" پچھتاوا " 32

808 45 17
                                    

پاوں میں کوئی کانٹا چُب یا کانچ کا چھوٹا سا زرہ کُھب جائے دونوں ہی صورتیں انسان میں ہیجان پیدا کر دیتی ہیں یہاں تک کے وہ نکل نہ جائے انسان اُسی تکلیف میں بےقرار رہتا ہے پر وہ ایک ایسی تکلیف سے گزر رہا تھا جس کا اُسے خود اندازہ نہیں تھا اس کے لیے شفاء کی چُپی ایک اذیت کی طرح تھی شفاء کی چپ کو اپنی بےبسی سمجھتا وہ آخر آتش زیرپا ہو اسے دیکھنے لگا__
شفاء نے سَر اٹھایا اور شاہمیر کی تپتی نگاہوں کی تپش سے گھبرا کر اپنی نظریں اپنے پاوں تک جھکا گئی^^

شاہمیر کو آج شفاء کی چُپ زہر جیسی لگ رہی تھی وہ شفاء سے بات کرنا چاہتا تھا اس کا دِل چاہا وہ شفاء کو اٹھا کے کمرے میں لے جائے اور اُس سے بات کرے اور ایسا کرنے سے اسے کوئی روک نہیں سکتا تھا لیکن پِھر خود ہی یہ مناسب نا سمجھا آج وہ شفاء پر بنا  اپنی کوئی بات  مسلّط کیے اس کا خود کا فیصلہ جاننا چاہتا ہے_
شاہمیر کے علاوہ بھی وہاں سب شفاء کے فیصلے کے منتظر تھے....
بسمل جو چاہتی ہو تم بتا دو انہیں ؟ ندیم ہونٹوں کے ساتھ آنکھوں کے اشارے سے بھی گویا تھا،،،
شاہمیر کو گھبراہٹ ہوئی کچھ کھونے کے احساس سے__
سمیر نے اپنے بھائی کو پہلی مرتبہ پریشان دیکھا تو  کچن جاکر ٹھنڈے پانی کی بوتل لے آیا اور شاہمیر کو گلاس میں ڈال کے پکڑایا،
بھائی پانی پی لیں !!
نہیں چاہیے_ شاہمیر ، سمیر کا گلاس والا ہاتھ پیچھے دھکیل دیتا ہے_
بھائی!!!
شاہمیر کا غصے سے چہرہ موڑ کے سمیر کو دیکھنا کافی تھا، سمیر بنا کوئی لفظ بولے خاموشی سے اپنی جگہ واپس جا بیٹھا!!!
بسمل تمہیں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں تم چلو ہمارے ساتھ ، ندیم کے اسے کہنے پر  سب ندیم کو دیکھنے لگتے ہیں سوائے صفدر کے اسکی نظریں کہیں اور تھیں،،،،
جو ہو رہا تھا بہت عجلت میں ہو رہا تھا شفاء سمجھ نہیں پا رہی تھی اسے کیا فیصلہ کرنا چاہیے!! اس کا دِل دماغ اس کے ساتھ نہیں تھے اسے ندیم بھائی اور سب کو کیا جواب دینا ہوگا؟ جھکی پلکوں سے آنسو گرنے لگے تو اسے اپنا سَر اور جھکانا پڑا ^^


