باب نمبر : ١٦

671 55 119
                                    


مشال پاس آئی تو لائقہ اور حائقہ کھڑی ہو گئیں۔جبکہ مشال نےمسکرا کر فاطمہ کے آگے ہاتھ کیا۔۔۔۔۔جسے فاطمہ نے مسکرا کر تھام لیا۔
لائقہ اور حائقہ کے سامنے بھی ایسے ہی مسکرا کر ہاتھ بڑھایا۔لائقہ نے بھی مسکرا کر تھام لیا۔

سِدن نے اچانک اس طرف دیکھا جہاں وہ پانچوں کھڑی کسی بات پر مسکرا رہیں تھی تو اسکی آنکھوں میں چھپن ہوئی۔

”یہ لڑکی کہیں کا نہیں چھوڑے گی مجھے۔“ سوچ کر اسنے گردن کی پشت سلی اور سر جھٹکتے ہوئے پھر سے سِبط کی طرف متوجہ ہوگیا۔

لائقہ کو مشال کافی اچھی لگی تھی۔ اسکو تو ہر کوئی ہی اچھا لگتا تھا بقول سِدن کے۔۔۔۔۔لیکن ”سِدن اسماعیل“ کو چھوڑ کے۔

مائرہ اور حور کو بھی مشال اچھی لگی تھی۔

تھوڑی دیر بعد اسماعیل صاحب نے سب کو متوجہ کر کے شاہد کاظمی کا تعارف کروایا۔

”یہ ہیں میرے بہت اچھے دوست۔شاہد کاظمی۔۔۔اب ہماری دوستی رشتہ داری میں بدلنے والی ہے۔سِدن اور مشال کا رشتہ طے ہوگیا ہے۔الحَمْد للهْ‎۔“
اسماعیل صاحب مسکرا کر بولے۔

”جلد ہی دونوں بچوں کی شادی کروا دیں گے۔“اسماعیل صاحب مزید بولے۔

لائقہ نےمشال کو دیکھا جس کے چہرے پر اب مسراہٹ کی جگہ بےذاریت تھی۔لائقہ کو اچھنبہ ہوا لیکن سر جھٹک کر سامنے دیکھا تو سِدن اسی کو دیکھ رہا تھا۔لائقہ نے فورا نظریں جھکا دیں۔

اب اسماعیل صاحب بتا رہے تھے کہ فیملی ڈنر کر کے تاریخ طے کر دیں گیں۔
لائقہ نے پھر نظریں نہ اٹھائی۔

______________________

لائقہ صوفے پر ٹانگیں لمبی کیئے عام سے حلیے میں فون ہاتھ میں لیئے مصروف سی بیٹھی تھی۔حائقہ نیچے بیٹھی اپنا کام کر رہی تھی۔
فاطمہ سامنے بیڈ پر بیٹھیں تھی۔

”لائقہ کل چھٹی کر لینا۔“

”کس لیئے؟“ لائقہ نے مصروف سے انداز میں پوچھا۔

”حور کہہ رہی تھی کارڈ دینے آئیں گیں تو تم کچن میں ہیلپ کروا دینا میری۔اب مریم کو تو نہیں کہہ سکتی میں۔تم سامان بھی لے آنا۔“فاطمہ نے تفصیلاََ جواب دیا۔

لائقہ کی اب حور سے بہت کم بات ہوتی تھی۔
ایک لمحے کو تو اسکے فون پر چلتے ہاتھ رکے لیکن پھر مصروف سے انداز میں بولی۔

”ٹھیک ہے۔۔۔لے آؤں گی اور بتا دیں کیا بناؤں؟“

فاطمہ اسی کو دیکھ رہی تھی۔اسکے ہاتھوں کا تھمنا اور چہرے کے اتار چڑھاؤ باخوبی دیکھے تھے۔فاطمہ نے یہ بھی محسوس کیا تھا جب سے وہ تینوں حور کے گھر سے دعوت پر سے واپس آئیں تھی تب سے لائقہ اور بھی سنجیدہ رہنے لگی تھی۔

”حائقہ جلدی کرو۔۔۔۔سونے چلیں۔“لائقہ سنجیدگی سے کہتی ہوئی اٹھی اور بیڈ کے قریب جاکر سائیڈ ٹیبل سے دوائیوں کا ڈبہ اٹھایا اور دوائیاں نکال کر فاطمہ کی طرف بڑھا دیں۔فاطمہ نے گولیاں پکڑ لیں تو جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر اسکی طرف بڑھایا۔
فاطمہ بس اسکے چہرے کی سنجیدگی دیکھ رہی تھی۔
دوائی دے کر پلٹی اور خاموشی سے حائقہ کی چیزیں سمٹوانے لگی۔کلرز ٹوکری میں ڈالے اور کتابیں سمیٹ کر ایک دوسرے کے اوپر رکھیں۔حائقہ اپنے بیگ میں چیزیں اڑس رہی تھی۔
کتابیں اٹھا کر جانے لگی تو فاطمہ کی آواز نے اسکے چلتے قدم روکے۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now