DKD-Episode#13

1.8K 133 41
                                    

تھکن کے باوجود وہ لوگ دیر رات تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہے کہ یہ عائشہ کی اس گھر میں آخری رات تھی۔ جن سے نیند برداشت نہیں ہورہی تھی وہ دو گھنٹے پہلے ہی جاکر سو چکے تھے۔ دو بجے کے قریب دادو کھانستی ہوئیں کچن میں آئیں تو کھڑکی سے باہر لان میں ان سب کر بیٹھے دیکھا۔
"تم لوگ جاگ رہے ہو؟ فوراً ختم کرو باتیں، اٹھو سب ۔۔ جاؤ جاکر سوجاؤ۔ ایک منٹ سے پہلے یہ جگہ خالی ہو"۔ وہ سختی سے کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئیں تو وہ لوگ بھی باتوں کو بریک لگا کر اٹھ گئے۔
-----

لائیٹوں سے چمکتی حویلی اب سورج کی روشنی سے نہا چکی تھی۔ سب جاگ کر ناشتہ کر چکے تھے۔ ان کی صبح ، رات کو سیر سے سونے کی وجہ سے ظہر کے وقت ہوئی تھی۔ دپہر کے کھانے کے بعد سب تیاریوں میں لگ گئے اور ہال کے لیے ایک گھنٹہ پہلے ہی نکل گئے کہ وہ لڑکی والے تھے جاکر تیاریاں بھی دیکھنی تھیں۔
بڑا سا ہال خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ ہال کی ڈیروکیشن تھیم گولڈن براؤن تھی۔
چِٹے ککڑوں کے گروہ نے آج تھری پیس سوٹ پہن رکھے تھے۔ کُرتا یا شلوار قمیض کا پلین کینسل کیا گیا تھا کہ "یار صحیح مزہ تو شیروانی پہننے کا آتا ہے، اب ہم سب نے شیرانی پہنی تو بیچارے شہروز (دلہے) کا کیا ہوگا؟"
لڑکیوں نے آج لال، گلابی اور اورِنج کلر کے فراک پہن رکھے تھے۔ بال گھنگریالے کیے گئے تھے۔
سب کی سب داخلی دروازے کے قریب پارٹی پوپرز لیے کھڑی تھی کہ بارات آنے ہی والی تھی اور وہ استقبال کے لیے قطار بنا کر کھڑے ہونے کی 'کوشش' کر رہی تھیں۔ ایک تو ہر دو منٹ بعد کسی کو ٹینشن ہونے لگتی کہ یار میرے بال ٹھیک لگ رہے ہیں؟ یار میک اپ غائب تو نہیں ہوا؟ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ بہت اچھی لگ رہی ہو۔
'یہ لڑکیاں بھی نا' سامنے کھڑے لڑکے ہنس ہنس کر انکا مذاق اڑاتے۔
ایسے میں ھدی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی برائڈل روم کی طرف آئی اور دروازہ کھٹکا کر اندر داخل ہوئی۔
"ارے ھدی اچھا ہوا تم آگئی، ذرا اسکے پاس رکنا میں باہر مہمانوں کو دیکھ آؤں"۔ سمینہ اسے دیکھ کر باہر نکل گئیں۔
دلہن بنی عائشہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ گہرے سرخ اور مہرون لہنگے میں میک اپ کے ساتھ وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔
"آج تو شہروز بھائی کی خیر نہیں"۔ ھدی مسکراتے ہوئے آگے آئی۔ عائشہ ہنسنے لگی۔
"ماشاءاللہ نظر نا لگے"۔ وہ عائشہ کے گلے لگ گئی۔
"تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو۔ کس پر بجلیاں گرانے کا ارادہ ہے؟" عائشہ نے اسے چھیڑا تو وہ ہنسنے لگی۔
