باب نمبر:١١

740 69 122
                                    


سِدن پریشانی کی حالت میں کرسی کی پشٹ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ایک ٹانگ ذمین پر رکھی مسلسل جھلا رہا تھا اور دوسری ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی۔
حور جو اسکو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔۔پچھلے لان میں آئی تو سامنے سِدن بیٹھا تھا۔حور چلتی ہوئی اسکے پاس آئی۔

”سِدن!“حور نے کندھے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے اسکو پکارا۔

سِدن نے نرمی سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا پھر ٹانگ ٹیبل سے اتاری اور چپل پہننے لگا۔

حور دوسری کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔

”کیا ہوا ہے؟“اسکے چہرے پر پھیلے اضطراب دیکھ کر پوچھا۔

”کچھ نہیں۔“سِدن نے آنکھیں مسلتے ہوئے جواب دیا۔

”پھر ایسے کیوں بیٹھے ہو؟“ایک تو حور کے سوال۔

”حور تنگ مت کرو۔“

”اچھا بھئی نہیں کرتی تنگ۔۔۔سوچتے رہو جسکو سوچ رہے تھے۔ہنہہ۔“وہ بھی حور ہی تھی۔بات اگلوانے والی۔

”فضول مت بولا کرو۔“سِدن نے جیسے اپنا دفاع کرنا چاہا۔

”اچھا۔۔۔ٹھیک ہے۔نہیں بولتی اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟“

سِدن نےاسکو دیکھ کر آنکھیں پھیریں تو حور نے ہنکارا بھرا۔

”اچھااب بتا بھی چکو کیا ہوا ہے؟“

”بات شیئر کروں تم سے؟“اسکا مطلب تھا (کیا میرا راز رکھو گی؟)

حور کی آنکھیں چمکیں۔

”کب سے تو کہہ رہی ہوں کرو۔تمہے ہی سمجھ نہیں آرہا۔“

”وہ اصل میں۔۔۔۔میں لائقہ کو پسند کرتا ہوں۔“اقبالِ جرم کر لیا گیا۔

”کیا۔۔۔۔کیا کہا؟“حور چیخی پھر سِدن کی گھوری دیکھ کر خاموش ہوئی۔

حور کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔اسلیئے دوبارہ پوچھا۔سِدن نے اسکو ایسے دیکھا جیسے اسکا سر پھاڑ دے گا۔

”اچھا اچھا۔۔۔۔اب کچھ نہیں بولوں گی۔سچ بتاؤ لائقہ؟“اسنے جیسے تصدیق چاہی۔سِدن نےآنکھیں جھکا کر سر ہلا دیا۔

ہاں!جیسے اقبالِ جرم کیا گیا تھا۔

”کب ۔۔۔کیسے؟“حور ایک بار پھر سے چیخی۔

”پتہ نہیں۔“

”کیا مطلب؟“حور نے اچھبے سے پوچھا۔

”حور نہیں پتہ تو نہیں پتہ نہ۔“

”اسکو پتہ ہے؟“

سِدن نے نفی میں سر ہلایا۔

”حور ڈیڈی کہہ رہے تھے کاشف انکل کی بیٹی کے لیئے۔“

”تو تم ڈیڈی سے بولو نہ۔“

”نہیں میں پہلے لائقہ سے بات کروں گا۔“

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now