باب نمبر:٢٧

753 67 41
                                    

ہم کہتے اور سمجھتے ہیں سب کچھ ہمارے تابع ہو۔۔۔ہم جو کہیں وہ ہوجائے۔۔جو بات ہمارے دل کو اچھی نہ لگے۔،اس سے کسی کو روکیں تو سب رک جائیں۔
ہم صرف کہہ سکتے ہیں کسی کو اپنے مطیع نہیں کر سکتے۔۔۔اور کیوں ہو کوئی ہمارا تابع۔۔۔۔پیدا کرنے والے رب کے توتابع ہوتے نہیں۔۔۔وہ جو کہتا ہے اسکو سننا اور ماننا چاہتے نہیں ہیں اور چاہتے ہیں دوسرا ہماری بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بات مانے۔

ہر کسی کی اپنی زندگی ہے چاہے جیسے مرضی گزارے۔

سدن چلا گیا تھا۔۔۔۔۔اسماعیل صاحب بھی دوسرےمردوں کے ساتھ باہر نکل گئے تھے۔
طاہرہ اور باقی سب لاؤنج میں ہی بیٹھے تھے۔

طاہرہ نے فاطمہ سے رخصتی کے لیئے کہہ دیا۔۔۔۔۔فاطمہ نے جہاں اپنی بیٹی انکی بات مان کر خاموشی سے انکو سونپ دی تھی تو اس بات پر ضد کر کے کیا حاصل کر لیتیں۔
لائقہ کو پہلے ہی کہہ دیا گیا تھا جو ہو رہا ہے ہونے دو ، کسی دوسری بات کو رد کرنے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

مغرب سے تھوڑی دیر پہلے رمضان کا چاند نظر آگیا۔
چاند کی پہلی رات۔۔۔۔نیا مہینہ۔۔۔نئی شروعات۔۔۔نئی سوچیں۔۔۔۔نئی امیدیں۔۔۔نئی امنگیں۔۔۔۔نئی زندگی!

مغرب کی نماز کے بعد اسماعیل صاحب بھی آگئے۔۔۔طاہرہ اور انہوں نے مل کر فاطمہ سے بات کی۔

فاطمہ اندر کمرے میں گئیں اور ایگ بیگ لا کر لائقہ کے قریب رکھا۔

لائقہ نے سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا۔
فاطمہ نے اسے کھڑا کیا۔

”لائقہ میری عزیز از جان بیٹی۔۔۔۔۔جس نے ہمیشہ میرا سر اونچا رکھا ہے اور آئندہ بھی رکھے گی۔۔۔إن شاءالله۔مجھے تم سے کوئی گلا نہیں ہے لائقہ۔۔۔۔کوئی گلا نہیں ہے۔۔۔بھلا تم سے کیسے شکایت ہوسکتی ہے مجھے۔۔۔تم نے وہ کر دکھایا جو بیٹے بھی نہیں کر پاتے۔میں نے سوچا تھا تمہیں اچھے طریقے سے دوسرے گھر وداع کروں گی۔۔پر۔۔۔۔پر ضروری تو نہیں نا جیسا ہم سوچتے ہیں ویسا ہی ہو۔۔۔۔ہمارے ساتھ بھی ویسا نہیں ہوا۔“
انہوں نے لائقہ کی پیشانی چومی۔۔۔اور اسکا دوپٹہ صحیح کیا۔

”تم میری صابر بیٹی ہو۔۔۔اپنے صبر پر قائم رہنا۔۔۔۔کسی کی کوئی بات بری بھی لگے تو دل میں کینہ مت آنے دینا۔۔۔تمہیں تو اچھے سے ایثار دینا آتا ہے نا زندگی کو۔“
فاطمہ نے مسکرا کر بولا۔

”یہ مت سمجھنا میں نے تمہیں بوجھ سمجھ کر اتار کر کسی دوسرے کے سر لاد دیا ہے۔۔۔۔۔بھلا اتنا خوبصورت ہیرا کوئی گنوانا چاہتا ہے؟۔۔۔نہیں نا میں بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔لیکن سب والدین کی طرح مجھے بھی اپنا خوبصورت اور قیمتی ہیرا کسی کو دینا پڑ رہا ہے۔“
انہوں نے نم ہوتی آنکھوں سے مسکرانے کی سعی کی۔

”اپنی ماں سےبدگمان مت ہونا۔“

”نہیں مما آپکی بیٹی کو آپ پر ناز ہے۔“ لائقہ نے فوراََ کہا۔
اس نے اس دوران صرف یہی جملہ بولا۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now