ھدی نے گلابی لمبی کامدار فراک پہن رکھی تھی۔ لمبے بال کَرل کرکے سیٹ کئے ہوئے تھے، سیاہ بڑی آنکھیں لائنر سے سجی تھیں۔ اور ہونٹوں پر گلابی لپ گلاس۔۔ 'اللہ اکبر! اتنا تو میں ساری زندگی نہیں تیار ہوئی' خود کو دیکھ کر اسنے یہ جملہ کہا تھا۔
"میں نے سوچا بعد میں پتا نہیں کب ملیں اس لیے ابھی آگئی۔ میں آپ کو بہت مِس کروں گی، آئی لو یو سو مچ"۔ ھدی دوبارہ گلے لگ گئی۔
"می ٹو۔ پھر کیا خیال ہے تمہارا انتظام نا کردوں؟" عائشہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
"جی؟" اسے اسکی بات سمجھ نا آئی تھی۔ عائشہ کچھ کہتی اس سے پہلے ہی دروازہ کھُلا اور وہ اند آیا۔
سیاہ پینٹ کوٹ کے اندر میرون شرٹ اور سیاہ ٹائی لگائے، جیل لگا کر ہیئر سٹائل بنا رکھا تھا، ہلکی ہلکی شیو کو ٹرِم کیے وہ ہنڈسم لڑکا۔۔آئی مین ہادی صاحب۔۔۔
"عائشہ کچھ کھانے کو لا دوں؟ بعد میں افرواتفری مچی رہے گی"۔ وہ کہتا ہوا اندر آیا اور اسے دیکھ کر تھم سا گیا۔ پھر اسکی براؤن آنکھیں چمکیں اور وہ عائشہ تک آیا۔
"ارے یہ pretty lady دن بہ دن پیاری نہیں ہوتی جا رہی؟" اسنے مسکراہٹ دباتے ہوئے عائشہ سے کہا۔ ھدی نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"ہوتی نہیں جارہی۔۔ پیاری 'لگتی' جارہی ہے۔۔۔ آپکو"۔ عائشہ نے آخری لفظ دھیمے سے کہا لیکن وہ سن چکا تھا تبھی کمرے میں اسکا قہقہہ گونجا تھا۔
"یہ بھی ٹھیک کہا۔۔ھدی آپ کو باہر ثمرین وغیرہ ڈھونڈ رہی ہیں"۔ پہلا جملہ عائشہ سے کہہ کر وہ ھدی سے مخاطب ہوا تو وہ فوراً وہاں سے بھاگی اور باہر نکل کر سکون کا سانس لیا۔ 'اللہ اکبر! یہ میری تعریف ہوئی تھی؟' وہ سر جھٹک کر سنبھلتی ہوئی ثمرین کے پاس چلی گئی۔
-------
ڈھول اور بینڈ باجے کے شور کے ساتھ بارات آ پہنچی تھی۔ سب سے آگے شہروز کھڑا تھا اور اسکے دائیں بائیں اسکے ابو ابو اور بھائی کھڑے تھے۔
آف وائیٹ کام والی شیروانی کے ساتھ گہرے مہرون رنگ کی شلوار اور سہرا باندھ رکھا تھا۔ ہادی ، عائشہ کے ابو اور بھائی لڑکے والوں کو ہار پہنا کر گلے ملے۔ باقی قطار میں کھڑے لوگوں نے فوراً پارٹی پوپرز پھاڑنے شروع کیے۔ رنگ برنگے چھوٹے چھوٹے ذرّات اُڑ کر باراتیوں پر گرنے لگے۔
کچھ دیر بعد عائشہ کے بھائی ، ابو اور ہادی برائڈل روم میں نکاح خواہ کے ساتھ داخل ہوئے۔ نکاح نامے پر سائن کرتے ہوئے اسنے نم آنکھیں اٹھا کر ابو کی طرف دیکھا جنہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا، پھر اسنے ہادی کی طرف دیکھا جسنے مسکرا کر سر کو جنبش دی۔ مخروطی مہندی سے بھری انگلیاں پین تھامے سائن کرنے لگیں۔ مبارک باد دے کر مولوی صاحب لڑکے سے سائن کروانے چلے گئے۔ نکاح کے بعد مبارک باد کا سلسلہ چلا، پھر لڑکی کو لاکر سٹیج پر بیٹھایا گیا۔ کئی تعریفی جملے ادا کیے گئے۔
