باب نمبر:٢٦

809 73 63
                                    


سِدن آفس کے کیبن میں فون اپنے داہنے ہاتھ میں لئیے بالکل خاموش۔۔۔۔۔۔تھکا ہارا۔۔۔۔ساکت سا بیٹھا تھا۔تھوڑی دیر پہلے ہی لائقہ نے اسے فون کیا تھا۔لائقہ نے بنا سوچے سمجھے اسے سنا دیا یہ جانے بغیر کہ وہ بھی تو بےقصور ہے۔۔۔اسنے تو کچھ بھی غلط نہیں کیا۔

لیکن ایک بات جو وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ لائقہ نے ایسے اسے فون کر دیا۔

اور کیا وہ اس کے ساتھ مخلص نہیں تھا؟ لائقہ نے بولا اسکے گھر والوں کے ساتھ مخلص ہوگے۔۔۔کیا وہ اسکے ساتھ مخلص نہیں تھا۔چاہے اسکے جذبات کو اہمیت نہ دے لیکن ایک دوست کی حیثیت سے تو اس نے ہر طرح سے مخلص رہنے کی کوشش کی تھی۔

”میں ایسا کیا کرتا لائقہ جبرائیل کہ تمہیں سِدن اسماعیل کی مخلصی پر یقین آجاتا؟“

”میں بزدل سہی۔۔۔کمزور سہی۔۔۔پر میں مخلص تو رہا ہوں۔۔۔۔ہر رشتے میں رہا ہوں۔میں دیر نہیں کرتا لیکن پھر بھی دیر کر دیتا ہوں۔میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔“
اسنے فون ٹیبل پر رکھا اور خود کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔

یہ وہ سِدن اسماعیل نہیں تھا جو سب کو لگتا اور دکھتا تھا۔یہ تو کوئی اور ہی تھا۔۔تھکا ، ہارا ، بزدل سا۔

____________________

حسن آجکل ہواؤں میں اڑ رہا تھا کیونکہ اسکا آرمی میں سلیکشن ہوگیا تھا۔آخر خوش کیوں نہ ہوتا۔۔۔اس نے محنت ہی اتنی کی تھی۔عید کے بعد اس نے ٹرینگ کے لیئے پی۔ایم۔اے جانا تھا ۔
اسی خوشی میں اس نے اپنے جیب خرچ سے قریبی دوستوں کو ٹریٹ دی۔
لائقہ اور حائقہ کو بھی بلایا۔

اتوار کا دن تھا۔۔۔۔مونال کے اوپن ایئر میں بیٹھے سب خوش گپیاں کر رہے تھے۔

حسن کے کچھ کہنے پر حور نے اسے ذور سے مکّا مارا۔حسن نے حور کو گھورتے ہوئے اپنا کندھا سہلایا اور سِبط سے بولا۔

”سِبط بھائی اس جنگلی بلی سے شادی کر کے بہت بڑی غلطی کر دی ہے آپ نے۔“

سِبط حسن کی بات پر صرف مسکرایا۔

”بھلا وہ کیوں؟“ سِبط نےسرسری سا پوچھا۔

”آپ کو بھی اس نے ذرا ذرا سی بات پر مارنا ہے۔۔۔۔۔اور آپکو آدھا کر دینا ہے۔“

حسن کے کہنے پر سِبط کھل کر مسکرایا۔

”سچ حور ایسا ہی کرو گی؟“ حور تواچانک سوال پوچھنے پر چھینپ گئی اور اپنے بال کان کے پیچھے اڑسنے لگی۔

سِبط نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور سر کو جھکا کر دائیں ، بائیں گھانے لگا۔

حور نے اسے کن اکھیوں سے دیکھا۔
کتنا حسین منظر تھا۔

مائرہ نے مطمئن انداز میں انہیں دیکھا۔

کچھ ہی دیر میں لائقہ اور حائقہ بھی آگئیں۔
سِدن جو فون سننے کے لیئے اٹھا تھا۔۔۔۔۔۔اپنے دھیان میں واپس آتے ہوئے لائقہ سے ٹکرا گیا۔
پیلے رنگ کی کرتی کے ساتھ سفید ٹراؤذر اور سفید ہی حجاب کیئے ہمیشہ کی طرح وہ سادہ سی دکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔بالکل وہ اتنیپیاری نہیں تھی۔۔۔۔بلاشبہ اسنے بناؤسنگھار کبھی نہیں کیا تھا اور جب سے جبرائیل صاحب دنیا سے گئے تھے اسکا کسی چیز کو کرنے کا دل نہیں کرتا تھا۔
اسکے چہرے پر تو شادو نادر ہی مسکراہٹ احاطہ کرتی اور وہ بھی بہت ہلکی۔
ابھی بھی اسکا چہرہ کسی ھی تاثر سے پاک تھا جیسے اسکو پتہ ہی نہیں کس موقع پر کیسے تاثر دیتے اور کسی موقع پر کیسے۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now