DKD-Episode#25

1.6K 129 26
                                    

باغ کے پودے پوری طرح آگ کی گرفت میں آچکے تھے۔ افراتفری مچ چکی تھی۔ ایسے میں کسی بڑے نے لوگوں کو پیچھے رہنے کا کہا۔ علی ، عدیل، عقیل لوگوں کو پیچھے کرنے لگے ، کوئی fire brigade کو کال ملانے لگا تا کوئی واشروم کی طرف بھاگا تاکہ پانی لا سکے۔
ایسے میں صرف ایک شخص بے حد پریشانی کے عالم میں باغیچے کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اس کے علاوہ کسی کو خبر نہیں تھی کہ اندر کون ہے؟
"ہادی تم اندر ہو؟"
"ہادی آر یو اوکے؟"
"ہادی۔۔۔" احد کھڑا چینخ رہا تھا۔ جواب ندارد۔۔۔
کائی جواب نا ملنے پر اسنے آو دیکھا نا تاؤ۔۔۔ ایک طرف کو جھک کر وہ باغیچے کے اندر چھلانگ لگا چکا تھا۔
"احد۔۔۔۔" ثمرین چینخی۔ "پاگل۔۔۔"
"احد بھائی۔۔" علی بھاگتا ہوا آگے تک آیا۔ "اف ہادی بھائی کدھر ہیں؟"
وہ دبا دبا سا چینخا۔
"ان کو تو کچھ دیر پہلے میں نے باہر جاتے دیکھا تھا۔۔۔" عقیل نے جواب دیا۔ عدیل بالٹی میں پانی ڈال لایا جو وہ قریب کے گھر سے لایا تھا، عاشر پانی والے پائپ کی مدد سے پانی پھینکنے لگا۔
"جلدی آگ بھجاؤ۔۔۔"
"احد۔۔۔۔" وہ کھڑے اسے آواز دے رہے تھے۔
"آگ کیسے لگی؟" ہادی ہانپتے ہوئے ان کے پاس پہنچا۔
"آپ ٹھیک ہیں؟" ثمرین کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
"مجھے کیا ہونا تھا۔۔ آئی ایم فائین۔۔۔آگ کیسے لگی؟ فائیر بریگیڈ کو فون کیا، یہاں سے پیچھے ہوکر کھڑے ہو۔۔۔۔" ہادی نے ان سب کو دیکھتے ہوئے تیزی سے کہا۔
"ہادی بھائی احد کو لگا آپ اندر ہیں تو اس نے۔۔۔۔ اس نے اندر چھلانگ لگا دی"۔ علی پریشانی سے بولا۔
"واٹ؟۔۔۔۔۔ ایسے کیسے۔۔۔احد۔۔۔" اور تھا تو وہ بھی احد کا دوست بنا کچھ اور سوچے وہ بھی آگ میں کود پڑا تھا۔
"ہادی بھائی۔۔۔۔" ان سب کی دل خراش چینخیں سنائی دی۔
ھدی بھی لہنگا سنبھالتی ان تک آئی۔ ثمرین دونوں کی سلامتی کی دعائیں کر رہی تھی۔ تبھی فائر بریگیڈ پہنچی اور فوراً سب کو پیچھے ہٹا کر آگے بڑھی۔ باغ چھوٹا تھا اسی لیے آگ پر جلدی قابو پالیا گیا۔ ہال سے باغ کا فاصلہ ہونے کی وجہ سے آگ ارد گرد نا پھیل سکی تھی۔
"احد۔۔ ہادی"۔ سب کی یکجا آواز آئی۔
"شکر اللہ۔۔" وہ دونوں ایک ساتھ باہر آئے۔ ہادی نے اسکا ہاتھ زور سے پکڑ رکھا تھا۔
احد دیکھ چکا تھا وہ اندر نہیں ہے لیکن آگ زیادہ ہوجانے کی وجہ سے وہ واپس نہیں جا پارہا تھا۔ ہادی نے اندر داخل ہوتے ہی کوٹ سے آگ کے شعلے کم کرنا چاہے، اور آگ بجھتے ہی وہ احد کو کھینچتا ہوا باہر لے آیا۔
"کیا بے وقوفی تھی یہ احد؟" باہر آتے ہی وہ غصے سے دھاڑا اور ایک مکا زور سے اسے جڑا۔