"دلہا بڑا پیارا ہے"۔
"دلہن تو حور ہے حور۔۔"
"کیا جوڑی ہے "
"ماشاءاللہ بولو فوراً"۔
سلامیاں اور تحائف دینے کے بعد کھانا سَرو کیا گیا۔ لڑکے سب سے کھانے کا اور 'کچھ چاہئے تو نہیں؟' پوچھتے پھر رہے تھے۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ احد بھی کھانا چھوڑے ہادی کے ساتھ میزبانی کر رہا تھا۔ ہادی نے جب اسے کہا کہ تم بیٹھ کر کھالو تو وہ بِگڑ کر بولا "یار میں پرایاں تھوڑی ہوں۔۔"۔
ھدی لوگوں کو کھانے پر 'ٹوٹتا' دیکھ کر ذرا آرام سے بیٹھ گئی کہ رش کم ہو تو وہ کھانا ڈال لائے۔ ساری شادی کے دوران فاخرہ دادی اور سکینہ کے ساتھ ہی رہیں۔
"اہمم۔۔" وہ ایک ہاتھ میں بریانی کی پلیٹ اٹھائے دوسرے سے فراک سنبھالتی(جو بار بار ہیل میں پھنس رہا تھا) اسی ہاتھ سے پیپسی کا ٹِن اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
ھدی نے سر اٹھایا تو ہادی کو سامنے کھڑے پایا جو تھوڑا سا آگے جھک کر پیپسی کا ٹن اٹھا رہا تھا۔ پھر اسکے ہاتھ سے بریانی کی پلیٹ لی اور پیپسی اسے تھما دی۔
"آج تعریف نہیں کرو میری؟" اسنے ھدی کو دیکھ کر پوچھا۔
"جی؟" ھدی نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 'اف اس بندے کو تعریف سننے کی ضرورت ہے بھلا؟ ہائے صدقے جاؤں۔۔۔۔'
وہ کہہ رہا تھا "کیوں آج اچھا نہیں لگ رہا میں؟" اسنے شرارت سے پوچھا، براؤن آنکھیں چمک رہی تھیں۔
"نہیں بہت اچھے لگ رہے ہیں"۔ ھدی نے بے اختیار کہا۔
"کتنا اچھا؟"
"بہت زیادہ"۔ اس نے مزید کہا۔
"بہت مطلب کتنا؟" ہادی نے مزید پوچھا اور ساتھ ہی ساتھ بڑے مزے سے اسکی پلیٹ سے بلا تکلف نوالے لے کر کھا رہا تھا۔
"اتنے زیادہ کہ مجھے اس ہال میں سب سے اچھے آپ لگ رہے ہیں"۔ ھدی نے مسکرا کر کہا اور فوراً دانتوں تکے زبان دبائی 'او پاگل۔۔۔ایسے کون بولتا ہے؟'
وہ شاید ہنسا تھا یا شاید کچھ کہنے لگا تھا لیکن منہ میں چاول ہونے کی وجہ سے وہ کچھ کہہ پایا نا ہنس پایا، اُلٹا اسے کھانسی آنے لگی۔
ھدی نے ہاتھ میں پکڑی پیپسی کھول کر آگے بڑھائی جسے اسنے تھام کر دو گھونٹ بھرے اور کچھ لمحوں بعد نارمل ہوا۔
"تھینک یو"۔ اسنے پیپسی اسے پکڑائی اور آگے بڑھ کر پلیٹ میں تھوڑا اور کھانا ڈال کر اسکی طرف بڑھایا۔
"ایسی تعریف پر تو مجھے بنگھڑا ڈالنا چاہئے۔ لیکن کیوں نا تعریف کے بدلے تعریف کردوں؟" اسنے مسکرا کر پوچھا۔
"ارے نہیں میں نے تو۔۔"
"ھدی، تم بھی اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ مجھے اس حال میں سب سے زیادہ اچھی صرف تم لگ رہی ہو۔ قسم سے۔۔" اس کا لہجہ بالکل صاف تھا۔ ھدٰی کا بلش ہونا لازم تھا۔ ہونٹ دھیمے سے مسکرائے بھی تھے، وہ نظریں جھکا گئی۔
اس پر مسکراتی نظر ڈال کر وہ پلٹ گیا۔
-------
