باب نمبر:٢١

765 65 208
                                    


وہ اسکے سرہانے بیٹھی۔۔۔۔بہت نرمی سے اسکے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی۔نیم غنودگی کے عالم میں اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو چہرے کے سامنے اسی کا چہرہ تھا جسے وہ ہمیشہ اپنے مقابل دیکھنا چاہتا تھا۔
وہ جو اسی کے چہرے پر نظریں ٹکائے بیٹھی تھی۔۔۔۔اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر تشکر سے رو پڑی۔

لیکن بھلا وہ اسے روتا کیسے دیکھ سکتا تھا؟ کبھی نہیں۔۔۔۔اسکے لیئے تو بہت معانی رکھتی تھی وہ۔۔۔۔دل کے اونچے مقام پر نشیمن تھا اسکا۔

”کیا ہوا رو کیوں رہی ہو؟“ بہت نرمی سے اپنے دائیں ہاتھ کو اسکے گال پر رکھ کر بہت فکرمندی سے پوچھا۔

”تم اتنا کچھ کرتے ہو۔۔۔۔میں رو بھی نہیں سکتی؟“ سوں سوں کرتی وہ گویا ہوئی۔

”تمہیں ہر چیز کی اجازت ہے میری طرف سے لیکن رونے کی نہیں۔“اسکے سنجیدگی سے کہے جملے میں کیا کچھ نہیں تھا۔۔۔پیار ، محبت ، یقین ، اعتماد اور سب سے بڑھ کر عزت۔

اسنے روتی سوجی آنکھوں سے اسے دیکھا۔
ابھی بھی وہ کہتی کہ یہ شخص میرے بارے میں نہیں سوچتا۔۔۔۔تو اور کیا ثبوت چاہیئے تھا اسے ماننے کو؟

____________________

سِدن ڈریسنگ روم میں گھسا اپنے کپڑے بیگ میں رہا تھا کہ اسے کمرے کے دروازے کی کھلنے کی آواز آئی۔اسنے نظر انداز کر دیا کیونکہ مشال ہی ہو سکتی تھی۔
اپنی شڑٹ بیگ میں رکھ رہا تھا کہ مشال کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔شاید وہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔

”مجھے نہیں پتہ یار! ہاں جا تو رہا ہے پرسوں۔ٹھیک ہے آؤں گی ملنے۔اتنا آسان ہےتمہارے خیال میں طلاق کا مطالبہ کرنا؟ حد ہے بےقوفی کی۔“

وہ جو بیگ کی زپ بند کر رہا تھا طلاق کے لفظ پر اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔تن فن کرتا ڈریسنگ روم سے باہر نکلا تو مشال جو کھڑکی کے پاس کھڑی تھی پلٹی اور اورسِدن کو دیکھ کر اسکی سٹی گم ہوگئی کیونکہ وہ سمجھ رہی تھی کمرے میں اس وقت کوئی نہیں ہے۔تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے سِدن کو باہر جاتے دیکھا تھا۔۔۔واپس کب آیا۔۔۔۔اسلیئے تو بےفکری سے بات کر رہی تھی۔۔اسنے نامحسوس انداز میں فون کو کان سے ہٹا کر کال کاٹ دی۔

”کیا کہا آپ نے؟“ سِدن نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔

”کک۔۔۔کیا؟“ مشال نے آنکھیں چراتے ہوئے کہا۔

یہ پہلی مرتبہ تھا انکے درمیان بات ہو رہی تھی۔لیکن دونوں میں سے ایک نے بھی نہیں سوچا تھا کہ بات ایسے اور اس بارے میں ہوگی۔

”طلاق۔۔۔آپ مجھ سے طلاق چاہتی ہیں؟“
سِدن نےاسے بازو سے دبوچ کر کہا۔

مشال نے جواب نہیں دیا بلکہ سِدن کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

”ہاں یا ناں؟“ سِدن تقریباََ دھاڑا۔

”ہاں۔“ مشال نے بغیر ڈرے بولا۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now