لوگ جو انکی طرف بڑھ رہے تھے یک دم ساکت ہوکر وہیں رک گئے۔
"ہادی مجھے لگا تم اندر ہو۔۔" احد نے کندھا سہلاتے ہوئے بہت دھیمی آواز میں کہا۔
"تم نے مجھے اندر جاتے دیکھا؟ نہیں نا۔۔۔ اور اگر تھا بھی اندر تو تجھے کیا ضرورت تھی ہیرو بننے کی جو اندر کود گیا؟"
"تو ۔۔۔۔ میرا دوست مصیبت میں ہو تو میں کھڑا تماشہ دیکھتا رہوں"۔ جواباً اسنے چڑ کر کہا۔
"شٹ اپ۔۔۔" ہادی نے اسے گھرکا۔
"خود کیوں آئے تھے میرے پیچھے ہاں؟ کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنا تھا نا"۔ احد تیزی سے بولا۔
"شٹ اپ اگین نمونے"۔
ہادی نے اسے گلے سے لگایا۔ "آئندہ ایسی فضول حرکت نا کرنا، ورنہ میں کود تجھے آگ میں پھینک دوں گا"۔
احد نے اسکی کمر تھپکی اور مسکرایا۔ "دفعہ ہوجا"۔
باقی افراد انہیں صحیح سلامت دیکھ کر مسکرائے اور شکر کیا۔
ثمرین نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر چپت لگائی۔
"زیادہ ہیرو گری مت کیا کرو۔۔ پریشان کرکے رکھ دیا تھا"۔ احد نے اسکی آنکھوں میں نمی دیکھی پھر دھیما سا مسکرا کر آگے جھکا۔
"میں معذرت خواہ ہوں شہزادی۔۔۔"
اور جواباً شہزادی نے اسے ایک اور چپت لگائی اور ہنس دی۔
"اچھا سنو۔۔" وہ اسکے کان کے قریب جھکا۔ "سارا فنکش خراب ہوگیا ہے۔ اب تم باقی سب سے جاکر کہو۔۔۔۔۔۔"
وہ اسے پلان بتانے لگا۔
ثمرین نے مسکرا کر فخر سے اسے دیکھا۔ اور سر ہلاتی ہوئی باقیوں کی طرف بڑھی۔
ہادی اس دوران ھدی کے پاس چلا آیا جو ہونک سی بنی اسے دیکھ رہی تھی۔ ابھی تو خوشیاں اس کے پاس آئی تھیں اور ابھی ہی روٹھ کر جانے لگی تھیں۔۔
"میں نے آپکو نہیں بلوایا تھا سچی۔۔۔میں نے۔۔آپ ٹھ۔۔ٹھیک ہیں نا؟" ھدی کی آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔
ہادی بنا کسی کی پروا کیے آگے بڑھا اور اسے ساتھ لگایا۔
"ریلیکس، میں بالکل ٹھیک ہوں"۔ ہادی مسکرایا۔
"چلیں جی حویلی چل رہے ہیں سب، دادو نے کہاں ہے باقی رسم اور شغل وہاں لگا لینا۔۔۔" عائشہ ہادی کے پاس آئی۔
ہادی نے مڑ کر دیکھا وہاں احد یا اسکا کوئی کزن نہیں تھا، یعنی کے وہ سب جا چکے تھے۔
یہ کمینے بھی نا، خوشیوں پر کبھی آنچ نہیں آنے دیتے۔ وہ سب کچھ مہمانوں سمیت نکلنے کی تیاری کرنے لگے۔
-------
گاڑی سے اترنے میں ہادی نے اسکی مدد کی۔ اور اسکا ہاتھ تھامے دروازے سے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ گلاب کی پتیوں کی بارش ان پر گرنے لگی۔
"خوش آمدید مسٹر اینڈ مسز عبدل ہادی"۔ ان پر پھول برساتے سب کزن ہنسے مسکراتے چہرے لیے ان کے سامنے کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر پہلے ہونے والی واقعے ما شبہ تک کسی کے چہرے پر نہیں تھا۔