"ہادی خبردار اگر تُو رویا تو"۔ پیچھے کھڑے ہادی نے اونچی آواز میں کہا۔
"میں کیوں رؤوں گا؟" ہادی نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ عائشہ کی رخصتی ہورہی تھی اور دلہے کی گاڑی کے سامنے کھڑی وہ سب سے مل رہی تھی۔ ہادی کے گلے لگ کر وہ رونے لگی تو ہادی نے اپنی نم آنکھیں چھپائیں اور اسے سیدھا کیا "خبردار اگر روئی تو، میک اپ خراب ہوگیا تو شہروز بیچارا ڈر جائے گا"۔ اس کے کہنے پر وہ روتی روتی مسکرا دی۔
یہ اسکی بہن تھی جس کی ہر خواہش اسنے بچپن سے پوری کی تھی اور اسکے سگے بھائیوں سے زیادہ پیار اسے کیا تھا۔ وہ شہروز کی طرف مڑا۔۔
"میری بہن کا خیال رکھنا"۔
"آپ کا حکم سر آنکھوں پر"۔ اسنے سعادت مندی سے گردن جھکائی۔ گاڑی آگے چلی گئی تو اسنے آگے بڑھ کر روتی دادو اور سمینہ کو چپ کروانے کے لیے انہیں ساتھ لگایا۔ اور ایک آنسو اسکی آنکھ سے بھی چھلک گیا۔ "پگلی۔۔آئی وِل مِس یو۔۔۔" اور سر جھکا کر ہنسا۔ بہنیں ہوتی ہی ایسی ہیں۔۔ پاس ہوں تو ہنساتی بھی ہیں دور چلے جائیں تو رُلاتی بھی ہیں۔
اس کے اس عمل کو دیکھ کر پیچھے کھڑی لڑکیاں بھی رونے لگیں جو میک اپ کے خیال سے آنسو روکے کھڑی تھیں۔
"میں کیوں رؤؤں گا؟" احد نے اسکی نقل اتاری۔ ہادی نے مڑ کر اسکا کندھا تھپتھپایا (بمشکل مکّا مارنے سے روکا)۔ احد کی اپنی آنکھیں نم تھیں وہ فوراً ہادی کے گلے لگا۔ اور دونوں ہنس دیے۔
---------
"اچھا تم نے اپنا کانفیڈنس بحال رکھنا ہے ۔ کنفیوز نہیں ہونا"۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آفس کی طرف جارہی تھی۔
"اور وہ کچھ بھی کہہ لے۔۔۔کچھ بھی ، اپنی بات سے پیچھے مت ہٹنا اور نا اسکی بات ماننا"۔ احد کے ایک ہفتہ پہلے دیے گئے لیکچر کے ڈائلاگز وہ اپنے ذہن میں دہرا رہی تھی۔
"گھبرانا مت، تم اپنے لیے کھڑی ہورہی ہو"۔
رک کر دروازہ ناک کیا۔
"یس کم اِن"۔ اندر سے عاصم کی آواز آئی۔
وہ اندر آئی اور اسکی میز کے پاس آکھڑی ہوئی اور میز پر ایک کاغذ رکھا۔ عاصم نے الجھ کر اسے دیکھا پر پیپر اٹھایا۔
"میں یہ جاب چھوڑ رہی ہوں"۔ عاصم نے اسکی آواز سنی۔
"اگر وہ کہے کہ نہیں ہماری کمپنی میں جاب چھوڑنے سے پہلے بتانا پڑتا ہے یا یہ وہ۔۔۔ تو کہہ دینا میں نے ایسا کوئی پیپر سائن نہیں کیا"۔ احد کی بات اسکے ذہن میں گونجی۔
عاصم اپنی سیٹ سے اٹھا۔ ھدی لحظہ بھر کو گھبرا گئی۔ وہ قدم اٹھاتا اس کے قریب آکھڑا ہوا۔ بے حد قریب۔۔۔
"اوکے۔ اور کچھ؟" نرم لہجے میں کہتے ہوئے اسنے ھدی کا گال چھُوا پھر تھپتھپایا۔
'اتنے آرام سے مان گئے؟'ھدی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اور اسکی آنکھیں۔۔۔ان آنکھوں میں کیا تھا؟
ھدی یک دم ایک قدم پیچھے ہٹی۔
-----------

دل کے دریچےWhere stories live. Discover now