لیکن صفدر سے شفاء کی آنکھوں کے آنسو چُھپے نہیں،
صفدر اپنے سے تقریباً 25 سال چھوٹی بہن کو دیکھ رہا تھا جس نے پچھلا کچھ عرصہ بڑی تکلیف کے ساتھ گزارا یہاں تک کے جب اسے یہ سچائی پتہ چلی کے وہ آسیہ بیگم اور مرتضیٰ صاحب کی بیٹی نہیں ہے تب بھی اُس نے کسی سے کچھ نہیں کہا . . نہ کوئی شکوہ کیا نا کوئی گلہ کیا بس خاموشی کی چادر اوڑھ لی پر آج وہ ان دونوں بھائیوں کے گلے لگ کے خوب روئی گِلے کیے ، صفدر سے سہن نہیں ہوتا وہ سامنے سے اٹھا اور شفاء کی دوسری سائیڈ پر جا کے اس کے پاس بیٹھ گیا اور پیار سے اُس کے سَر پر ہاتھ رکھ دیا،،،
شفاء نے سَر اٹھا کے بھیگی آنکھوں سے صفدر کو دیکھا صفدر کو اپنے اندر تکلیف ہوئی ،،،،
" بھائی " شفاء کے ہونٹوں سے دھیرے سے ایک لفظ نکلا^^
صفدر کو اس ایک لفظ بھائی میں بےپناہ درد محسوس ہوتا ہے،
بولو میرا بچہ کیا چاہتی ہو؟ جو تم چاہو گی وہی ہوگا اگر تم یہاں خوش نہیں تو، صفدر ایسے پوچھ رہا تھا جسے اسکی ماں ہو،،،،،
بھائی وہ میں، بولتے ہوئے اسکی نظر شاہمیر سے ملی تو اس کے الفاظ اسکا ساتھ چھوڑ گے،
پتہ نہیں کیا تھا اس شخص کی نگاہوں میں کہ وہ اس سے پِھر نظر چرا گی^^
بھائی آپ اِس سے کیا پوچھتے ہیں یہ کیا بولے گی مجھے پتہ ہے یہ یہاں خوش نہیں، ندیم نے اسے دیکھ کر کہا....
دیکھیے آپ __ شاہ میر سے چپ رہنا مشکل ہو گیا وہ غصے سے کہتا کھڑا ہوا تو حذیفہ اس کے ساتھ کھڑا ہو کے خود بولنے لگتا ہے،
دیکھیے ایسی کوئی بات نہیں یہ یہاں خوش ہیں انہیں یہاں کوئی مسئلہ نہیں، حذیفہ شاہمیر کا بازو تھامے آرام سے کہتا ہے !!
تم سے کس نے پوچھا ہے؟  ندیم حذیفہ کے بیچ میں بولنے سے سیخ پا ہوا،،،،
آپ کو کس نے حق دیا؟ ایسے بات کرنے کا یہ میرا گھر ہے، شاہمیر  ندیم کو اس کی ٹون میں جواب سے نوازتا ہے__
ہمیں کوئی شوق نہیں ہے یہاں رکنے کا ہم اپنی بہن کو لینے آئے ہیں اور اسے یہاں سے لے کر جائیں گے تم نے جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو، ندیم کو علم نہیں تھا وہ کسے کیا کہہ رہا تھا،،،،،
ٹرسٹ می آپ اس کو کہیں نہیں لے جا پائیں گے میری اجازت کے بغیر یہاں سے! یہ میں کہہ رہا ہوں یہ شاہمیر خاور شاہ کی بیوی ہے، استہزائیہ پن میں پورے وثوق سے کہا__
تو چھوڑ دو اسے ہم کہہ رہے ہیں اور تمھارے لیے کون سا مشکل ہوگا ایسا کرنا؟ ندیم اسے طنز کرگیا) کیوں کے ہم تو اپنی بہن کو ساتھ لے کر آج ہی جائیں گے،،،
بس (اس نے ہاتھ اٹھا کر سیدھا کیا) میں نے جتنا سننا تھا سن لیا اور نہیں میرے  گھر میں کھڑے رہ کر مجھ سے اِس ٹون میں بات کرنے کا میں آپ کو حق نہیں دیتا !! مجھے بار بار میری بیوی کو چھوڑنے کا کہنے والے آپ ہیں کون؟ کیا وقعت ہے آپ کی سوائے نام کے بھائی کی؟ شاہمیر کے غصے کو قابو کرنے کی حد جواب دے گی  پتہ نہیں وہ آدمی خود کو کیا سمجھتا ہے اسے سمجھانا تو تھا__
تم، ندیم نے بھی انگلی اٹھائی،،،
ندیم ٹھہرو ایسے جلدبازی مسئلے کا حَل نہیں، صفدر اپنے بھائی کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، صفدر خود سمجھداری سے کام لے رہا تھا،،،، صفدر بھائی ہمیں اب کوئی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہاں سے چلیں یہ لوگ پتہ نہیں ہماری بہن کو، ندیم آگے کچھ بول پاتا کے شاہمیر نے اسکی بات  کاٹ ڈالی،
اتنے دن بعد اچانک آپکو آپکی بہن یاد__ شاہمیر ندیم کو دو چار سنانے کا قصداً کیے تھا لیکن اچانک شفاء پہ نظر گی تو آگے بولتا بولتا چُپ کر گیا__
شفاء کی آنکھیں  بھیگتی  صفدر کے دِل پر سوئیاں مار رہیں تھیں اسے یاد آیا،
" سالوں پہلے جب وہ اک دن  کالج سے گھر لوٹا تو ندیم رَو رہا تھا امی کہ کمرے  کے باہر بیٹھا صفدر پریشان ہوکے اس کے پاس آیا! کیا ہوا ندیم تم رَو کیوں رہے ہو اتنے بڑے ہو کے؟
بھائی دیکھو نہ اماں گھر میں بہن لے آئی ہے اور محلے کے سارے لڑکے میرا مذاق اُڑا رے ہیں، ندیم اس وقت 20 سال کا جوان خون تھا،،،،،
