باب نمبر:٣١

759 79 53
                                    

منتشر سوچوں کے ساتھ وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے فٹ پاتھ پر چل رہا تھا۔۔۔۔پھر فٹ پاتھ کے دائیں طرف لگے گھاس پر چلنے لگا۔۔۔تھوڑی دیر بعد رک کر اسنے واپسی کے لئیے قدم بڑھائے۔۔۔۔لیکن اسے دل سے تھوڑا اوپر ، بائیں کندھے سے تھوڑا قریب کوئی چیز دھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔اسنے تکلیف سے ہاتھ اٹھا کر اس جگہ رکھا۔۔۔۔ہاتھ خون سے رنگ چکا تھا۔۔۔۔
اسنے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھا۔

آنکھیں بند کرتے ہوئے اس خوبصورت انسان کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا جسے وہ محبت کرتا تھا۔۔احترام کرتا تھا۔۔۔۔الفت رکھتا تھا۔

وہ کتنی اہم تھی اسکے لئیے کوئی اس سے پوچھتا تو صحیح۔

______________________

شام ہونے میں تھوڑا وقت تھا۔۔۔۔پرندے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔۔۔۔اذان ہونے میں کچھ ہی دیر تھی۔
بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھ کر اسنے کیچر لگایا ہوا تھا۔سفید رنگت تھکن کے باعث سرخ ہورہی تھی۔۔۔بہت اہتمام سے ڈائننگ سجایا گیا۔
آخری نظر ڈال کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔کچن میں آصفہ بیگم چولھے کے سامنے کھڑی تھیں۔

”کیا رہ گیا؟“

”بس یہ کوفتوں کو دم لگانے والی ہوں۔“

انہوں نے مسکرا کر حور کی جانب دیکھا۔
جو اپنی ہر ذمہ داری خوش اصلوبی سے نبھا رہی تھی۔

کلینک والے واقعے کو تقریبا تین ہفتے گزر چکے تھے۔۔۔۔سبط یا حور۔۔دونوں نے کسی سے ذکر نہیں کیا تھا۔حور کافی ڈر گئی تھی لیکن سبط نے اسکے دماغ سے وہ ڈر نکال دیا تھا۔(کیسے۔۔۔یہ تو سبط کو یا پھر حور کو ہی پتا ہوگا ناا۔۔۔)

آصفہ بیگم کے گال پر بوسہ دے کر وہ کچن ٹیبل کی طرف بڑھی جس پر کیک رکھا ہوا تھا۔ ساتھ میں کیک کو سجانے کے لیئے چیزیں بھی پڑی تھیں۔اسنے کیک خود بنایا تھا۔

کیک کو اچھے سے سجا کر ایک مطمئن نظر ڈالی اور پلیٹ کو اٹھا کر فریج میں رکھ دیا۔

”حور جاؤ چینج کر لو۔“

”جی ممی بس جارہی۔“
انکو جواب دے کر وہ کیبنٹ سے کھانے کے لیئے پلیٹیں،باؤل اور چمچمیں وغیرہ نکال کر کچن ٹیبل پر رکھنے لگی۔
تسلی بھری سانس خارج کر کے وہ اوپر کی جانب چلی گئی۔

شاور لے کر مغرب کی نماز پڑھی پھر بالوں کو برش کر کے کھلا چھوڑ دیا۔

ہاں وہ گھر سے باہر جاتے وقت ضرور بل ضرور چادر لیتی تھی لیکن گھر میں وہ وہی پرانی حور تھی اور سبط کو اس بات پر ذرا بھی اعتراض نہیں تھا کیونکہ کوئی اور بات سبط کہتا تو وہ بنا چوں چرا کے مان لیتی۔

یہ حور کا اسکی محبت میں اسکے سامنے بچھ جانا نہیں تھا بلکہ یہ اس رشتے کا تقاضہ تھا۔یہ رشتہ جتنا مضبوط ہو اتنا ہی نازک ہوتا ہے اسلیئے اگر آپ آج ایک کی مان رہے ہیں تو کل کو وہ بھی آپکی مانے گا۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now