باب نمبر:٢٨

874 76 47
                                    

سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔رمضان کا پہلا دن تھا۔ایسے میں ٹریک پر ٹریک سوٹ پہنے وہ پورے جذبے سے بھاگ رہا تھا۔پسینے کے باعث بال گیلے ہوکر ماتھے پر چپک گئے تھے۔بھوری آنکھوں کو چھوٹا کئیے بس وہ فوکس کئیے بھاگ رہا تھا۔
جا لائن سے پسینہ ٹپک ٹپک کر نیچے گِر رہا تھا۔
وہ سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اسکا لیکن چھپ بھی نہیں سکتا تھا۔
اسے سب کچھ بتانا اور سمجھانا بھی نہیں چاہتا تھا اور کرنا بھی چاہتا تھا۔
شاید وہ چاہتا تھا وہ خود سمجھ جائے لیکن کیا ”لائقہ جبراعیل“ اسکے بن کہے سمجھ جائے گی؟
یہ ایسا سوال تھا جسے سوچ کر وہ خود مسکرا دیا۔

لائقہ وہی کچھ سمجھنا چاہتی تھی جو اسکا دل اور دماغ چاہتے تھے ورنہ کوئی ایڑھی چوٹی کا ذور کیوں نہ لگا لے بھلا کچھ کر سکتا تھا۔

سر جھٹکتا وہ رکا اور واپس مڑا اور ایسے ہی دوڑتا ہوا گھرکی جانب بھاگنے لگا۔

گھر میں داخل ہوکر جلدی سے اوپر گیا۔۔۔۔۔اور کمرے کی جانب جانے لگا۔۔۔اب وہ اس کشمکش میں تھا آیا لائقہ جاگ رہی ہوگی یا۔۔۔۔
اسنے نہایت سنجیدگی سے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔۔۔۔ہلکی آواز کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔

اندر داخل ہوا تو دائیں طرف نظر گھمائی جہاں وہ سو رہی تھی۔
بالوں کا ڈھیلا ڈھالا جوڑا بنا ہوا تھا۔۔۔جوڑے میں سے بال نکل نکل کر بکھر چکے تھے۔۔۔۔دوپٹہ شاید سر پر کیا ہوا تھا لیکن وہ بھی سر سے ڈھلک چکا تھا۔

اسنے بےاختیار اسکی طرف بڑھنا چاہا۔۔۔اسکے بھورے اور کالے رنگ کے بالوں کو چھونا چاہا لیکن کیا وہ ایسا کر سکتا تھا؟
اتنا کمزور تھا کیا وہ کہ مقابل کی خوبصورتی دیکھ کر زیر ہوجاتا؟
نہیں وہ ایسا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔مشال ، لائقہ سے بہت ذیادہ خوبصورت تھی۔۔۔اسے تو اسنے کبھی دوسری نظر سے نہیں دیکھا تھا۔

خود کو سرزنش کرتا وہ ڈریسنگ روم میں گیا۔۔۔وہاں سے کپڑے نکال کر واشروم میں چلا گیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ واپس آیا تو لائقہ ہنوز سو رہی تھی۔
حتی الامکان کوشش کر رہا تھا کہ آواز نہ پیدا کرے۔
نہایت احتیاط سے تیار ہوکر وہ آہستگی سے اپنا آفس بیگ اٹھاتا۔۔دروازہ بند کرتا باہر نکل گیا۔

__________________________

لائقہ کی آنکھ نو بجے کے قریب کھلی۔۔۔اٹھی کمرہ صاف کیا پھر فریش ہوکر باہر نکلی۔۔۔۔۔اسماعیل صاحب بھی آٹھ بجے کے قریب ہی آفس چلے گئے تھے۔
وہ کچھ دیر لاؤنج میں بیٹھی تھی کہ مائرہ پھدکتی ہوئی اوپر آگئی۔
اسکو لگتا چین نہیں تھا ملتا کہیں۔

وہ دونوں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ حور بھی جمائی روکتی لاؤنج کے ایک صوفے پہ دھپ سے آکر بیٹھ گئی۔

”یار پہلے جاؤ اپنی یہ گندی شکل دھو کر آؤ۔“ مائرہ نے اسکے بنا منہ دھوئے اٹھ کر آجانے پر کہا۔

”أستغفر اللهْ! مائرہ گندی نظر آرہی ہے تمہیں؟“ حور نے نہایت ہی صدمے سے پوچھا۔

”بالکل۔۔۔۔بندہ اٹھتا ہے تو پہلے برش کرتا ہے منہ دھوتا ہے پر یہاں تو بات ہی نرالی ہے۔“
اسنے حور کو ملامت کرنا چاہا۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now