DKD-Episode#02

2.7K 158 55
                                    




زندگی کبھی کسی کے لیے نہیں رکتی۔ اس کا اصول یہ ہے کہ اسکے بہاؤ کے ساتھ ہر ایک کو چلنا ہی پڑتا ہے۔ راضی خوشی یا مجبوراً گھسیٹ گھسیٹ کے۔۔ لیکن چلنا پڑتا ہے۔

ھدیٰ اب میٹرک اچھے امتحانات سے پاس کرکے فرسٹ ایئر میں آچکی تھی۔ اس کے بابا نے پچھلی جاب چھوڑ کر اپنا چھوٹا کاروبار شروع کردیا تھا جو ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ جس گھر میں وہ رہتے تھے وہ انہوں نے فاخرہ کے نام کر رکھا تھا۔

آج کھانے پر مرتضیٰ صاحب کے بڑے بھائی ظہیر کھانے پر مدعو تھے۔ جب سے بھائی کا کاروبار جما تھا ظہیر صاحب کی بھائی کے ساتھ خوب بن رہی تھی، صرف یہی نہیں وہ بھائی کے ساتھ کاروبار بھی کرنے لگے تھے۔

کھانے کی میز پر سب بیٹھے خوش گپیوں اور کھانے میں مصروف تھے۔

دعوت ہونے کی وجہ سے ھدیٰ کا من پسند کھانا بھی موجود تھا تو وہ بڑی رغبت سے بیٹھی کھا رہی تھی۔

" ارے ھدیٰ گڑیا اور لو نا۔۔"۔ عاصم اس کے تایا زاد نے بریانی کی پلیٹ آگے کی۔

"نہیں بھائی ، ابھی میری پلیٹ بھری ہوئی ہے۔ آپ کھائیں"۔ اس نے مسکرا کر کہا۔ وہ عمر میں اس سے پندرہ سال بڑے تھے۔

"اوکے!"۔ وہ اپنے لیے ڈالنے لگے۔ دونوں بھائی آپس میں باتیں کر رہے تھے اور ان کی بیگمات ایک دوسرے کو کسی پرانی جان پہچان والی عورت کے قصے سنا رہی تھی ۔

"ھدیٰ گڑیا۔۔ یہ کباب لو نا"۔ انہوں نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔

"یہ لو گڑیا۔۔"۔ انہوں نے خود ہی اس کی پلیٹ میں کباب رکھ دیا۔

"بھائی مجھے گڑیا نا بولیں۔ یہ نِک صرف ان کے لیے ہے جو مجھے عزیز ہیں"۔ اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔

عاصم نے کوئی جواب نا دیا بس خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ کیا تھا اس کی آنکھوں میں؟ کاش وہ اپنی پلیٹ سے نظر ہٹا کر ان کی طرف دیکھ لیتی تو۔۔۔تو بہت کچھ خراب ہونے سے روک لیتی۔

فاخرہ نے اس کا لہجہ نوٹ کرکے فوراً کہا۔ "ارے عاصم یہ لو نا"۔ انہوں نے ٹرے آگے کھسکھائی جو عاصم نے چپ چاپ تھام لی۔ نظریں اب بھی ھدیٰ کی طرف تھیں۔

"اکلوتی اولاد ہے نا ۔ بس تھوڑی سی ضِدی ہے۔ اس عمر میں بچے میچور ہوجاتے ہیں۔

ہمارا اگر بیٹا ہوتا تو اس وقت اپنے فیوچر کے لیے کوئی اچھا فیصلہ کرتا۔۔ باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ بہت خواہش تھی مجھے کہ بیٹا ہو لیکن اللہ نے۔۔۔" فاخرہ اپنی جیٹھانی سے آہستہ آواز میں کہہ رہی تھیں۔

دل کے دریچےTahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon