۔۔۔ جھوٹی مکار پاگل ہے یہ۔۔۔" عاصم کھڑا ہوکر چینخا۔
"میری آپ سے ریکویسٹ ہے کہ اس کے خلاف قدم اٹھایا جائے۔۔۔
ہمارے بزنس کی تفصیلات لی جائیں۔۔۔ اور جن کو انہوں نے قتل کروایا ہے ان کی سزا دی جائے اور جب پر حملہ کروایا ہے اس کی بھی سزا دی جائے"۔
وہ عاصم کو دیکھ کر چبا چبا کر بول رہی تھی۔ غصے سے چہرہ سرخ ہورہا تھا۔
"آئی ریکویسٹ ان معاملات کی اچھی طرح تفتیش کی جائے۔۔ " وہ آفیسر کی طرف مُڑی۔
احد بھی کھڑا ہوا۔
"اس کیس کے لیے ہماری طرف سے سارے ڈاکومینٹس موجود ہیں۔۔ آپ انہیں دیکھ لیں۔۔" احد نے فائلز اٹھا کر انہیں دی جسے وہ کھول کر دیکھنے لگے۔
"اگر معاملہ عدالت تک جاتا ہے تو لے جائیں۔ اور میں تو کہوں گی کہ مجرم سے جرم قبول کروانے کے لیے جسمانی ریمانڈ اور ٹارچر کی ضرورت بھی پڑے تو بلا جھجک یہ کام بھی کرلیا جائے"۔ ھدی نے سینے پر ہاتھ باندھ کر گردن اٹھا کر کہا۔
آفیسر فایلز دیکھتا رہا پھر حوالدار کو کچھ ہدایت دے کر کھڑا ہوا۔
"ملزم کو اندر ڈالو جب تک تفتیش نہیں ہوجاتی۔۔۔" اس نے اشارہ کیا تو حوالدار فوراً آگے بڑھا۔
عاصم غلاظت بکتے ہوئے احتجاج کرنے لگا تو دو حوالدار آگے بڑھے اور اسے پکڑ کر حوالات میں ڈالا۔
"تم لوگ کیا سمجھتے ہو خود کو۔۔۔۔ بچو گے نہیں۔۔۔ میں باہر آکر رہوں گا۔۔۔" وہ چینخ رہا تھا۔
"اف۔۔ جنگلی بلّا۔۔۔۔" احد نے کانوں کو ہاتھ لگایا تو ھدی ہنسی۔
"ایک ریکویسٹ اور ہے کہ انکی ضمانت تب تک نا کی جائے جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا آپ برائے مہربانی اس بھیڑیے کو کھلا مت چھوڑنا۔۔۔" ھدی نے میٹھی مسکراہٹ سے کہا۔
احد نے ہنسی دبائی۔
"شیور میڈم۔۔ ہم آپ کو اطلاعت دیتے رہیں گے۔۔ آج ہی ہم تفتیش شروع کرتے ہیں"۔
"شکریہ۔۔۔" وہ احد کی طرف مُڑی۔
"جلدی فون نکالیں جلدی۔۔۔۔" احد نے فوراً فون نکالا۔
ھدی نے اسکا رخ سیٹ کیا اور اسے سیلفی کھینچنے کو کہا۔
احد ، اسکے ساتھ مسکراتی ھدی اور اسکے پیچھے عاصم۔۔۔ جس کے چہرے سے رنگ اُڑے ہوئے تھے۔ یقیناً اگلا "جگاڑ" کرنے کا سوچ رہا ہوگا۔
باہر نکلتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے کو thumbs up کیا اور مُڑ کو عاصم کو ٹھینگا دکھایا۔
احد اسکو دیکھ کر ہنسا۔ 'اف ہادی بیٹا تو نے تو اپنی بیگم کا یہ روپ ہی نہیں دیکھا۔ اسے بتاؤں گا تو بے ہوش ہوجائےگا سن کے'
-----------
ہادی گھر آچکا تھا۔ اور گھر والوں کو ہادی سب بتا چکا تھا۔ ویسے بھی اسے باتوں کا ہنر آتا تھا۔ کسی نے خیال رکھنے کا کہا، کسی نے ڈپٹا اور وہ ہنس کر ٹال کر سب کو نارمل کرتا رہا۔
اپنے بستر پر لیٹا وہ موبائل پر مصروف تھا۔ احد کے لمبے لمبے میسج آرہے تھے جس میں وہ اسے سب "سین" کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ہادی چونکہ ریسٹ پر تھا اس لیے احد اور ھدی روز تھانے کا چکر لگا رہے تھے۔ جہاں "تفتیش" جاری تھی۔ اور عاصم باہر آنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ ھدی کا بس نہیں چل رہا تھا اسے اپنے ہاتھوں سے گلا دبا کر مار دیتی۔
ہادی احد کی چیٹ پڑھ رہا تھا جس میں اسنے ھدی کے بارے میں بتاتے ہوئی آکر میں "ھدی دی شیرنی" لکھا تھا۔ ہادی پڑھ کر ہنسا۔
"کیوں ہنسا جا رہا ہے؟" ھدی کمرے میں ٹرے تھامے داخل ہوئی۔
"کسی کی بہادری کے قصے سن کر۔۔۔" وہ مزے سے بولا۔
"اچھا آپ کو بی بی سی سے خبریں مل گئیں۔؟"
