باب نمبر:٦

824 68 28
                                    

رات کا اندھیرا ہر طرف چھاہ چکا تھا۔اکا دکا لوگ گلی میں ہوں گے۔خاموشی کا راج تھا۔ایسے میں لائقہ لان میں اپنے ہاتوں کی انگلیوں کو آپس میں بھنسا کر سر تھام کر بیٹھی تھی۔لاؤنج میں کافی رش تھا۔حائقہ کو دو دن ہوگئے تھے ہاسپتال سے واپس آئے۔محلے کے کچھ لوگ حائقہ کی طبیعت پوچھنے آئے ہوئے تھے۔ان میں وہ آنٹیاں بھی تھیں۔ان کی معانی خیز نظروں سےبچنے کے لیئے وہ لان میں آکر بیٹھ گئی۔

لائقہ نے حائقہ کا سامنا بہت کم کیا تھا اور دو دنوں سے ویسے ہی وہ نیچے فاطمہ کے کمرے میں سو رہی تھی۔اسکی طبیعت میں چِڑچِڑا پن آگیا تھا۔وجہ لائقہ کا اس سے کھنچا کھینچا رہنا تھا۔

”لائقہ یہاں کیا کر رہی ہو؟جبرائیل جو اسکو ڈھونڈتے ڈھونڈتے باہر آئے تھے۔“لان میں اسے دیکھ کر وہیں آگئے۔

”کچھ نہیں بابا!“

انہوں نے کرسی کھینچ کر اسکے ساتھ رکھی اور بیٹھتے ہوئے بولے۔

”لائقہ ایک بات بتاؤ؟“

”جی بابا!“

”لائقہ میں نے محسوس کیا ہے آپ حائقہ سے دور ہوگئی ہو۔کیا بات ہے لائقہ مجھے بتاؤ۔“
جبرائیل نے دیکھا اس نے نظریں چرائی ہیں۔

”لائقہ!“جبرائیل نے پکارا تو اسنے اپنی آنکھیں اٹھا کر دیکھا جن میں نمی واضح طور پر تھی۔
جبرائیل نےاسکے ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کیا۔

”بس میرے بیٹے۔۔۔بس آپ تو بہت بہادر ہو۔آپ ایسے رو گی۔۔۔۔ کیسےچلے گا ہاں ؟“
کچھ دیر رونے کے بعد اپنے آنسو صاف کر کے اسنے جبرائیل کو دیکھا۔

”بابا۔۔۔بابا سب کہتے ہیں حائقہ میری وجہ۔۔۔میری وجہ سے بیمار ہوئی ہے۔میں نے اس سے غفلت برتی تھی۔بابا میں جیلس نہیں حائقہ سے۔وہ تو میری۔۔۔میری ایک ہی بہن ہے نہ پھر بھلا میں کیسے اسکے لیئےبرا سوچ سکتی ہوں؟“
جبرائیل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

”بس میری جان کس نے کہا ہے آپکو ایسا؟“

”بابا آنٹی کلثوم اور آنٹی رقیّہ نے بولا تھا۔“اپنے دونوں کی پشت سے اپنے گالوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔

”لائقہ!میری بات غور سے سنو۔اگر ہم ہر بات دل سے لگا کر بیٹھ جائیں گیں تو جو ہم ذندگی میں چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں کر سکیں گیں۔لوگوں کا کام ہی کہنا اور باتیں بنانا ہے اور انکی باتوں کو سوچ کر آپ اپنے اور حائقہ کےدرمیان دوریاں پیدا کر رہی ہو۔“
وہ رکے اور پھر سے گویا ہوئے۔
”حائقہ چھوٹی ہے اور آپ سےبہت ذیادہ مانوس ہے۔اگر آج اسکو خود سے دور کر دوگی تو کل کو جب آپ چاہو گی کہ وہ میرے قریب ہو تو بہت دیر ہوچکی ہوگی۔اور کچھ کی باتوں پر دھیان دےرہی ہو۔۔۔۔اگر میں یا آپکی مما ایسا کہتے تو آپکا ایسی چیزوں کے بارے میں سوچنا یا رونا جائز تھا۔کیا میں نے یا آپکی مما نے ایسا کچھ کہا ہے؟“
انکی بات پر اسکا فوراََ نفی میں ہلا۔
صحیح تو کہہ رہےتھے بابا اس سب کی وجہ سے وہ اپنے اور حائقہ کے درمیان دوریاں پیدا کر رہی تھی اور اس سب کی وجہ سے کسی کی ذندگی نہیں بلکہ اسکی اپنی ذندگی متاثر ہونے والی تھی۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now