وہ سب ہر لمحہ احسن طریقے سے جینے کے عادی تھے۔ زندگی انہیں قابو میں رکھے یا نا رکھے، وہ لمحوں کو اپنے قابو میں کرنا جانتے تھے۔ کس لمحے کو خوش رہ کر گزارنا ہے اور کسے اداس ہوکر گوانا ہے۔۔ وہ امجھتے تھے۔
"چلو اب اندر تو جانے دو ان کو"۔ سکینہ نے ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا جو راستہ روکے کھڑے تھے۔
"ایسے کیسے؟ کچھ دو تو صحیح۔۔۔جیب ڈھیلی کرو فوراً"۔ عدیل نے آنکھ دبا کر باقیوں کو اشارہ کیا۔
جنہوں نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی۔
"یار یہ رسمیں وغیرہ تو لڑکیاں کرتی ہیں راستہ روکنے والی"۔ ہادی نے مسکراہٹ دبا کر مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
"چلو ہٹو۔۔۔کوئی نہیں دینے میں نے پیسے۔۔۔"
"نا بابا نا۔۔۔۔" ان سب نے یک زبان ہوکر کہا اور نفی میں گردن ہلائی۔ پھر ایک دوسرے کے کانوں میں جھک کر کچھ کہا تو ہنس کر سنجیدہ ہوئے۔
علی نے گلا کھنکارا۔
"اوکے۔۔۔ یا تو پیسے دو ہم سب کو دس دس ہزار۔۔۔ یا ہمیں زبردست قسم کا بنگھڑا ڈال کر دکھاؤ۔۔"
"ہاں بھئی ہاں۔۔۔" باقی گروہ نے تائید کی۔
"اب پھنسا نا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔۔" احد ہنسا۔ ھدی مسکرا کر ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
ہادی سوچ میں پڑ گیا۔ دس پندرہ تو وہ سارے تھے ہی، سب کو دس دس ہزار دینے کا مطلب ایک منٹ میں کنگال ہوجانا۔۔۔ ہادی میاں، بھنگڑا ہی ڈال لو۔ وہ حساب کتاب کرکے فارغ ہوا تو ان سب کو دیکھا جو ہاتھ سینے پر باندھے ان کے آگے جم کر کھڑے تھے۔
"چلو پھر بجاؤ ڈھول، میں بنگھڑا ڈالنے کو تیار ہوں"۔
"اوہوووو۔۔۔۔" علی نے فوراً اشارہ کیا اور پیچھے ڈھول بجنے لگا۔ مطلب ڈیش لوگ سارے انتظامات کرکے بیٹھے تھے۔
ہادی نے ہاتھ اونچا کیا اور شروع کیا۔ بس ہلکا پھلکا سا بنگھڑا ڈال کر پیچھے ہوا۔
"اب ہٹو، راستہ دو۔۔"
"نا بابا نا۔۔۔ اب بھابھی کے ساتھ بھی کرکے دکھاؤ"۔
"اف۔۔۔" ھدی شرم کے مارے سر جھکا گئی۔ ہادی نے ان سب کو گھور کر دیکھا پھر بڑوں کی طرف دیکھا جو مسکرا رہے تھے۔
ھدی کا ہاتھ تھام کر اسے آگے کیا اور اسکے کندھے سے کندھا ملا کر جھٹکا دیا۔
ان سب کی ہوٹنگ حویلی میں گونجنے لگی۔
ہادی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اوپر کیا اور اسے گول گھمایا۔ اسکا لہنگا گول دائیرہ بناتے ہوئے گھومنے لگا۔
"بس یا اور۔۔؟" اسنے باقی سب سے پوچھا۔
