سروں پر تمتماتی کرنوں کو پار کر وہ اپنی بل کھاتی زلفوں کو فضاء میں لہراتی ان دونوں کی کلاس میں اپنے ہیل والے سینڈل سے پہلا قدم جماتی ہے_ پہلی نظر سیدھا اُس کے چہرے سے جا ٹکڑائی _کلاس میں کوئی ٹیچر نہیں تھے سو وہ اپنی دلفریب مسکراہٹ لیے نزاکت سے چلتی اُس کے پاس جانے کو دوسرا تیسرا قدم اٹھاتی آئی۔
...
ذیشان سے بات کرتا میر سیدھا ہوا تو سامنے سے ماہم اپنے ہونٹوں پہ طلسماتی تبسّم بکھیرتی اس کی اوڑھ چلی آ رہی تھی ( آہہہہہ کتنی خوبصورت ہے یہ مسکراہٹ، میر بھی اپنے لبوں پہ جادوئی مسکان سجائے اُسے آنکھوں میں اتارتا اپنے سینے پے ہاتھ رکھتا ہے۔۔
ذیشی زرا اپنا پرس دینا، ماہم ہتھیلی بڑھا کے اُس کے ساتھ بیٹھے ذیشان کو مخاطب کرتی ہے _
کیوں دوں؟ میں نے نہیں دینا، جب سے آئی ہو میرے پرس کی جانی دشمن بن چکی ہو، ذیشی اپنا پرس دینا ذیشی اپنا پرس دینا، ذیشان باقاعدہ اس کی نقل اُتارنے سے گریز نہیں کرتا۔
بہت برے ہو تم میں تایا ابو کو تمھاری شکایت کروں گی، اُس کے سامنے اس بِستی پر وہ کچی ہو جاتی ہے _
کر دو آج تم ۔ ۔ یہ اچھی دھمکی ہے تمھاری۔جاؤ کر دینا شکایت اپنے تایا ابا سے لیکن میں نہیں دینے والا، ذیشان نے اُسے ہری جھنڈی دکھائی ۔
دے دو نہ یار اپنی بہن کو پرس، میر اُس پے نظریں رکھتا ذیشان سے گویا ہوا پر ذیشان آگے سے آگ بگولا ہوتا اُسے کہتا ہے۔
تو دے دے نہ اپنا پرس میں نے ٹھکہ نہیں اٹھایا اس کا۔
میر بنا کچھ کہے اپنا پرس نکال کر اُس کے سامنے پیش کرتا ہے جیسے وہ پہلے ہی تیار ہو۔۔
ماہم ابھی ذیشان کو کچھ سنانے والی تھی اک دم اُس کا پرس والا ہاتھ سامنے دیکھ رکتی پیچھے ہٹی اور پرس سے ہوتے ہوئے نگاہ اس پر ڈالی،،،
میر مسکرا کر اُسے ہی تک رہا تھا۔۔
اک نظر ملتے ہی وہ چہرہ ذیشان کی طرف پھیر لیتی ہے اور بگڑے ہوئے تیور کے ساتھ اُس سے گو ہوتی ہے ، تمھیں تو میں گھر جا کر پوچھوں گی ذیشی کے بچے،،،
جو پوچھنا ہے پوچھ لینا مائی ڈیئر سسٹر ۔ اور تم نے اپنا پرس سامنے کیوں کرے رکھا ہوا ہے؟ ذیشان ماہم کو کہتا اُسے بولتا ہے جو شاید اپنا پرس اٹھانا بھول جاتا ہے ۔
وہ کچھ بھی نہیں بولتا بس ماہم کو ہی دیکھتا ہے ۔۔
اٹھا لے بھائی اٹھا لے ورنہ میری ماہم اٹھا لے گی، ذیشان ماہم کا مذاق اڑتا ہے۔
دے دو نا ذیشی پلیز_
نا نا ، وہ دونوں ہاتھ اٹھا کے پِھر صاف منع کر دیتا ہے۔
یہ لے لیں ماہم جی، اِنتہائی مودبانہ معصومیت سے کہتا میر اسکے دل کے سازوں کا چھوتا ہے۔۔
نو تھینکس، وہ بھی وہ مغرور لیلیٰ تھی جو بنا اُس سے نظریں ملائے جواب دیتی اس کے ہاتھ نہیں آنا چاہتی تھی،،،،
کیوں بھئی تجھے کیا جوش چڑا ہوا ہے دینے کا؟ اتنی عزت کے دائرے میں وہ بھی ماہم کے ساتھ! ذیشان میر کو گھورنے پر مجبور ہو گیا۔
تم نے کہا کے دے دو تو میں دے رہا ہوں، اس نے اسکے غصے میں کہہ الفاظ اسے یاد کروائے۔۔
یار میرے کہنے پر تو کبھی ایسی کرم نوازیاں تُو نے مجھ پر تو نہیں کیں پہلے؟ اُسے کہتا بلآخر وی اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ مارتا اپنا پرس تلاشنے لگتا ہے شاید اسے ماہم پر ترس آگیا تھا یا دوست کے سامنے عزت کا خیال ۔
ماہم سے اب اور وہاں ٹھہرنا مشکل ہو رہا تھا میر کی نظروں کی مسلسل تپش اسے خود پہ کسی لاوے کی طرح لگ رہی تھی وہ بنا اور کہے وہاں سے چلی جاتی ہے حال آنکہ وہ ذیشان کو پرس نکالتی دیکھ چکی تھی،،،،
اِسے کیا ہوا؟ ذیشان جیب سے پرس نکال کر کھولتا ہوا رکا۔
مجھے کیا پتہ؟ وہ کندھے اچکاتا ہے۔۔
YOU ARE READING
"الطريق الصعب"
Fantasy"ایک خوبصورت دنیا جہاں جھوٹے سپنوں کی سچی دنیا بستی ہے میری ۔۔ " مجھے یہ کہانی اس لئے خاص لگتی ہے کیونکہ اس میں اک زندگی قید ہے وہ زندگی جو بنا پنکھ کے اڑنا چاہتی ہے بنا آواز کے بولنا چاہتی ہے.... "الطريق الصعب " اک مشکل راستہ..... حالانکہ ہمارے پا...