"میرے دوست کو تم نے بی بی سی کہا ؟" ہادی نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔
"ارے میں نے تو دوست کا ذکر نہیں کیا۔ آپ نے خود ہی انکو بی بی سی بنا لیا۔۔۔" ھدی ہنسی اور ٹرے سایڈ ٹیبل پر رکھ کر بیٹ پر بیٹھی۔
"تو میری بیگم بہت بہادر نکلی۔ اور کتنے روپ ہیں جو میں نے نہیں دیکھے؟"
"ابھی آپ نے دیکھے ہی کتنے روپ ہیں؟" ھدی نے کالر جھاڑے۔
"اچھا۔۔" ہادی مسکرایا اور آگے بڑھ کر اسکی کلائی تھامی۔
"تو دیکھاؤ نا پھر باقی روپ بھی"۔
ھدی ہنسنے لگی اور دوسرے ہاتھ سے ٹرے اٹھا کر اسکے سامنے رکھی۔
"یہ کیا ہے؟" ہادی نے اسکے "سین" کے بیڑاغرق کرنے پر منہ بنایا۔
"یہ سوپ ہے۔ خاص آپ کے لیے۔۔۔ "
"کیوں؟"
"ارے آپ کا خیال بھی تو رکھنا ہے نا۔۔" ھدی نے مسکرا کر اسی کی بات دہرائی اور چمچ سوپ سے بھر کر اسکی طرف بڑھایا۔
"سوری یہ تم خود ہی کھاؤ۔۔۔" پچھلے دنوں سے پرہیزی کھانا کھا کھا کر وہ تنگ آگیا تھا۔
"اوکے۔۔۔" اس نے آرام سے چمچ اسے تھمایا۔
"کھلائیں مجھے۔۔۔" ھدی نے کہہ کر منہ کھولا۔
ہادی نے حیران ہوتے ہوئے چمچ اسکی طرف بڑھایا جو اسنے آرام سے کھالیا۔
"اب آپ کی باری۔۔" ھدی نے چمچ پکڑ کر اسے کھلایا جو اسنے آرام سے کھالیا۔
"اس طرح کھلاؤ گی تو زہر بھی کھالوں گا"۔ ایک ہاتھ ٹھوڑی تلے رکھ کہ اسنے ھدی کے چہرے کو دیکھا جو گلابی ہورہا تھا۔ وہ ہنسی۔
"اوکے وہ بھی کھلادوں گی۔۔پہلے یہ تو کھالیں"۔
"ظالم۔۔۔" ہادی نے انگلی سے اسکے کان میں پہنی بالی کو جھٹکا دیا۔
ھدی اسکے بال خراب کرتے ہوئے اٹھی اور بھاگی۔ "اب خود کھائیں۔۔"
"تم مجھے ٹھیک ہو لینے دو ھدی بی بی پھر تمہیں بتاتا ہوں۔۔" وہ پیچھے سے چینخا۔
"اچھا جی؟ دیکھ لیتے ہیں"۔ وہ اسے چڑاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں پیسے کی لالچ میں انسان اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ خون کے رشتوں کا بھی خیال نہیں کرتا۔ پیسہ خون سے بھاری ہوتا ہے کیا؟
جب کوئی غلط چیزیں کرنے کا عادی ہوجائے تو وہ ہر صحیح چیز بھی غلط طریقے سے کرنے لگتا ہے۔
اور چیزوں کو صحیح طریقے سے کرنا بھول جاتا ہے۔
بہت حکمرانی کرنا چاہی تھی اس نے۔۔۔ زندگیوں کے ساتھ کھیلا تھا۔۔لیکن کیا ہے نا کبھی نا کبھی ہر چیز کو صلہ ہمیں ملتا ہے، ہر گناہ کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
اللہ ہے نا۔۔۔ وہ ناانصافی نہیں ہونے دیتا۔ صرف وہی تو ہے جس سے ہم ہر اچھی چیز کی امید لگا سکتے ہیں اور صرف اسی پر یقین کر سکتے ہیں۔
ایک نا ایک دن انسان کی پکڑ ہوتی ہی ہے۔ چاہے وہ جتنے ہاتھ پاؤں مارلے وہ پکڑا جاتا ہے۔
عاصم۔۔۔۔وکیل بلوایا۔۔۔ جھوٹے کاغذات جمع کروائے۔۔۔ ہر ہتھکنڈا آزما لیا لیکن ناکام رہا۔
تین دن کے جسمانی ریمانڈ سے اس کی بس ہوگئی اور اسنے اپنا جرم قبول کرلیا۔
عدالت سے رجوع کرنے پر آج اسے سزا سنائی جانی تھی۔
ہادی، ھدی، احد، فاخرہ، تایا ابو تائی امی۔۔۔۔ سب عدالت میں بیٹھے دم ساندھے جج کو دیکھ رہے تھے۔
وہ فیصلہ سننے کے منتظر تھے۔
-----------
YOU ARE READING
دل کے دریچے
General FictionRanked#1 . A romantic/social story. episodes will be coming weekly. it is a story of a girl huda , who goes throw different phases of life. A story of friendship (Hadi & Ahad) , A story of family relation and a story love..