باب نمبر: ١٧

651 55 72
                                    


لائقہ لیپ ٹاپ لے کر ڈھیلے ڈھالے حلیے میں مصروف سی ٹیبل کے آگے کرسی رکھ کر بیٹھی تھی۔حائقہ فاطمہ کے کمرے میں تھی۔ابھی وہ ایسے ہی مصروف تھی کہ فون پر کال آنے لگی۔اٹھی اور سائیڈ ٹیبل سے جا کر فون اٹھا کر دیکھا تو ”اسماعیل انکل“ کا نام جگمگا رہا تھا۔کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگایا۔

”اسلام علیکم! اسماعیل انکل۔“

”وعلیکم سلام! لائقہ بیٹا کیسی ہو؟“ اسماعیل انکل نے پوچھا۔

”میں ٹھیک انکل۔آپ کیسے ہیں؟“

”میں ٹھیک بیٹا۔آپکے گھر کا ڈرافٹ بن گیا ہے۔۔۔آپ کل گھر آ کر سِدن سے فائیل لے جانا۔۔۔میں لاہور آیا ہوا ہوں۔“

”جی انکل۔“

”ہاں بیٹا یاد سے لے جانا۔“

”جی۔“

”اوکے بیٹا! اللہ حافظ۔“

”اللہ حافظ!“ آہستہ سے کہہ کر اسنے فون کان سے ہٹایا۔

لمبا سانس بھر کر دوبارہ سے ٹیبل کے سامنے کرسی گھسیٹ کر سر ہاتھوں میں گرا کر بیٹھ گئی لیکن اب دل کسی بھی کام کرنے سے اچاٹ ہوگیا تھا۔

_______________________

اتوار کا دن تھا۔طاہرہ نے سارے گھر کی صفائی کروانی تھی۔۔۔۔صبح سے کام والی آنٹی کے ساتھ مل کر ایک ایک کمرے کی مکمل صفائی کر رہی تھیں۔شادی قریب تھی اور ہزاروں کام تھے۔
سِدن کسی کام میں دلچسبی نہیں لے رہا تھا۔طاہرہ نے بہت بار سنائی بھی تھیں لیکن وہ ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا۔ابھی بھی اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے بولنا شروع کر دیا۔

”سِدن اٹھ بھی جاؤ۔بیمار کیا ہوئے ہو بالکل سست ہوگئے ہو۔“ طاہرہ کی بےذاریت سے بھرپور آواز پر وہ جو اوندھے منہ بیڈ پر پڑا تھا۔۔۔سیدھے ہوتے ہوئے سر اٹھا کر۔۔۔۔انکو دیکھنے لگا۔

”ماما۔۔۔کیا کروں اب میں؟“ ان سے بھی ذیادہ بےذاریت اسے لہجے میں تھی۔طاہرہ نے سر جھٹکا۔

”اٹھو کمرے کی صفائی کروانی ہے۔“
انہوں نے ہاتھ میں پکڑے شاپر سامنے صوفے پر رکھ دیئے۔

”ماما میرے کمرے کی آخر میں کروا لینا نہ۔“

”اچھا ٹھیک ہے لیکن شام کو رافعہ ، حور اور مائرہ کو شاپنگ پر لے جانا۔رافعہ ہیلپ کر دے گی دونوں کی۔“

”ماما میں نہیں جاؤں گا۔“اکتاہٹ سے جواب دیا۔

”بیٹا جائیں گے تو تمہارے اچھے بھی۔اٹھو فریش ہو جاؤ اچھا فیل کرو گے۔“

”افف۔۔۔اچھا ٹھیک ہے۔“

طاہرہ کمرے سے باہر چلیں گئیں۔۔جبکہ وہ پھر سے بیڈ پر اونڈھے منہ لیٹ گیا۔

_______________________

لائقہ نے گاڑی روڈ کے سائیڈ پر پارک کی اور لاک کر کے روڈ کراس کی۔اس نےاپنے گھر کو دیکھا جس کے بھورے دروازے پر بڑا سا تالہ لگا تھا۔پھر نظریں گھما کر سامنے بڑے سفید گیٹ کو دیکھا۔گیٹ کھلا تھا۔خان بابا چھاڑو لگا رہے تھے۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin