باب نمبر :١

4.2K 94 46
                                    


"جس باپ نے ساری ذندگی مجھے جینے کے ہنر اور اسباق سکھائے ہیں کیا اس باپ کے جانے کے بعد میں وہ سبق بھلا دوں یا پھر وہ ہنر جو برے وقت کے لیئے مجھے سکھائے تھے۔کیا یہ اس باپ کی بےعزتی نہیں ہوگی؟ کیا میں اسکی تربیت پر دھبہ نہیں لگا رہی؟نہیں میں ایسا نہیں کرسکتی۔مجھے ساری ذندگی ان اسباق اور ہنر کا پاس رکھنا ہے۔۔۔۔انکا پاس رکھنا مجھ پر فرض کردیا گیا ہے کیونکہ میرے باپ نے کوئی بات غلط نہیں سکھائی۔۔۔ہمیشہ مجھے جینے کے بہترین سبق سکھائے ہیں۔"

انکل اسماعیل کے سامنے کرسی پر بیٹھی وہ ان سے کہہ رہی تھی۔وہ اسکو بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔اتنی سی لڑکی کے لیئے اسکے باپ کے پڑھائے ہوئے سبق کتنے معنی رکھتے تھے۔کاش وہ اسکو روک لیتے۔۔۔۔کاش وہ انکے پاس ہی رہ جاتی۔

لان کے دھانے پر کھڑا نفس اسکی باتوں کےسحر میں جکڑا ہوا تھا۔وہ پہلے ہی اسکی محبت کی ڈور سے بندھ رہا تھا اور اب وہ اسکو بہت اونچے مقام پر جگہ دے رہا تھا جہاں صرف اور صرف وہ رسائی حاصل کر سکی تھی۔۔۔۔وہ کہاں ایسی لڑکیوں سےملا تھا یا کہاں اسنے اس بارے میں سوچا تھا۔وہ مبہم سا مسکرا کر ہٹ گیا۔

______________

گرمیوں کے لمبے دنوں کی چھٹیوں میں مزے ہوتے ہیں۔ایسے میں آئی۔ایٹ کی گلی نمبر تین کے بچے سٹریٹ میں کھڑے عصر کے بعد کھیلنے کا پلان کر رہے تھے۔

”یہ لائقہ کہاں رہ گئی۔“

سب بچے لائقہ گھر کے سامنے کھڑے تھے۔

”آجائے گی۔“سدن جو فٹ بال کو اوپر نیچے پھینک رہا تھا آہستگی سے کہنے لگا۔

”ویسے آج کھیلیں گے کیا ہم؟“صبور نے پوچھا۔

”اممم۔۔۔۔لائقہ آجائے پھر ڈیسائیڈ کریں گیں۔“سدن بولا۔

”ٹھیک ہے سدن۔“سدن سے تین سال چھوٹی بہن حور بولی۔

وہ سر ہلا کر۔۔۔کندھے اچکا کر پھر سے فٹ بال اچھالنے میں مصروف ہوگیا۔

سدن اور سبط اس بچہ پارٹی میں سب سے بڑے تھے۔وہ آپس میں بالکل بھی نہیں جھگڑتے تھے۔۔۔۔بالکل بھی نہیں۔اگر کسی دوسری سٹریٹ کے بچےانکے ساتھ جھگڑتے  پھر وہ بھی پورا پورا حساب چکتا کرتے اور حساب برابر کرنے میں سدن ماہر تھا۔وہ رس(10) بچے تھے اس سیکٹر کے۔

_______________

بارہ سالہ لائقہ مزے سے اپنے لمبے ہلکے بھورے اور کالے رنگ کے امتزاج  بالوں کی دو ڈھیلی ڈھالی پونیاں بنائے کھیلنے کے لیئے اپنے کمرے سے باہر نکلی۔لائٹ اورنج کلر کی شارٹ فراک کے ساتھ پنک کیپری پہنے وہ لاؤنج کا دروازہ کھولے وہ لان میں آئی۔جہاں اسکے پاپا جبرائیل چائے پی رہے تھے۔وہ بھاگتی ہوئی انکے پاس آئی اور انکے دونوں گالوں کو باری باری چوما اور پھر اپنی مما فاطمہ کے پاس گئی۔انکے بھی دونوں گال چومے۔انہوں نے بھی جھک کر اسکے گال کو پیار سے چھوا پھر سامنے ٹیبل پر پڑی پلیٹ میں سے ایک بسکٹ اٹھا کر اسکو تھمایا۔بسکٹ تھام کر اسنے ایک بائٹ لیا۔پھر دونوں سے مخاطب ہوئی۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now