صفدر چُپ کر گیا اسے کیا بتاتا کے اسے بھی باہر نکلنے پہ مبارکبادیں مل رہی ہیں اور تو اور اسکی ( منگیتر ) مریم الگ اس سے بات نہیں کر رہی جب سے وہ پیدا ہوئی تھی کے ساسو ماں کو اِس عمر میں کیا سوجھی جو بہو لانے کے بجائے  بیٹی پیدا کر لی....
بھائی ابا اماں کو بولو مجھے یہ نہیں چاہیے سب مزاق اڑاتے ہیں دلاور نے بھی اسکول میں سب کو بتا دیا ہے سب لڑکیاں مجھے مبارک دیتی ہیں. . .اور  اماں اب میرا خیال نہیں رکھتی کچھ نہیں کہتی بس چُپ رہتی ہے یا اسے گود میں لیے رکھتی ہیں سارا دن ،،،،،
ٹھیک ہے تمہیں نہیں چاہیے تو میں لے جاتی ہوں اسے اپنے ساتھ بس، پتہ نہیں کب سے آسیہ بیگم ان دونوں کی باتیں سن رہیں تھیں!!
نہیں خالہ یہ تو ایسے بول رہا تھا، صفدر خالہ کو دیکھ کے شرمندہ ہوتا ہوا بولا...
ہاں جانے دیں بھائی ہمیں نہیں چاہیے، ندیم نے صفدر کو روکا ،،،
ہاں ہاں  لے جارہیں ہوں اپنی
بسمل کو پِھر نہیں دونگی کبھی واپس، آسیہ بیگم بہن کے کمرے میں جانے کے لیے مڑی پر دروازے کے بیچو بیچ انکی بڑی بہن کھڑی دکھ سے سنتی برداشت نہیں کرپاتیں!!
مت دینا نہیں چاہیے ہمیں یہ، ندیم آگے سے بدتمیزی سے جواب زمین پر پڑی پلاسٹک کی بوتل کو ٹھڈا مارتا ہے،،،
اور صفدر اسے اتنا جذباتی دیکھ کے خالہ کو آگے سے کچھ نہیں کہتا نا اسے اپنی ماں کھڑی نظر آئی، وہ اپنے دھیان میں یہ سوچ رہا تھا کہ کچھ دن بعد سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن بسمل کے جانے کے بعد کچھ ٹھیک نہیں ہوا بسمل کے ساتھ اماں بھی چلی گی ہمیشہ کیلئے، صفدر نے بسمل کو آسیہ بیگم کو دے تو دیا تھا پر وہ کبھی اس سے الگ نہیں ہو سکا تھا بچپن سے ہی وہ اسے بہت عزیز تھی وہ جب جب خالہ  کے گھر جاتا اس کے لیے  ڈھیروں اسکی پسند کی چیزیں لے کر جاتا جنہیں دیکھتے ہی وہ خوش ہو جاتی اور اسکو خوش دیکھ کے وہ  اس کے ساتھ خوش ہوتا لیکن جب اک دن اچانک سے اس کا ایکسڈینٹ ہوا تو وہ اسکے بعد سے بہت خاموش ہوگئی کسی  بات پر خوش نہیں ہوتی اور صفدر کو اس کی حالت دیکھ کر اور تکلیف ہوتی اس نے خالہ کے گھر جانا ترک کردیا اور اسے سچائی پتا لگنے کے بعد سے وہ ویسے  بھی  اس سے نظر  نہ ملا پا رہا تھا پھر کس منہ سے جاتا ) "
لیکن آج اسے بسمل میں میں کچھ بدلاو ملا جب وہ اُس کے کمرے میں پہنچے تو وہ مسکرا رہی تھی اکیلے میں اور اب اس کی انہی آنکھوں میں آنسو ہیں صفدر سے اور دیکھا نہیں جاتا،
بس ندیم تم اور کچھ نہیں کہو گے اب ہم یہاں سے جائیں گے ہمیں بہت وقت لگ گیا،،،
میں  تو کب سے آپ کو یہی کہہ رہا ہوں بھائی کے ہمیں اب یہاں سے چلنا چاہیے اسے لے کر، ندیم شفاء کی طرف بڑھتا ہے،،،،
صفدر شاہمیر کو دیکھتا ہے جو کسی خوف کے مارے شفاء کو دیکھنے لگا تھا .....
چلو بسمل تم اب یہاں نہیں رہو گی ہمہارے ساتھ ہمہارے پاس رہو گی اپنے گھر میں، ندیم خوشی سے بہن کو کہتا ہے،،،
شفاء سَر اٹھا کے ندیم کو دیکھتی ہے ، یہی اُس کے وہ بھائی تھے جنہوں نے اسے آسیہ بیگم کے حوالے کرتے کچھ نہ سوچا گر سوچا تو یہ سوچا لوگ کیا کہیں گئے؟ تو وہ لوگ اب کہاں تھے^^
صفدر شفاء کے سَر پر ہاتھ رکھتا ہے...
ندیم میں کیا کہہ رہا ہوں تم نے سنا نہیں ،  کہتے ہوئے جانے کے لیے کھڑا ہوا،،،،
پر بھائی بسمل، ندیم صفدر کو روک کے کہتا ہے،،،
ندیم وہ نہیں.. تم چلو میرے ساتھ یہاں سے ، صفدر  اب کی بار بھائی کو غصے سے بولا،،،،،
ٹھیک ہے بھائی، پر تم یاد رکھنا ہم جا ضرور رہے ہیں پر ہماری بہن کو تنہا مت سمجھنا اگر اسے زرا سا کچھ ہوا کوئی تکلیف ہوئی تو ، وہ شاہمیر کو انگلی اٹھا کے بولا تو شاہمیر کے بجائے حذیفہ بولا،
ندیم صاحب آپ جب چاہیں یہاں آ سکتے  ہیں ان سے ملنے یہ یہاں بالکل ٹھیک ہیں آپ فکر نہیں کریں !!!

"الطريق الصعب"Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang