"کبھی کبھار کوئی ایک لمحہ ہماری زندگیوں میں زبردستی ایسے گھس آتا ہے کہ ہم اپنا سارا حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں کرچیوں سا بکھرتے ہیں بے پناہ تڑپتے گڑگڑاتے ہیں_ پِھر "اَلمُقَدّمُ" جس چیز کو چاہتا ہے اسے تیزی سے آگے لے آتا ہے تمہارے پاس بہت پاس اور جس چیز میں چاہتا ہے تاخیر کرتا اسے پیچھے کردیتا ہے وہ اپنے کرمِ تجلّی کی ہوا چلاتا یوں تھام کے سمیٹ لیتا ہے جیسے ماں اپنی گود میں اپنا چھوٹا بچا۔ وہ بھی اپنی موجودگی کا یقین دلاتے ہوئے ایسے تھامتے ہیں کے پِھر کبھی گر کے ٹوٹنے نہیں دیتے،
بےشک صرف وہی تو ہے بےانتہا مہربانی کرنے والا "اَلرَّحِیمُ"
اتنی محبت کرنے والا رب کہ اس دُنیا میں جہاں ان گنت لوگ بےشمار مخلوقات بستی ہیں ان سب کے باوجود بھی وہ کسی ایک سے بھی کبھی بے اعتنائی نہیں برتتا مشکل حالات میں تنہا نہیں چھوڑتا وہ ہمیشہ بتاتے ہیں کے میں تمھارے آس پاس تمھارے ساتھ ہوں مجھے آواز دے کر پکارو مجھے محسوس کرو میں جواب دوں گا لیکن یوں مایوس رہ کر مجھے فراموش مت کرو، لیکن ہم پھر بھی فراموش کر دیتے ہیں انہیں اپنے پاس محسوس نہیں کرتے اور وہ ہے کہ کبھی نہیں چھوڑتا_ ہمیشہ ہماری پکار کا منتظر رہتا ہے کہ اسے کب پُکاریں اپنی طرف اور وہ کب اپنی رحمتیں ہم پر برسائیں، اس کا ہمیں مشکل وقت میں تھامنا ایسا ہے مانو تپتے صحراؤں میں برسات کا ہو جانا جیسے ہمارے مردہ جسم میں اچانک سے جان کا پھونک دیا جانا، بیشک ﷲ تعالیٰ ہی ہیں جو موت کے بعد بھی زندگی بخشیں گئے، یہ ہمارے لیے امتحان ہی ہوتا ہے کے زندگی محسوس کرنے کے لیے موت جیسی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے اور مشکل رستہ پار کر لینے کا گر پا لینے والا اپنے سامنے صرف آسانیاں ہی دیکھتا ہے۔
کیوں کہ وہ_ ہمارا "مصورُ" ہے ۔ مختلف اشکال میں اپنی مخلوق کو تشکیل دینے والا " بنا کر، ہماری تخلیق کرنے والا مصور وہ یہ جانتا ہے اس کی بنائی تصویر میں کون سا رنگ کہاں سجنا ہے کتنا کہاں رنگ بھرا جانا ہے وہ تصویر کیسے اسے جچے گی؟ ہمیں مختلف رنگوں سے آراستہ کرنے والا وہ یہ کیسے نہ جانے جو دل ٹوٹ گیا ہے اسے کیسے جوڑنا ہے؟ کہاں سے جوڑنا ہے ہاں بیشک اُس سے بہتر تو کوئی اور جان ہی نہیں سکتا کے ہمارا دل کب کس جگہ سے کہاں سے جڑے گا کس معیار کے دھاگے اور رنگ سے پیوند لگ کر اس پر کھلے گا اس کی خوبصورتی کو بڑھائے گا پہلے سے اور پھر کوئی یہ جان نا پائے گا کہ یہ کبھی ٹوٹا بھی تھا یا کہیں سے جوڑا بھی گیا تھا بیشک وہ ایسے بنا دیتا ہے جیسے اس کی اصل شکل اور پہچان ہی یہی ہو "
ایسا ہی اک لمحہ بسمل کی زندگی میں شامل ہوتا، شام کی سرخی کو رات کی تاریکی میں ڈھلنے کی ابتداء کرتا ہے_" مرتضیٰ صاحب کے گھر کے باہر کھڑے لوگ بسمل کے منتظر ٹھہرے، شاہ میر گردونواح میں نظر مارتا بولا،
انکل میں یہاں سے سیدھا اپنے گھر جانا چاہتا ہوں، پر جمیل صاحب اُسے اپنے ساتھ گھر چلنے کا کہتے ہیں لیکن وہ منع کر دیتا ہے،
نہیں انکل میں چاہتا ہوں یہاں سے ہم ابھی اپنے گھر جائیں تو بہتر ہوگا۔ کہتے ہوئے اُس کی نظریں اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ گئی جہاں ابھی ابھی نازیہ نے بسمل کو بیٹھایا تھا۔۔
شاہ میر بیٹا تم اکیلے ہو پھر کیسے ہینڈل کرو گے؟ مسرت بیگم بھی اُسے اپنی سی کہنے کی کوشش کرتیں ہیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ چلے گھر کیوںکے اِس وقت اُس کے ساتھ گھر میں کوئی بھی اور نہیں تھا ان کی ملازمہ تک نہیں اِس لیے انہیں فکر ہوئی وہ اکیلا لڑکا کیسے کرے گا،_
