باب نمبر:٣٤(آخری باب)

1.2K 85 116
                                    

آخری باب:

حسن ”کمیل“ کو گود میں اٹھائے اسکے ساتھ کھیل رہا تھا۔اسکے ساتھ ہی رافعہ کی بیٹی ”ادینہ“ کھڑی تھی جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کمیل کے ہاتھوں میں اپنی انگلی ڈالتی۔۔۔جب وہ ذور سے پکڑنے کی کوشش کرتا تو واپس کھنچ لیتی۔۔۔کمیل کھلکھلاتا تو وہ بھی ہنس کر اسکا گال چوم لیتی۔

حور حسن کے ساتھ ہی بیٹھی۔۔۔۔کمیل کے سر میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔

”حور یہ بہت پیارا ہے اور چھوٹا ہے۔“

حسن مہینے کی چھٹی پر آیا ہوا تھا۔۔اسکی ٹرینگ جاری تھی۔حسن ، رافعہ کے گھر گیا تو واپسی پر ادینہ کو بھی اپنے ساتھ لے آیا۔ادینہ بہت پیاری تھی اسکے نقش زیادہ تر اسکے چچا واصف سے ملتے تھے۔واصف کی بھی جان تھی ادینہ میں۔روز ویڈیو کال پر بات کرتے ایک دوسرے سے۔

ادینہ کو لے کر وہ حور کے گھر آگیا۔بھلا اسکو چین ملنا تھا کہیں۔۔۔۔

”بچے چھوٹے ہی ہوتے ہیں حسن۔“
حور بولی تو حسن نے اسے دیکھا اور مسکرایا۔

”حور تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی؟“اب وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا۔

”ارے نہیں۔۔۔بس کمزوری ہے اور کچھ نہیں۔“ حور نے اسکی پریشانی دور کرنی چاہی۔

”وہی تو کہہ رہا ہوں۔۔۔۔تم اپنا خیال رکھا کرو۔۔۔۔بیمار ہوجاؤ گی۔“
حور اسکی فکر پر مسکرائی۔

”حسن تم کافی بدل گئے ہو آرمی میں جا کر۔“ حور نے اسکے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔

”میں تم سب سے دور ہوتا ہوں نا۔“حسن نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا۔
حور نے بھی اسکا گال چوما۔

سبط ٹوکری اٹھائے سیڑھیاں چڑھتا انکے پاس آیا۔۔۔جس میں پھل تھے۔

”چلو بھئی حسن تم بھی کھاؤ اور اپنی بہن کو بھی کہو۔۔۔۔شاید کھا لے۔“سبط بیٹھتے ہوئے بولا۔

”نہیں جی آپ کھلا دیں ناا۔۔۔کیا پتہ اسے مدد چاہیئے ہو۔“ حسن کے بولنے پر سبط تو سر جھٹک کر ہنس دیا جبکہ حور نے اسکے کندھے پر تھپڑ مارا۔

سبط نے سیب کی کاشیں بنا کر پلیٹ میں رکھیں اور سینٹر ٹیبل پر رکھ کر ان دونوں کی طرف کھسکا دی۔

حور سبط کو دیکھنے لگی۔

وہ کافی فکر کرتا تھا اسکی اور کمیل کی پیدائش کے بعد تو اور بھی خیال رکھتا تھا۔حور کے چہرے پر اطمینان تھا جو کچھ عرصے کے لیے کہیں جا کر سو گیا تھا لیکن اب پھر سے آگیا تھا۔وہ مکمل مطمئن تھی۔
سبط حسن سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔اپنے اوپر حور کی نظریں محسوس کر کے اسنے دیکھا۔اسنے بھنویں اچکا کر پوچھا ”کیا ہے؟“
حور نفی میں سر ہلا کر مسکرا دی۔۔۔جواباََ سبط بھی مسکرایا۔

حسن نے ان دونوں کو دیکھ کر مسکرایا۔
”میرا خیال ہے مجھے جانا چاہیئے۔“

ان دونوں کا ارتکاز ٹوٹا۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now