"بس پلیز۔۔ لہنگا بہت بھاری ہے گر جاؤں گی میں"۔ جواب ھدی کی طرف سے آیا تو وہ سب قہقہے لگانے لگے۔
"گرنے تھوڑی دوں گا تمہیں"۔ ہادی نے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ سر جھکا کر مسکرا دی۔
"چلو اتنا کافی ہے"۔ عالیہ نے جان بخشی کی۔
"ویسے بھی ہم پیسوں کے لیے نہیں کھڑے۔۔۔۔ ہمارا حصول خوشیاں ہے ، یادیں ہیں، کیوں گینگ؟"
"بالکل بالکل"۔ لڑکوں نے جواب دیا جبکہ لڑکیاں کھسر پھسر کرتی ہنسنے لگیں۔
آخرکار انہیں اندر لاکر ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا گیا۔
---------
"احد تمہیں ممنوع ہے یہ رسم۔۔ تم دلہن کے بھائی بھی ہو"۔ عدیل نے منہ بنایا۔
ھدی صوفے پر بیٹھی پریشانی سے اپنے آگے لائین میں بیٹھی لڑکوں کو دیکھ رہی تھی۔
جو "گوڈا پھڑائی" (وہ رسم جس میں دلہے کا چھوٹا بھائی، دلہن کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کے پیسے وصول کرتا ہے)
کے لیے قطار میں اسکے سامنے بیٹھے تھے۔
احد بھی منہ بناتا قطار سے اٹھ کر نکل گیا اور ھدی کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ "اب بتاتا ہوں دلہن کا بھائی بن کے"۔
"عدیل ، عقیل تم دونوں چھوٹے ہو۔ اصولاً ہادی بھائی سے چھوٹا میں ہوں پورا ایک سال اس لیے یہ رسم میں کروں گا"۔ علی ان سب کو دھکے دیتا سب سے آگے بیٹھا اور ھدی کے گھٹنے پر دونوں ہاتھ رکھے۔
"بھابھی میں آپ کا پیارا سا دیور۔۔۔ لائیں شاباش اپنا پرس تو کھولیں۔۔" علی نے بیٹھتے ہی مطالبہ کیا۔
"کتنے چاہئے آپ کو؟" ھدی نے کھُلے دل سے پوچھا۔
"بیس ہزار سے کم نہیں لوں گا۔۔۔" علی نے دوٹوک کہا تو ھدی مسکراتی ہوئی پرس کھولنے لگی۔ اور سلامی والے پیسوں میں سے بیس ہزار نکال کر اسکی طرف بڑھائے۔
علی نے چہک کر اسے دیکھا اور ہاتھ آگے بڑھایا لیکن تب تک احد نے فورا ھدی سے پیسے جھپٹ کر اسکے پرس میں واپس ڈالے اور لڑاکا مائیوں کی طرح بولا۔
"دیکھو بھائی۔ صرف پانچ ہزار چاہئے تو بولو"۔
"کیا بس پانچ ہزار۔۔" علی کا منہ حیرت سے کھلا تو باقی سب ہنسنے لگے۔
"احد بھائی یہ غلط ہے۔۔۔" اسنے مسکین سی شکل بنائی۔
"اتنے لینے ہے تو لو ورنہ ہٹ جاؤ یہ بھی نہیں ملیں گے۔۔" احد نے اسے چڑایا۔
"اچھا اچھا دے دیں۔۔۔" وہ فوراً مان گیا۔
احد نے اسے پانچ ہزار پکڑائے۔ ھدی ہنسنے لگی اور پرس سے باقی پیسے نکال کر علی کو پکڑائے جو اسنے فورا جھپٹ لیے کہ مبادہ احد پکڑ نا لے۔ "یاہوووو"۔
علی اچھل کر کھڑا ہوا اور عدیل ، عقیل کو بھی ایک ایک نوٹ پکڑا دیا۔
"پیاری بھابھی" کی تعریفیں کرتے ہوئے وہ ایک طرف ہٹ گئے۔
----------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now