آنٹی میں کر لونگا ہینڈل فکر نہیں کرہں اب یہ اک دن کی نہیں عمر بھر کی بات ہے اور میرے مشکل راستے کی شروعات میں اگر آج میں اپنی ذمہ داری سنبھال نہیں سکا تو آگے کیسے نبھا پاؤں گا؟ بس آپ میرے حق میں بہت ساری دعا کرئیےگا میں ہمارے اِس نئے راستے میں ثابت قدم راہوں کبھی بھی ڈگمگا کر پیچھے نہ ہٹوں، ان کا ہاتھ تھام اُس نے انہیں تسلی دی۔۔
ان شاءﷲ، مجھے پورا یقین ہے بیٹا تم کر لو گے، جمیل صاحب کو اس کی باتوں سے ہی نہیں اُس کے چہرے کے عزم کو دیکھ کر بھی اطمینان قلب ہوا ہاں یہ لڑکا کر لے گا اب اُن کی پریشانی ختم ہو چکی تھی۔
وہ سب تو ٹھیک ہے بیٹا پر پِھر بھی تم دیکھو نہ وہ ، مسرت بیگم ان دونوں کی باتیں سن کے پِھر کہہ اٹھیں،
امی شاہ میر ٹھیک کہہ رہا ہے ، حذیفہ انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس کی بھی نہ سنتیں بولیں،
بیٹا جو بھی ہے نئی دلہن گھر جا رہی ہے چلو اور کچھ زیادہ تو ہوا نہیں تو کوئی رسم وغیرہ ہی اس کا بھی تو کوئی ارمان_
امی آپ کیسی بات کرتی ہیں بچوں والی ، کیا آپ کو حالات کا اندازہ نہیں ہے ایسے میں کوئی رسم کیسے ہم؟؟؟ حذیفہ ماں کے سادے پن پر ہنستا بولا تھا _
اچھا، اب وہ کیا بحث کرتی اِس لیے جلدی سے اپنے ہاتھ کی انگلی سے ایک انگوٹھی اُتَار کے شاہ میر کا ہاتھ پکڑ کے اس کی ہتھیلی میں رکھتیں دوبارہ گویا ہوئیں، یہ تم بہو کو دے دینا_
آنٹی اِس کی ضرورت نہیں؟ وہ رنگ کے بجائے ان کے چہرے کو دیکھ کر بولا۔۔
نہیں ضرورت ہے بس تم اِسے رکھو اُسے دینے کے لیے اور تو تم لوگ میری کوئی بات مان نہیں رہے اب اتنا تو کرو نہ بیٹا، مسرت بیگم اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتیں ہیں_
امی آپ بھی نہ، مان لے بھائی یہ، حذیفہ مسرت بیگم سے بات کرتا شاہ میر کو کہتا ہے۔
شاہ میر پلیز میری بات سنیں گئے؟ ۔ ۔ نازیہ بسمل کو گاڑی میں بٹھا کر اُس کے پاس کھڑی تھی آخرکار خود ہی شاہ میر کو بلاتی ہے اپنی طرف ۔
جی بولیں ، وہ بنا دیکھے رِنگ پینٹ کی جیب میں ڈالتا اُس کے پاس آ جاتا ہے۔۔
ہمارا تعارف نہیں ہو سکا اب تک میں بسمل کی بڑی بہن اُس کی آپی ہوں ۔
جی آپی کہئیے ۔۔
یہ میرا نمبر رکھ لو ، وہ گیٹ کی طرف دیکھتی اُسے ایک کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا دیتی ہے ،
اور میری بہن کا خیال رکھنا یہ بہت ۔ ۔
نازیہ اندر آؤ بس بہت ہوا اور انھیں یہ واضح کرتی آنا کے آج کے بعد کسی کو بھی یہاں آنے کی ضرورت نہیں بس ہو گیا سب ختم، قائم گیٹ کو بند کرتا اونچی آواز میں بولا تو سب گیٹ کی طرف دیکھنے لگے_
بھائی آ رہی ہوں بس ایک من۔ ۔
میں نے کہا نہ آؤ اندر، نہیں تو تم بھی یہاں سے سیدھا اپنے گھر جا سکتی ہو، وہ اسے اور باقیوں یعنی بسمل کو صاف سنا رہا تھا کے اب یہاں آنے کی ضرورت نہیں انھوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے_
نازیہ کو اور کچھ بولنے کا وقت نہیں ملا تو وہ خاموشی سے بسمل کو دیکھتی اندر چلی جاتی ہے گیٹ کے۔
YOU ARE READING
"الطريق الصعب"
Fantasy"ایک خوبصورت دنیا جہاں جھوٹے سپنوں کی سچی دنیا بستی ہے میری ۔۔ " مجھے یہ کہانی اس لئے خاص لگتی ہے کیونکہ اس میں اک زندگی قید ہے وہ زندگی جو بنا پنکھ کے اڑنا چاہتی ہے بنا آواز کے بولنا چاہتی ہے.... "الطريق الصعب " اک مشکل راستہ..... حالانکہ ہمارے پا...